Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

چین میں روزہ رکھنے کی پابندی

by | Jul 6, 2014

کہیں مسلم ممالک چینی مصنوعات کا بائیکاٹ شروع نہ کر دیں!
ڈاکٹر نیلوفر حبیب

CHINA RAMADAN BAN

دنیا بھر کے مسلمان رمضان کے مہینے میں روزے رکھ رہے ہیں۔ چین کے شنجیانگ علاقے میں روزہ رکھنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ شنجیانگ میں ویگھر مسلمان ہیں اور چین کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہاں کے مسلمان علیحدگی پسندی کے شکار بن رہے ہیں۔ اس علاقہ میں چین ظالمانہ کارروائی بھی کر رہا ہے۔ چین کی حکومت نہیں چاہتی کہ یہاں کے مسلمان اپنے مذہب اور ثقافتی روایات پر عمل کریں۔ اس خبر سے مذہبی ذہن کے لوگ مایوس ہیں۔ اس کا حل جلد سے جلد نکلنا چاہیے۔
چین کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو فوراً بحال کیا جانا ضروری ہے۔ سبھی مسلم ممالک کے ساتھ ساری دنیا کے سبھی مذہبی طبقوں کو چینی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے۔ چین خود وقت رہتے اگر اس قدم کو واپس نہیں لیتا تو اسے پوری دنیا میں بے اطمینانی اور مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ وہی چین ہے جس نے دنیا میں انصاف پرست کمیونسٹ نظام لانے کا خواب دکھایا تھا۔ دنیا میں غیر برابری کو ختم کرنے کا کمیونسٹ نظام کا سربراہ نظر آنے والا چین مائو تسے تنگ کی قیادت کے بعد پوری طرح بدل گیا ہے۔ وقت کے ساتھ پوری دنیا نے حقیقت کو جانا ہے۔ سماجی و مذہبی اقدار کے تئیں عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔ کمیونسٹوں کے لیے بھلے ہی مذہب ’افیم‘ ہو لیکن مذہبی لوگوں کے لیے یہ جینے کا ایک پاکیزہ راستہ ہے۔ وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتا بھلے ہی اس کا مذہب و عقیدہ ایک دوسرے سے الگ کیوں نہ ہوں۔ کمیونسٹ نظریات کے جھونکے میں آنے کے بعد لاکھوں لوگ واپس اپنے مذہبی عقیدے کی طرف لوٹے ہیں۔ بدلائو کے اس نئے تجربہ اور نظریہ کو سماج کے بڑے حصے نے مسترد کر دیا ہے۔ اس کے باوجود کمیونسٹ کا خواب ابھی بھی کچھ دلوں میں انگڑائی لیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب سوویت یونین اور چین اپنے نئے سیاسی نظام کے سبب دنیا میں سامراجیت اور سرمایہ داری کے لیے چیلنج بن کر ابھرا تھا۔ کارل مارکس، مائو جسے تنگ اور اسٹالن کی کتابیں اور تقاریر مذہبی صحیفوں کی طرح پڑھے اور سنبھال کر رکھے جاتے تھے۔ کمیونسٹ نظام کی اپنی اندرونی چپقلش اور اختلافات کے سبب پہلے سوویت یونین کی شکل بدلی۔ سوویت یونین کے ساتھ شامل ہونے والے کئی جمہوری ممالک اس سے علیحدہ ہو گئے۔ تب سوویت یونین کے بانی ولادیمن لینن کے مجسمے کو منہدم کیے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ دیکھتے دیکھتے سرمایہ داری اور سامراجیت کی مثال امریکہ کے سامنے کھڑا چیلنج بھی ایک معنوں میں ختم ہو گیا۔ کمیونسٹ کے اس قلع کو منہدم ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ اسی طرح سے جس طرح سے ہندوستان کی آزادی کے دو سال بعد چین جمہوری ملک کی شکل میں ابھرا۔ دھیرے دھیرے اس کا گہرا لال رنگ بھی ہلکا ہونے لگا۔ ایک وقت تھا جب یہ دونوں ممالک کمیونسٹوں کے شرمندۂ تعبیر خواب کی طرح عالمی منظرنامہ پر نظر آ رہے تھے۔ مختلف ممالک میں جہاں کہیں بھی سماجی تبدیلی کی ہوا چلتی ہوئی نظر آتی تھی اس میں کہیں سوویت یونین کا ہلکا لال رنگ تو کہیں گہرا چینی لال رنگ نظر آتا تھا۔ ہندوستان اور دنیا کے مختلف ممالک میں لینن ازم اور مائو ازم کے نام پر نہ صرف پارٹی بنیں بلکہ ان کے بینر تلے بڑی بڑی تحریکیں ہوئیں اور کئی ممالک میں تبدیلی نظام کی دہلیز بھی پار کی۔ آج بھی کمیونسٹ نظام لانے کی للک سیاسی گروپوں میں برقرار ہے۔ یونیورسٹیوں میں ایسے گروپ ابھی تک سرگرم ہیں۔ ابھی بھی سیاسی گروپ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور سے ان ممالک کے ساتھ نظریاتی اور جذباتی طور سے جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان سب کے لیے مارکس، لینن، اسٹالن اور مائوتسے تنگ مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 70 کی دہائی تک ان کی جارحیت بھی نظر آتی رہی۔ اس نظریہ کے بہائو کی گرفت میں دنیا کے بڑے طبقات آتے رہے۔ تعلیم یافتہ طبقہ کا بڑا حصہ ’کمیونسٹ‘ اور ’غیر ایشورواد‘ سے جڑتا رہا۔ دوسری طرف کمیونسٹ ممالک میں مذہبی طبقہ روایتی طور پر زندہ رہا۔ وہ مذہبی عقیدوں اور ثقافت کا احترام کرتے رہے۔ نہ صرف مسلم طبقہ بلکہ بودھ، عیسائی، پارسی وغیرہ تبدیل شدہ سماجی ماحول کے باوجود اپنے مذہب پر قائم رہے۔ بندشوں کے باوجود خود کو اپنے مذہب سے جوڑے رہے۔ ان کمیونسٹ ممالک کے مسلم طبقہ کے لوگ کمیونسٹ نظام (غیر ایشور واد) کے باوجود سوویت یونین اور چین جیسے ممالک میں اپنے عقیدوں پر قائم رہے۔ غیر ایشوروادی ریاست اقتدار کے باوجود سماج اپنے روایتی نظریہ اور عقیدوں کو برقرار رکھتا رہا۔ کمیونزم کی رول ماڈل سیاسی نظام میں نرمی آنے سے مذہبی گروپوں کو اپنے رسم و رواج کو فروغ دینے کا موقع ملنے لگا۔ شاید اسی وجہ سے حج کرنے کے لیے پوری دنیا کے ممالک سے سعودی عرب واقع مکہ اور مدینہ آنے والوں میں چین کے مسلم شہری بھی دیکھے جاتے ہیں۔ اگر چین سے مسلمان حج کرنے کے لیے مکہ مدینہ آ سکتے ہیں تو وہ اپنے ملک میں رہتے ہوئے اپنے مذہبی عقیدوں پر عمل کیوں نہیں کر سکتے؟ چین آخر ایسا کیوں چاہتا ہے کہ اس کے مسلم شہری روزے نہ رکھیں۔ ایسا کر کے چین کی حکومت جہاں روزے رکھنے کی پاکیزہ روایت کے تئیں اپنی بدعقیدگی ظاہر کر رہا ہے وہیں وہ عالمی امن، ایمان اور بھائی چارے والے مذہب کو شبہات کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ یہ اس کے لیے کسی بھی طرح سے ثمر آور نہیں رہے گا۔
چین کی حکومت کے تئیں اگر وہاں کے مسلم مذہبی طبقات میں بغاوت کا جذبہ ہے تو اس کا سماجی حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ اسلام دین اور دنیا میں متوازن زندگی گزارنے کا پیغامبر ہے۔ رمضان کا روزہ غریبی میں زندگی کیسے گزارا جا سکتا ہے، اس کا پیغام دیتا ہے۔ یہ مذہب اپنے پڑوسی کا پورا خیال رکھنے کا پیغام اگر دیتا ہے تو اپنے ملک کے لیے بغاوت کرنے کو کس طرح کہہ سکتا ہے۔ کیسی عجیب و غریب صورت حال ہے کہ جہاں لوگ روزے سے ہوں اور وہاں کی حکومت کہے کہ یہ کھانا کھائو، روزے نہ رکھو۔ اپنے پروردگار کو باضابطہ طور پر یاد نہ کرو، نماز نہ پڑھو۔ ایسا کرنے والے ملک کی تنقید ہونی چاہیے اور اس پر دبائو بنایا جانا چاہیے کہ وہ عقیدوں کے معاملے پر ایسی زور زبردستی نہ کرے۔ چین کو سمجھنا ہوگا کہ مدلل اور زندگی بسر کرنے کا پرامن راستہ دکھانے والے مذہب کے عقیدتمندوں کے ساتھ ان کا یہ برتائو کوئی بھی برداشت نہیں کرے گا۔ اگر مذہبی عقیدوں کو دبایا جائے گا تو بغاوت ہوگی۔ جہاں روزے رکھنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے وہاں کے مسلم ہجرت کرنا شروع کر دیں گے۔ اس لیے نہیں کہ انھیں اپنی سرزمین چین سے ناراضگی ہے بلکہ وہ ناراض اس بات سے ہوں گے کہ انھیں ان کے ملک کا سیاسی نظام ان کے مذہبی راستہ پر چلنے نہیں دے رہا۔ یہ بھی دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام میں ایسی کیا بات ہے کہ بڑے پیمانے پر روزانہ لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ چین کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں 55 ممالک میں اسلامی حکومت ہے۔ چین کی تجارت پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ اس ملک کی مصنوعات پوری دنیا میں موجود ہیں۔ چین اگر اپنے ملک میں مسلمانوں کو روزے نہیں رکھنے دیتا ہے تو دنیا کے مسلمان اس کی مصنوعات کو خریدنا بند کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو اس کا پورا اقتصادی نظام چرمرا جائے گا۔ اس سے پہلے کہ کوئی ملک یا کسی اسٹیج سے چین میں مسلمانوں کی روزے رکھنے کی مذہبی آزادی کو چھینے جانے کی مخالفت میں اس ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرے، اسے اپنے اس فیصلہ کو بدل لینا چاہیے۔ یہ معاملہ اتنا سنگین نہیں ہے کہ مسلم ملک ہی نہیں دوسرے جمہوری ملک چین کے خلاف اس طرح کا فیصلہ لے سکتے ہیں۔ یہ بھی جانکاری ملی ہے کہ اس علاقے میں نماز پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔ 1948 میں جب اس علاقے کو پیپلز ریپبلک آف چائنا میں شامل کیا گیا تب سے بیجنگ کا مقصد شنجیانگ کو سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی طور پر چین میں پوری طرح سے ملانا ہے اور غیر ہان آبادی کو خود میں ملانا رہا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ ظلم، پابندی اور سرمایہ کاری کی پالیسی اختیار کرتے رہے ہیں۔ چین کی حکومت یہاں کے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے بہت سختی کرتی ہے۔ مذہبی پابندیاں بھی ہیں، لیکن مذہبی کاموں میں اس طرح کی زور زبردستی تصادم کی صورت پیدا کر سکتی ہے۔ یہ تصادم اندرونی ہی نہیں، عالمی سطح پر بڑھ سکتی ہے۔ چین کو اپنی ضد چھوڑنی ہوگی۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...