معاشرے میں تبدیلی کے رجحان اور اس کے مضر اثرات

عرفان نوری، نئی دہلی

ہمیشہ سے انسان تبدلی کا خواہاں رہاہے اور حتی المقدور تبدیلی لانے کی تگ ودو بھی کرتا رہتا ہے۔ یہ تبدیلی مختلف اوقات میں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اور کئی مرتبہ انسان کی اس خواہش نے اسے مشکلات میں بھی مبتلا کیا ہے۔ لیکن موجودہ وقت میں سماج میں تبدیلی کا ایسا رجحان پایا جارہا ہے جو پہلے سے بالکل مختلف ہے اور اس رجحان سے سماج کا کوئی طبقہ، کوئی شعبہ اور کوئی محکمہ مبرا نہیں ہے۔ معاشرے کاہر شخص ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہا ہے اور ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے اور شیخی بگھاڑنے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ گھر کی کسی چیز میں بھی خرابی آئی خواہ وہ کتنی ہی اہمیت کی حامل کیوں نہ ہو، اسے تبدیل کرنے میں کسی کو کوئی تامل نہیں ہوتا۔ اب آپ ہی غور کریں کہ پہلے لوگ کپڑے اس وقت تک پہنتے تھے جب تک کپڑے میں پیوند لگانے کی بھی کوئی جگہ نہ بچتی تھی، مگر آج صورت حال اس کے بر عکس ہے۔ آج کم سے کم کپڑوں کے استعمال کا رجحان عام ہے۔ نوجوان کپڑے بھی پھٹے ہی خریدتے ہیں۔ اور کچھ ہی دنوں میں ان کپڑوں کا استعمال صرف اس لئے ترک کر دیتے ہیں کیوںکہ اس فیشن کا زمانہ گزر گیا۔ پہلے ایک استاد بچوں کو پڑھاتا تھا تو اس کی ساری توجہ ان کو معیاری تعلیم فراہم کرانے پر ہوتی تھی، اور بچہ تا عمراس استاد کی عزت کرتا تھا۔ مگر آج حالات قدرے مختلف ہیں۔ اب بچے اساتذہ کو یرغمال بناتے ہیں۔ اساتذہ کو زدو کوب کرتے ہیں۔ بچے اپنے اساتذہ کی قابلیت طے کرتے ہیں۔ اگر خدا نہ خواستہ استاد سے ڈانٹنے کی غلطی سر زد ہو گئی تو بچے یہ حکم صادر فرما دیتے ہیں کہ وہ اس فاضل استاد سے تعلیم حاصل نہیں کریں گے کیونکہ انکی اہلیت کم درجے کی ہے۔ لیکن سب سے افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ ایک شخص پوری زندگی انتھک کوششیں کرتاہے اور اپنے اور اپنے بچوں کے لئے آشیانہ بناتا ہے۔ اپنے بچوں کی خوشی، تعلیم و تربیت اور ان کی خواہشات پوری کرنے کے لئے محنت مزدوری کرتا ہے۔ لیکن جب اس کے آرام کرنے فارغ البال ہونے کا وقت آتاہے توبچوں کے مزاج میں تبدیلی آجاتی ہے۔ بچوں کا رویہ اپنے والدین کے ساتھ یکسر بدل جاتا ہے جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس دور کے والدین اپنے بچوں کو ان کے دادا دادی سے دور رکھنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں تا کہ ان کے بچے کی ذہنیت خراب و فرسودہ نہ ہو جائے، یا دادا دادی کی خرابیٔ صحت کا بچے پر اثر نہ پڑے۔ دور جدید کے فرمانبردار بچوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ رویہ ناقابل گفتہ بہ ہے۔ ان کے ساتھ ملازموں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق بزرگ والدین کی وجہ سے گھر میں نحوست ہے اس لئے ان کا وجود گھر کے ماحول کے لئے ٹھیک نہیں سمجھا جاتا۔ انہیں بات بات پر جھڑک دینے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ اور ان کے ذہن میں یہ بات باکل نہیں ہوتی کہ یہی وہ والدین ہیں جنھوں نے ان کی پرورش کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔ رات کی نیند، دن کا سکون، مال و دولت وسرمایہ سب کچھ۔ ان کی ایک مسکان سے وہ پورے دن کی تھکان بھول جاتے تھے۔ آج وہی ماں باپ اپنے بچوں کی نظر میں بوجھ بن گئے ہیں۔ اگر ہم دنیا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ مغربی ممالک پہلے سے ہی اس طرح کی بیماری کے شکار ہیں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس متعدی مرض نے پوری دنیاکو اپنی چپیٹ میں لے لیا،اور مشرق کے لوگ جو روایت پرستی کے لیے جانے جاتے تھے، جو اپنی تہذیب و روایات کے لئے اپنی جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، اب وہ بھی اس ’وائرس‘ سے متاثر ہو گئے ہیں۔ ہندوستان میں تقریبا 81 ملین بزرگ افراد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چالیس فیصد بزرگ افراد ہی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں جہاں انہیں گالم گلوج، دشنام طرازی، طعنہ کشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات چھ میں سے صرف ایک ہی سامنے آپاتے ہیں جب کوئی بزرگ پوری زندگی تنکا تنکا سمیٹ کر اپنے آخری ایام سکون سے گزارنے کے لئے آشیانہ بناتے ہیں۔ انہیں اپنی ہی اودلاد کے ناروا سلوک کی وجہ سے گھر چھوڑنا پڑتا ہے یا اولاد انہیں ان کے ہی گھر سے نکال دیتی ہے اور انہیں اولڈ ایچ ہوم میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ جس معاشرے کے بزرگ خیراتی ادارے میں پناہ لینے پر مجبور ہو رہے ہوں، کیا انہیں مہذب کہلانے کا حق ہے۔ معاشرے میں تبدیلی کا رجحان اس حد تک ہے کی جب بیٹی شادی کے بعد اپنا گھر بدلتی ہے تو بیٹا والدین بدل دیتا ہے۔ اب اسے اپنے والدین کھٹکنے لگتے ہیں۔ یہ معاشرے کی بے حسی ہی ہے کہ ایک ماں ایک باپ پانچ بچے کی پروش کر دیتے ہیں پر پانچ بچے اپنے ایک ماں باپ کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ اولڈ ایج ہوم کی برائی کرنا مقصود نہیں ہے، اولڈ ایج ہوم میں بزرگوں کو عزت و وقارسے نوازا جاتا ہے۔ اولڈ ایج ہوم میں بزرگوں کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کی جاتی ہے، ان کی رہائش، صحت، علاج و دیگر ضروریات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ قابل مبارک باد ہیں وہ ادارے جنہوں نے بزرگوں کو ان کا وقار واپس دلانے کے لئے اقدام کئے ہیں یاکر رہے ہیں۔ آج نئی نسل کو بزرگوں کے احترام کے بارے میں آگاہ کیا جانا انتہائی ضروری ہے تا کہ وہ اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اولڈ ایج ہوم کا قیام لاوارث بزرگوں کے ساتھ صلہ رحمی، ان کی دل جوئی اور ان کی پر سکون زندگی کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ تاکہ بچوں کی عدم توجہی اور ام کے ناروا سلوک سے عاجز بزرگ اولڈ ایج ہوم کے پر سکون ماحول میں اطمینان کی زندگی گزار سکیں۔ بہت سے افراد ایسے ہیں جوخود کوغیرت مند ثابت کر نے کے لئے اولڈ ایج ہوم میں ان کے بزرگوں پر آنے والے اخراجات ادا کر دیتے ہیں۔ معاشرے کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ ایک بزرگ خاتون دو سال اولڈ ایج ہوم میں رہتی ہیں، اپنی اولاد کی محبت میں آہ و زاری کرتی ہیں اور اپنا ذہنی توازن کھو دیتی ہیں۔ مگر ان کی اولاد ان کی کوئی خبر گیری نہیں کرتی۔ انتظامیہ کے اصرار پر اس کی اولاد دو سال میں محض پانچ مرتبہ ملاقات کو آتی ہے۔ خاتون کے انتقال کے بعد اس کی اولاد نے محلے والوں سے چندہ اکٹھا کر کے تدفین کی۔ محلے کے لوگوں کے مطابق ان کی مالی حالت اتنی بھی خراب نہیں تھی کہ وہ اس کا خرچ بھی نہ اٹھا سکتے۔ حالانکہ وہ خاتون جوانی میں ہی بیوہ ہوگئی تھیں مگر اپنے بچوں کو باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ انہیں پڑھا یا لکھایا، ان کی دیکھ بھال کی مگر جب ان کی دیکھ بھال کا وقت آیا تو ان کی اولاد نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ جس کی وجہ سے انہیں بادل نا خواستہ اپنا گھر تبدیل کرنا پڑا۔ ہندوستانی معاشرہ خاندانی نظام کی وجہ سے پوری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر اب یہاں کے لوگوں نے مغربی طرز زندگی سے متاثر ہو کر اپنی روایات کو تبدیل کر دیا۔ اب موجودہ صورتحال کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حالات مزید ابتر ہوتے جائیں گے۔ اگر معاشرے کے ہر طبقے نے حتی المقدور اس تبدیلی کو روکنے کی کوشش نہ کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس تبدیلی کی ہوا ان کے گھر کو بھی جلا دے اور انہیں بھی اپنا رنگ وآہنگ اور مکان تبدیل کرتے ہوئے اولڈ ایج ہوم میں قیام کرنا پڑے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *