Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

دارالقضاء اورقومی میڈیا

by | Jul 9, 2014

اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں۳۲میلین مقدمات زیر سماعت ہیں

مرزاعبدالقیوم ندوی

مرزاعبدالقیوم ندوی

مرزاعبدالقیوم ندوی *
قومی ترجمان آل انڈیا مسلم او بی سی آرگنائزیشن 09325203227
بچے عموماََ ایک کھیل کھیلتے ہے، چیل اڑی ،کوااڑا،توااڑا،گائے اڑی،بھینس اڑی۔ قومی میڈیاکا رویہ بھی مسلمانوں کے مسائل کے سلسلہ میںکچھ اسی طرح کا ہے۔ شرعی عدالتوں کے سلسلہ میںسپریم کورٹ کی حالیہفیصلے کے بعد میڈیا نے جو بے پر کی اڑانا شروع کی ہے اس پرجہاں ہنسی آتی ہے وہیں افسوس بھی ہوتا ہے۔جسٹس سی کے پرساد اور جسٹس پنا کی چندرگھوش کی بینچ نے اپنے حالیہفیصلے میںکہاکہ شرعی عدالتوں کے فیصلو ں کی کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے ۔عدالت نے مزیدیہ بھی کہا کہ فریق ثالث کے حقوق پر اثرانداز ہونے والے فتاوٰی جاری نہیں کئے جاسکتے اور یہ کہ ایسے فتویٰ کی پابندی کسی پربھی قانونی اعتبارسے لازمی نہیں ہے ۔
مسلم پرسنل لاء بورڈنے واضح کیاکہ’’ہم ایسا کوئی کام نہیں کررہے ہیں جونظام عدلیہ کے متوازی ہواور ہم یہ بھی نہیںکہتے کہ کسی قاضی کا صادر کردہ کوئی حکم سب کے لیے لازماََقابل تعمیل ہے۔
اس وقت ملک کی مختلف عدالتوں میں۳۲میلین مقدمات زیر سماعت ہیں:سال گزشتہ وزیر قانون وانصاف کپل سبل نے لوک سبھامیں کہا تھا کہ 3,292,785مقدمات کو 1,192فاسٹ ٹریک عدالتوںکے ذریعہ مارچ 2011ء تک فیصل کردیئے گئے ہیں۔انہوں نیمزید یہ بھی کہا کہ اس کے باوجو د پورے ملک میں 32millionمقدمے ہائی کورٹ اور اس کے ذیلی عدالتوں میں زیرالتواء میںہے۔دسمبر 2012تک 27.6,million cases panding ذیلی عدالتوںمیں۔اسی طرح 4.4,millionمقدمے مختلف ہائی کورٹ میں زیرالتوا ء ہیں۔ دہلی کے ایک ریٹائرڈ جج کا کہنا ہے کہ ان مقدمات کے فوری حل کے لیے نئے ججوں کی تقرری ضروری ہے۔کئی سالوں سے ججوں کی تقرری عمل میں نہیں آئی ہے۔جس کیبناء پر عدالتوں میںمقدمات کی بھرمار اور انصاف میںتاخیر ہورہی ہے۔
یہ بات روزروشن کی طرح عیا ں ہے کہ آج تک کسی بھی شرعی عدالت یادارالقضا ء نے اپنے فیصلوں کانفاذ آزادبھارت میں نہیںکیا نہ جبراََ اپنے کسی فتوی پر عمل کرایا ۔جس طرح کہ ملک میںجاری بے شمار کھاپ پنچایتیں کراتی ہیں۔گزشتہ دنوں کھاپ پنچایتوں کے فیصلو ں اور اس پرعمل نہ کرنے والے افراد پرظلم وزیادتی کے جوواقعات اخبارات والیکٹرانک میڈیا نے دکھائے ان کو دیکھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ برادری یا گاؤںکی پنچایت کا فیصلہ نہ ماننے پر عورتوں کے ساتھ سرعام اجتماعی آبروریزی کی گئی،یا اس کوبرہنہ گاؤں میں گھمایاگیا،لڑکی اور لڑکے والوں کو گاؤں اور برادری سے باہر کردیاگیا۔ان پر بھاری جرمانہ عائد کیاگیا۔اس طرح کے معاملات و واقعات یا فیصلے کس بھی دارالقضا کے ذریعہ نہیں کیے گئے ہیں۔بھارت کا جو سماجی ڈھانچہ ہے وہ ذات پات پر مشتمل ہے،آج بھی یہاں ،ذات پات،برادری واد کا بول بالا ہے ۔ تمام تر قوانین کے باوجود مختلف مذاہب کی برادریوں کی پکڑ اپنی اپنی برادریوں پر مضبوط ہے۔آج بھی برادری کے فیصلہ کے خلاف کوئی اگرجاتاہے تو اس کا سوشل بائیکاٹ کیاجاتاہے۔ شادی بیاں، موت مٹی،روٹی بیٹی کامعاملہ ان سے نہیں کیاجاتا ہے۔اسی طرح کی کچھ صورتحال مسلمانوں میں بھی ہے۔ ان کے پاس بھی برادری واد پایا جاتاہے۔ غیر برادری میںشادی نہیں کی جاتی ۔ برادری کے چودھری کافیصلہ حتمی ہوتاہے۔
حکومت مہاراشٹرنے گاؤں میںبڑھتے ہوئے جھگڑے فساد کے مد نظر ’’مہاتماگاندھی تنٹا مکتی ابھیان ‘‘چلارکھاہے۔ یہ کیا ہے ؟آپس کے گاؤںکے جھگڑے گاؤں ہی میں حل ہوجائیں لوگ کورٹ کچریوںکے چکر سے نجات پاسکیں۔کیونکہ قانون اتناسستانہیں ہے کہ غریب آدمی وکیلوں کی بھاری اور طویل مدت چلنے والے قانونی کاروائی کے اخراجات برداشت کرسکیں۔اس لیے حکومت مہاراشٹرنے’’ مہاتماگاندھی تنٹا مکتی ابھیان‘‘ گاؤںگاؤںمیںچلارکھا ہے۔اسی طرح شرعی عدالتیں بھی اپنی اپنی حددو میں سماجی برائیو ں کو ختم کرنے کا کا کرتی ہے۔
دارالقضاء کیا ہے: سب سے بڑی غلط فہمی یہ پیداکی جارہی ہے کہ دارالقضاء یا امارت شرعیہ کے ذریعہ ملک میں متوازی عدلیہ نظام چلایا جارہاہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ،مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر اسلامی اداروں نے صاف و واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’اس ملک میں ہم کوئی متوازی نظام یا کورٹ قائم نہیںکرناچاہتے ہیں،دارالافتاء یا دارا لقضا ء لوگوں کی سہولتوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔لوگ یہاںپراپنے مسائل لے کرآتے ہیں،فتوی ٰ طلب کرتے ہیں ،اور چلے جاتے ہیں،مفتی کا کام صرف اتنا ہے کہ جوکچھ پوچھا گیا ہے،شریعت کے دائرے میںاس کاجواب وہ سائل کودیں،اس پرعمل کرانایا فتوی ٰکو مانننے پرزبردستی کرانا یہ مفتی کا کام نہیں ہے۔ اس نے شریعت کی روشنی میںاپنی رائے دے دی ہے۔ہمیں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ ملک کے کسی دارالقضاء نے فتوی ٰ نہ ماننے پر کسی شخص کو اسلام سے یا گاؤ ں ،باہر کیا ہو،یا اس کے ساتھ کوئی غیر شرعی وغیر قانونی عمل کیا ہو۔ اس ترقی یافتہ دور میں ہر انسان کسی بھی معاملہ میںایکسرپٹ سے رائے طلب کرتا ہے کہ فلاں معاملہ میںآپ کے رائے کیا ہے،اگر کوئی بیمار ہوتاہے تو وہ اس بیماری کا علاج کرنے والے کسی ماہر کے پاس جاتاہے ،قانونی معاملات میں بھی لوگ وکیلوںسے رائے طلب کرتے ہیں۔ملک میںاس وقت کئی consult /expertکام کرتے ہیں،جو حیثیت ان لوگوں کی ہے وہیںحیثیت دارالقضاء و دارالافتاء کی بھی ہے۔اس وقت پورے ملک میں150کے قریب دارالقضا چلتے ہیں،ان میںسب سے بڑا دارا لقضاء امارت شرعیہ بہار اڑیسہ ہے،دوسرا کرناٹک ہے ۔اس کے بعد مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بھی اپنے دارالقضاء ہیں جن کی تعداد 40یا 42ہیں۔مہاراشٹرکے شہر اورنگ آبادکو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں پر مراہٹواڑہ سطح پر گزشتہ چاردہاہیوں سے امارت شرعیہ کا نظام قائم ہے۔اس کے تحت مہاراشٹرکے دیگر اضلاع جیسے پربھنی،بیڑمیںدارالقضاء کانظام قائم ہے۔ان کے علاوہ مسلم آبادی والے کئی شہروںمیں دارالافتاء مسجدوں اور مدرسو ںمیں قائم ہیں جہاں رات دن لوگوں کے مسائل کو حل کیا جاتاہے ۔پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوںمیں جانے سے لوگوں کو منع کیا جاتاہے ،کیونکہ ان اداروں میں پہلے ہی سے بہت کام ہوتاہے۔بعض جگہ یہ بھی دیکھنے میںآیا ہے کہ خود مقامی پولیس اسٹیشن والے مسلم میاں بیوی کے جھگڑے کے معاملہ میں دونوں کو دارالقضاء یا دار ا لافتاء یا مسجد کمیٹی کے پاس بھیجتے ہیں۔
آج حکومت بھی آپسی تنازعات ،میا ں بیوی کے گھریلو جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے کئی ادارے اور سینٹرچلارہی ہیں۔جس میں لوک شاہی دن ہے،لوک عدالت،گاؤں پنچایت ،مہیلا منڈل،مہیلا تکرار نوارن کیندر اور دیگر کئی ادارے ملک میں چل رہے ہیں جو افہام وتفہیم کام انجام دیتے ہیں،یہ ادارے جو فیصلہ کرتے ہیں اور جو رائے دیتے ہے اس کو ماننا یاناماننا سامنے والے منحصر کرتاہے۔جب ملک میںیہ ادارے حکومت کی سرپرستی میںچل سکتے ہیں تو دارالقضاء اور دارالافتاء کیو ں نہیں ؟ ۔بہار کی امارت شرعیہ کے تحت چلنے والے دارالقضاء میں 11یا 12مقدمات میںایسا ہوا ہے کہ دارالقضاء کے فیصلہ کے بعد فریق ثانی مقامی عدالتوں سے رجوع ہوئے لیکن مقامی عدالتوں نے دارالقضاء کے تحقیقی فیصلوں کودیکھ کرانہی فیصلوں کو برقراررکھااور فریقین کو دارالقضاء کے فیصلوں پرعمل کرنے کے لیے پابند کیا۔اورنگ آباد امارت شرعیہ دارالقضاء کے کارگذارقاضی شریعت مولانا یونس قاسمی کاکہنا ہے متعددمرتبہ مقامی famaliy courtنے فریقین کو دارالقضاء سے رجوع کرنے کے لیے کہااسی طرح ایک مقدمہ جوپہلے دارالقضاء میںجاری تھافریقین عدالت سے رجوع ہوئے آخر میںhigh courtنے اپنے فیصلہ میںتحریر کیا کہ ’’آپ لوگ دارالقضاء سے رجوع ہوئے تھے وہیں پراپنامسئلہ حل کیوں نہیںکیااوردیگر وجوہات کوبنیادبناکر مقدمہ خارج کردیاگیا۔
دستور کی دفعہ 25 میں ہر بھارتی شہری کو مذہب کی آزادی کا حق،یعنی آزادیِ ضمیراور مذہب قبول کرنے او ر اس کی پیروی اور تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔اسی طرح دفعہ 26میںمذہبی امور کے انتظام کی بات کہی گئی ہے۔دفعہ 29میں اقلیتوںکو اپنی زبان،رسم الخط ،ثقافت کومحفوظ رکھنے کا حق دیاگیا ہے ۔دفعہ 30میں اپنے تعلیمی ادارے او رمذہبی ادارے چلانے کا حق حاصل ہے۔ دستور کے عطاکردہ ان کے حقوق کے باوجود شرعی عدالتوں کے خلاف ہوّا کھڑا کرنا اور یہ کہنا کہ مسلمان دستور کو نہیں مانتے ،وہ یہاں اسلامی نظام لانا یا چلانا چاہتے ہیں۔یہ سراسر جھوٹ اور ملک کی امن پسند عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...