این ڈی اے میں یو پی اے کا بجٹ

سید خرم رضا

budget 14-15

یہ بات بالکل اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ ملک میں پہلی مرتبہ کسی وزیر خزانہ نے بجٹ کو دوحصوں میں پڑھا یا پہلی بار کسی نے بجٹ سفارشات کا ایک حصہ بیٹھ کر پیش کیا ہو۔ اس کا بجٹ سفارشات کی خوبیوں اور خامیوںسے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ظاہر ہے ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ بجٹ قومی معیشت پر ایک انتہائی اہم دستاویز ہوتاہے۔ بیتے سالوں میں ویسے اس کی اہمیت میں ٹھیک اسی طر ح فرق پڑا ہے جیسے 15اگست پر لال قلعہ سے وزیر اعظم کے خطاب پر پڑاہے۔ پہلے پورے سال انتظار کیا جاتا تھا کہ لال قلعہ سے وزیر اعظم اپنے خطاب میں کیا کہیں گے اور ان کو سننے کے لئے عوام میں بڑا تجسس پایا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے اور اس کی بڑی وجہ 24گھنٹے چلنے والے خبروں کے چینل ہیں ۔ ٹھیک اسی طرح بجٹ کو لے کر بھی عوام میںبڑی بے چینی اور بے قراری پائی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے کیونکہ اب حکومتیں سال میں کسی بھی وقت کسی بھی چیز کی قیمت بڑھا نے کا اعلان کر دیتی ہیں اس لئے عوام میں بجٹ سفارشات کو لے کر کوئی بے چینی یا بے قراری نظر نہیں آتی۔ ہاں مڈل کلاس طبقہ اتنا ضرور جاننا چاہتا ہے کہ انکم ٹیکس کی لمٹ میں کوئی اضافہ ہوا یا نہیں ۔ کارپوریٹ گھرانے بجٹ میںضرور دلچسپی لیتے ہیں اس بات کو دیکھنے کے لئے کہ آیا ان کے کاروبار یا صنعت سے متعلق حکومت نے کسی پالیسی کا اعلان کیا یا نہیں۔ اور سچ کہا جائے تو وہ یہ دیکھتے ہیں کہ جس چیز کے لئے کہا گیا تھا یا لکھا گیا تھا وہ بجٹ کے خطاب میں شامل ہے یا نہیں۔
کہاں فضول کی باتیں کر نے لگا، دراصل بات کرنی تھی 2014کے بجٹ پر اور بات کرنی تھی اس بات پر کہ پہلی مرتبہ مرکز میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کی مکمل اکثریت والی حکومت نے2014-15کے بجٹ میں کیا کیا پیش کیا ہے۔ دیکھنا یہ تھا کہ جس پارٹی کو مخالفت کرنے کا ایک بڑا تجربہ ہے وہ خود اقتدار میں آکر کس طرح کا بجٹ پیش کرتی ہے۔ اس کے پٹارے میں وہ کون سے فارمولے ہیں جن کے ذریعہ ملک کی معیشت ترقی کی راہ پر بلیٹ ٹرین کی مانند دوڑنے لگے گی۔ معیشت کے بارے میں زیادہ سمجھ تو نہیں ہے لیکن جس طرح بجٹ خطاب کے بعد شیئر بازار میں اچھال آیا اس سے صرف اتناتو سمجھ آیا کہ کارپوریٹ گھرانوں کو ضرور کچھ فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ خطاب سننے کے بعد ایک چیز اور سمجھ میںآئی کہ دفاع سمیت ملک کے کچھ مخصوص شعبوں میں بیرونی ممالک کی سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے گی۔ حکومت نے یہ سب اعلانات کئے ہیں تو ملک کی اقتصادی ترقی کو ذہن میں رکھ کر ہی کئے ہوں گے اور اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ جب ہمارے ملک میں کوئی سرمایہ لگائے گا تو اس سرمایہ کار کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا۔ اس طرح کی سرمایہ کاری سے ملک کو جو نقصانات ہوتے ہیں ان کو بھی حکومت نے ذہن میں ضرور رکھا ہوگا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وزیر خزانہ کی پوری تقریربڑی سنجیدگی اور غور سے سننے کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ نئے وزیر خزانہ یو پی اے کے دور اقتدار کے وزیر خزانہ کی لکھی تقریر پڑھ رہے ہوں۔ ایک دو چیزوں کو چھوڑکر ذہن میں یہ ہی تاثر پیدا ہوا کہ بجٹ خطاب پچھلی حکومت کے بجٹ خطاب کی ’کاپی-پیسٹ‘ ہے۔ دراصل وزیر اعظم نریندر مودی سے امید تھی کہ ان کی حکومت کا جو بجٹ ہوگا وہ کچھ منفرد ہو گاکیونکہ انتخابی مہم کے دوران ان کی انفرادیت کاان کے کٹر مخالفین نے بھی لوہا مانا ہے۔ لیکن یہ انفرادیت بجٹ سفارشات میں نظر نہیں آئیں۔ اس کی دو وجہ ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ محض 45 دنوں میں کچھ نیا کرنا ممکن نہیں تھا۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہو سکتی کہ بیوروکریسی تو وہ ہی ہے جو پہلے تھی۔ ان افسران کے پاس وہ ہی آئیڈیاز ہیں، ان کے ذہن بدلنے میں وقت تو لگے گا۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ حکومتیں بدلتی ہیں لیکن پالیسیاں وہ ہی رہتی ہیں۔ بہر حال وجہ جو بھی رہی ہو عوام کے لئے ان بجٹ سفارشات میں بہت کچھ نہیں ہے۔ جن اسکیموں اور منصوبوں کی بات کہی گئی ہے وہ کوئی نئی نہیں ہیں۔ ایک عرصے سے عوام یہ سب کچھ سنتے آ رہے ہیں ۔ اگر وقت کی کمی کی وجہ سے عوام کو کچھ نہیں ملا ہے تو فروری زیادہ دور نہیں ہے، لیکن جو اعلانات کئے گئے ہیں ان پر کچھ پیش رفت ضرور نظر آنی چاہئے۔ اگر پیش رفت نہیں ہوئی تو پھر لوگوں کا یہ خیال حقیقت میں بدل جائے گا کہ ارون جیٹلی نے چدامبرم کا لکھاہی بجٹ پڑھا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *