صدی کی لاڈلی۔زہرہ سہگل

ڈاکٹر عبدالحی، نئی دہلی

زہرا سہگل
زہرا سہگل

جوش، ولولے، جنون، امنگ اور حوصلے کا پیکر الھڑ دوشیزہ زہرہ سہگل بھی چل بسیں۔فلم ’ویرزارا‘ کے ایک سین میں فلم کی ہیروئن پریتی زنٹا سائیکل چلا رہی ہیں اور ایک معمر خاتون ان سے لفٹ مانگتی ہے اور بعد میں یہ خاتون فلم کی ہیروئن کے ساتھ آئس کریم کھانے کا مقابلہ کررہی ہوتی ہے۔ یہ الہڑ معمر دوشیزہ کوئی اور نہیں بلکہ ملک کی لاڈلی زہرہ سہگل تھیں۔فلم دلوالے دلہنیاں لے جائیں گے میں زہرہ سہگل امریش پوری کی ماں کے کردار میں ہیں اور بے حد خوبصورت انداز میں اپنے مکالمے ادا کرتی ہیں ۔ اِس سال27 اپریل کو پورے102 برس مکمل کرچکی زہرا سہگل نے کل آخری سانسیں لیں۔ ہمارا ملک ہندوستان مشرق سے لے کر مغرب تک صدیوں سے ایسی کامیاب اور مقتدر شخصیات کی سرزمین رہا ہے جنہوں نے اپنے اپنے دور میں مختلف میدانوں میںکارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ ایسی ہی مقتدر شخصیات میں ایک زہرہ سہگل بھی تھیں۔ عزم اور حوصلے کا پہاڑ اب نہیں رہا۔ شاید فلم انڈسٹری کی سب سے ضعیف العمر اور معمر اداکارہ تھیں، انھوں نے زندگی کو بھرپور جیا اور خوب جیا۔
مشہور اداکارہ و رقاصہ زہرہ سہگل ایک ایسی زندہ جاوید تاریخی شخصیت تھیں جنھوں نے اپنی اداکاری اور فنکاری سے ہندی سنیما کو گزشتہ 100 برسوں سے روشن کیا ہوا تھا۔ صاحبزادی زہرہ بیگم ممتاز اللہ خاں (زہرہ سہگل) تھیٹر اور رقص کا ایک ایسا درخشاں ستارہ ہ تھی جس نے تاریخ کے کئی ادوار کو دیکھا ۔ اترپردیش میں ادبی و ثقافتی طور پر بے حدزرخیز ضلعے سہارنپور میں ممتاز اللہ خاں اور ناطقہ بیگم کے یہاں 27 اپریل 1912 کو زہرہ ممتاز نے آنکھیں کھولیں۔بے حد مشرقی گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود زہرہ بیگم کے رنگ ڈھنگ بچپن سے ہی نرالے تھے۔زہرہ اپنے بچپن میں عام دوشیزاؤں کے برعکس ایک ٹام بوائے جیسی تھیں۔ پیڑوں پر چڑھنا، لڑکوں کے ساتھ کھیلنا اور لڑکوں والے سارے کام کرنا ان کی سرشت میں شامل تھے۔
بچپن میں ہی والدہ کا ساتھ چھوٹ گیا۔ سات بہن بھائیوں میں زہرہ تیسرے نمبر پر تھیں۔ ان سے بڑے ایک بھائی اور ایک بہن تھے۔ والدہ کی خواہش کے مطابق انھیں لاہور کے کوئنس میری کالج بھیجا گیا۔ اُس دور میں پردے کا سخت رواج تھا اور سبھی گھرانوں میں مذہبی رسوم اور قدیم روایات کی پاسداری کی جاتی تھی۔ زہرہ ممتاز نے بھی اپنے اسکول اور کالج کے دنوں میں ان رسموں رواجوںکو کسی حد تک اپنائے رکھا۔ اپنے ماموں صاحب زادہ سعیدالظفرخاں کے ساتھ کار سے ایران، شام، مصر اور دمشق کی سیاحت کے لیے نکلیں اور بعد میں یورپ کی سیاحت بھی کی۔ یورپ میںان کی ممانی انھیں میری وگمین کے بیلٹ اسکول لے کر گئیں جہاں سے انھوں نے رقص و موسیقی کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ پہلی ہندوستانی خاتون تھیں جس نے اس اسکول میں ڈانس سیکھا۔ یورپ میں میں اُودے شنکر کے رقص پروگرام شیوپاروتی کو دیکھنے کا اتفاق ہوا اور انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ ہندوستان آکر اسی فن میں مہارت حاصل کریں گے۔میری وگمن بیلٹ اسکول میں تین سال کی مشق میں زہرہ نے ڈانس میں کافی مہارت حاصل کرلی تھی اور جب اودے شنکر نے زہرہ کا رقص دیکھا تو وہ بھی دادا دئیے بغیر نہ رہ سکے۔ یہ اودے شنکر وہی رقاص ہیں جنھوں نے ہندوستانی رقص کو بے انتہا اونچائیوں پر پہنچایا۔ انھیں سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ، پدم وبھوشن جیسے عظیم اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ رقص میں زہرہ ممتاز کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اودئے شنکر نے انہیں اپنے ٹروپ کے ساتھ کام کرنے کی پیش کش کی۔زہرہ ممتاز نے ان کے ساتھ کام کرنے کی فوراًحامی بھردی۔ ۔ سوئے اتفاق کہ کچھ دنوں بعد ہی اودے شنکر کے ڈانس گروپ نے جاپان کا دوہ کیا۔انھوں نے زہرہ کو بھی گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی اور زہرہ 8 اگست 1935 سے اس بیلٹ گروپ کا حصہ بن گئیں اور 1940 میں ہندوستان واپس آنے سے پہلے تک انھوں نے جاپان، مصر یورپ اور امریکہ کا دورہ کیا۔ فرانسیسی رقاص سِمکی نے بھی اُن کے رقص کو مزید استحکام عطا کیا۔ ہندوستان آنے کے بعد زہرہ الموڑہ میں اودے شنکر کے ڈانس سنٹر میں کام کرنے لگیں۔ الموڑہ میں ہی ان کی ملاقات کامیشور ناتھ سہگل سے ہوئی جو ایک آرٹسٹ، سائنس داں، رقاص اور کوریوگرافر بھی تھے۔ کامیشور سہگل سے مل کر زہرہ کو لگا کہ یہی وہ شخص ہے جو انھیں سب سے زیادہ خوش رکھ سکتا ہے اور ان کا ایک عظیم فنکارہ بننے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔ 14 اگست 1942 کو زہرہ ممتاز رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر زہرہ سہگل بن گئیں۔ کچھ دنوں تک دونوں نے اودے شنکر کے گروپ کے ساتھ ہی کام کیا۔ اس دوران کامیشور سہگل، اور زہرہ سہگل نے لوٹس ڈانس کے نام سے ایک بہت سے خوبصورت اور مسحور کن ڈانس ڈرامہ پیش کیا تھا۔
بعد میں دونوں نے لاہورمیں زہریش کے نام سے رقص کا ایک ادارہ قائم کیا۔ برصغیر کے بٹوارے اور ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تیز ہونے لگی تھی۔اس وقت لاہور تہذیب و ثقافت کا ایک اہم مرکز مانا جاتا تھا اسی لئے دونوں نے الموڑہ سے لاہور جا کر سکونت اختیار کی تھی لیکن حالات نے انھیں لاہور سے ممبئی نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا۔ جس وقت وہ بمبئی آئیں وہ دور پرتھوی تھیٹر کے عروج کا تھا۔ ان کی بہن عذرا بٹ پہلے سے ہی پرتھوی راج کپور کے ساتھ کا م کررہی تھیں۔ زہرہ نے بھی 1945 میں پرتھوی تھیٹر جوائن کرلیا اور 14 برسوں تک جڑی رہیں۔ اُس وقت ان کی ماہانہ تنخواہ محض 400 روپے تھی۔ پرتھوی تھیٹر سے جڑنے کے بعد ان کی اداکاری اور رقص میں مزید نکھار آیا۔1945 میں ہی انھوں نے مشہور تھیٹر گروپ اِپٹا میں شمولیت اختیار کی۔ اپٹا ویسے تو تھیٹر کی دنیا میں ایک معروف نام رہا ہے لیکن اس گروپ نے 1942 میں اپنے قیام کے تین سال بعد 1945 میں ایک فلم دھرتی کا لال پیش کی۔ اپٹا کی جانب سے شاید یہ واحد فلم تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار خواجہ احمد عباس اپٹا کی کارکردگی اور پیش کش سے کافی متاثر تھے ۔خواجہ احمد عباس نے اپنی پہلی فلم کو اپٹا کے ڈراموں پر ہی فلمانے کا فیصلہ کیا اور اس فلم کے تقریباً تمام کردار اپٹا کے ممبران تھے۔ انہوں نے زہرہ سہگل کو فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی۔ یہ فلم کرشن چندر کے افسانے انا داتا اور بیجون بھٹاچاریہ کے لکھے مختلف ڈراموں پر مبنی تھی۔ یہ پہلی ہندی فلم تھی جسے روس میں بھی ناظرین کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ اس طرح زہرہ سہگل پہلی ہی فلم سے ملک اور بیرون ملک مشہور ہوگئیں۔ یہی وہ فلم تھی جس میں بلراج ساہنی کا اہم کردار تھا۔ اپنی اس دوسری فلم سے بلراج ساہنی کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ زہرہ سہگل کی بہترین اداکاری کو دیکھتے ہوئے انھیں چیتن آنند کی ہدایت میں بنی اور خواجہ احمد عباس کی تحریر کردہ فلم نیچا نگر میں بھی کام دیا گیا۔ اِس فلم کو 1946 کے کان فلم فیسٹول میں ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔ 1959 میں اُن کے شوہر کی اچانک خودکشی کے بعد وہ جیسے بکھر کر رہ گئیں۔شوہر کو یاد کرتے ہوئے زہرہ بتاتی ہیں کہ وہ اتنے کمزور نہیں تھے کہ خودکشی کرلیں، ایک بہترین آرٹسٹ،تجربے کار کوریوگرافر،ماہر رقاص اور بہت پیار کرنے والے شوہر تھے لیکن انہیں وہ سب کچھ نصیب نہیں ہوسکا جس کے وہ حقدار تھے، انکے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئے۔ان میں جتنی لیاقت اور صلاحیت تھی اس کی ٹھیک طرح پزیرائی نہیں ہوئی اور اسی غم نے انہیںاس طرح موت کو گلے لگانے پر مجبور کردیا۔
شوہر کے بچھڑ جانے کے بعد زہرہ کچھ دنوں تک دہلی میں رہیں۔ اُس کے بعد ایک اسکالرشپ پر لندن گئیں۔ وہاں انھوں نے ڈراموں کے ساتھ ساتھ برٹش ٹی وی سیریز اور فلموں میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ BBC کے مختلف پروگراموں کی اینکرنگ کی ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھائی۔ واپس ہندوستان آنے کے بعد زہرہ نے ملک کے مختلف مقامات پر اردو اور پنجابی نظموں کو پیش کیا۔ اسی دوران انھیں پاکستان جاکر نظم خوانی کرنے کی دعوت بھی دی گئی وہاں انھوں نے حفیظ جالندھری کی مشہور نظم ابھی تو میں جوان ہوں پڑھی جو ان کی نظم خوانی کی وجہ سے کافی مقبول ہوئی۔ 1993 میں ان کا ڈراما ’ایک تھی نانی‘ لاہور میں پیش کیا گیا جس میں پاکستان جابسی اُن کی بہن مشہور تھیٹر آرٹسٹ عذرا اور خود زہرہ سہگل نے اداکاری کی تھی۔ اس ڈرامے کو مختلف انعامات بھی ملے اور انھیں صدی کی لاڈلی کے خطاب سے نوازا گیا۔ زہرہ سہگل نے ٹی وی سیریل، ملا نصیرالدین میں بھی لاجواب اور انوکھے انداز میں کام کیا ہے اور آج بھی ٹی وی ناظرین انہیں اس سیریل کے لئے یاد کرتے ہیں۔زہرہ سہگل آج ایسی واحد باحیات اداکارہ ہیں جس نے فلمی دنیا کی 4 نسلوں پرتھوی راج کپور سے لے کر رنبیر کپور کے ساتھ کام کیا ہے۔
امیتابھ بچن جب خود والد اور دادا کا رول ادا کررہے تھے۔ اُس وقت ان کی والدہ کا کردار زہرہ سہگل نے ادا کیا۔ چینی کم نامی اس فلم میں زہرہ سہگل اپنے خوبصورت اور برجستہ جملوں کے لیے آج بھی جانی جاتی ہیں۔ سائیکل چلانے کی بات ہو، گووندا کے ساتھ لڑنے کی سین ہو یا موٹر یا بائک چلانا ہو، یا پھر اس عمر میں عامر خان کی مدد سے اپنے لیے لڑکا تلاش کرنا ہو، زہرہ سہگل نے ہر کردار میں جان ڈال دی ہے۔
زہرہ سہگل نے اپنی صد سالہ زندگی میں ڈھیروں نشیب و فراز دیکھے۔ انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی کی مختلف فلموں اور ٹی وی سیریلوں میں کام کیا۔ زہرہ بیگم نہ صرف اچھی اداکارہ ہیں بلکہ ایک بہترین رقاصہ، کوریوگرافر اور ہدایت کار بھی رہیں۔ انھوں نے 25 سے زائد ہندی فلموں میں کام کیا ۔ اُن کی کچھ اہم فلمیں بینڈ اٹ لائک بیکھم، دل سے، ہم دل دے چکے سنم،چلو عشق لڑائیں،کبھی خوشی کبھی غم، چینی کم،مائی بیوٹی فل لاؤنڈریٹے، تندوری نائٹس، جیول ان دا کراؤن، ویرزارا اور سانوریا ہیں۔ ان کی بیٹی کرن سہگل مشہور اوڈیسی ڈانسر ہیں۔ ان کے لائق فرزند پون ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے لیے کام کرتے ہیں۔ زہرہ سہگل کو سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ ، پدم شری، کالی داس سمان، پدم بھوشن، سنگیت ناٹک اکادمی فیلوشپ، پدم وبھوشن جیسے اعزازات سے نوازا گیا ۔ زہرہ سہگل کروڑوں افراد کی لاڈلی ہیں اور صدی کی اس سب سے معمر اداکارہ کو آج بھی اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *