ترقی یافتہ معیشت بننے سے پہلے ملک کو درپیش چیلنج

ایف اے مجیب
اچھے دن لانے کے پر زور دعوے کے ساتھ حال میں اقتدار میں آئی بی جے پی سرکار کے وعدے اور عوام کوڈھارس بندھانے کے ساتھ کچھ فیصلے کرنے لگی ہے اور بعض فیصلے تو اس قدر تیزی سے کئے جا رہے ہیں کہ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ آنے والی نئی سرکار اتنی تیزی کے ساتھ فیصلے کرے گی ۔ حکومت کا ماننا ہے کہ ترقی کے ساتھ ہی عوام کا بھلا ہوگا۔ اگر ملک ترقی نہیں کرے گا تو عوام بھی خوشحال نہیں رہ سکتی ہے۔ حکومت میں آنے کے بعد پارٹی نے کہا بھی کہ لوگوں نے اسے ترقی کے نام پر ووٹ دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان کا اپنا تجزیہ ہو لیکن عام مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت سے لوگوں کی ناراضگی بی جے پی کی جیت کا سبب بنی ہے۔
بہر کیف عوام میں اب یہ رجحان قائم ہونے لگا ہے کہ اس بار بھی این ڈی اے کے قیادت میں اسے فیل گُڈ اور بھارت ادے جیسے نعرے دیئے جا سکتے ہیں، کیوں کہ وزیر اعظم نے کچھ سخت فیصلے کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔ یعنی ایک طرح سے لوگوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ بغیر قیمتوں میں اضافے کے آپ کو سستا سامان نہیں مل سکتا ہے! بغیر سخت فیصلے کے آپ کو بنیادی سہولیات جتنی قیمت پر حاصل ہو رہی ہیں ، وہ حاصل نہیں ہو پائیں گی۔ شاید یہی وجہ رہی کہ پرانی سرکاری کے بہت سے فیصلوں کو مسترد کرنے یا ان پر عملدرآمد سے گریز کرنے والی حکومت نے پٹرول، ڈیزل اور رسوئی گیس جیسی اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرتے ہوئے یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لیا کہ ہم کیا کریں ہماری تو مجبوری تھی کہ سابقہ حکومت کے فیصلے کو نافذ کریں! کیا یہ جواز فراہم کرنے کا عجیب سا طریقہ نہیں ہے؟
قابل غور بات یہ بھی ہے کہ نئی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ سابقہ حکومت نے ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا ہے اور اب اس ملک کی معیشت کو پٹری پر لانے میں اسے کافی محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ پتہ نہیں کیوں یہ بات اس لیے بھی ہضم نہیں ہو پا رہی ہے کہ غیر سرکاری اعداد و شمار بھی ملک کی معیشت میں چاہے کم یا زیادہ مجموعی طور پر ترقی ہی دکھاتے رہے ہیں اور عموما ہندوستانی معیشت دنیا بھر میں کبھی تیسرے اور کبھی چوتھے نمبر پر دکھائی جاتی رہی ہے۔ اب اگر ملک کی معیشت اس قدر اونچائی پر تھی تو پھر اس کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں ہوا؟ ایک اور اہم بات یہ کہ مان لیا جائے کہ سابقہ حکومت میں ملک کی معیشت بہت جرجر ہو چکی تھی اور اب اس میں سدھار لانا ہے اور اس کے لئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے تو کیا یہ سدھار عوام کو میسر سہولیات کی قربانی دے کر لائے جائیں گے ؟ یا انہیں موجودہ پریشانی سے بھی زیادہ پریشانی میں ڈال کر؟ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اب معیشت میں سدھار لانے کے لئے عوام کو اب رضامندی کے ساتھ مہنگائی کو قبول کر لینا ہوگا؟ یعنی جس چیز سے وہ دلبرداشتہ تھے اور ناراض ہو کر سڑکوں پر اتر آتے تھے اب انہیں حکومت کی منشا کا خیال کر کے اس پر آمنا و صدقنا کہنا ہوگا؟
ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب عوام کو بہتر سہولیات کے نام پر اور بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر ان کے حال کو ہی ابتلاء و آزمائش میں ڈال دیا جائے تو کیا حاصل؟ میرا خیال ہے کہ عوام کو خواب دکھا کر انہیں اور مشکل میں ڈالنا ٹھگی کے مترادف ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا سرکار چاہتی ہے کہ لوگ ایک بار پھر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کریں؟ مجھے معلوم ہے کہ اس کا جواب کبھی کوئی کمزور سرکار بھی نہیں میں نہیں دے سکتی ہے۔ اس کا جواب تو اس سے بھی اوپر ہوگا کہ نہیں بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک سپر پاور بن جائے اور عوام ۔۔۔۔۔۔۔کیا نئی حکومت نے کبھی اس بات پر غور و فکر کی کہ عوام کو مزید مشکل میںڈالے بغیریعنی ان کی پریشانیوں کے گراف کو مزید اوپر اٹھائے بنا اوپر کیسے نیچے لایا جائے۔ ہاں موجودہ حکومت کے دوران انتخاب نمائندوں کی زبان سے ضرور اس طرح کی باتیں نکل رہی تھیں کہ اب اور آپ کو جھیلنا نہیں پڑے گا۔ بہت ہوئی مہنگائی کی مار، اب کی بار مودی سرکار۔ لیکن مہنگائی ختم کرنے کے لئے مہنگائی میں مزید اضافہ کرنے کا فارمولہ یہ کسی بھی صاحب فہم کے گلے سے نیچے اترنے والانہیں ہے۔ہو سکتا ہے یہ کسی نیوٹن کا فارمولہ ہو یا کسی اکوپنکچر طریقہ علاج کا اصول ہو لیکن یہ کسی رفاہی اور فلاحی سوچ کی اپج نہیں۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تیسری آنکھ اور حکومت کا چوتھا ستون یعنی میڈیا جس نے بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی ریاست میں بمشکل اقتدار میں آنے والے کیجریوال سرکارسے پہلے ہی دن سے جس طرح کے سوالات کرنے شروع کئے تھے اب شاید اسے اپنی تیزی یاد نہیں رہی یا پھر لالچ یا خوف میں کچھ بولنے یا جائزہ لینے سے کتراتے ہیں۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ ہماری جمہوریت میں عوامی نمائندوں سے عوام کے صلاح و مشورے کا تعلق صرف ووٹ دینے تک ہوتا ہے ایک بار نمائندہ جیت کر ایوان تک پہنچا اس کے سارے رابطے کٹ جاتے ہیں۔ اور لے دے کر چند لوگوں سے ہی وہ جڑ کر رہتا ہے۔ ایسی صورت میں میڈیا کا کردار سامنے آتا ہے اور وہ عام آدمی کی شکل میں نمائندوں سے سوال کرتا ہے۔ ان کے فیصلوں کا تجزیہ کرتا ہے۔ ان کی پالیسیوں اور ان کے فیصلوں کی خوبیوں اور خامیوں اور ان پر عملدرآمد کے گراف کو منظر عام پر لاتا ہے۔ اس طرح پوری جمہوریت میں عوام اور نمائندوں کے اتفاق سے ایک معیشت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ میڈیا اپنا رول ادا نہیں کر رہا ہے اور اب وہ عوام کو وہی سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے جو حکومت عوام کو سمجھانا چاہتی ہے۔ یعنی اگر حکومت کا منشا یہ ہے کہ قیمتوں میں اضافہ کیا جائے، عوام کو دو وقت کی روٹی کے لئے مزید دقتوں کا سامنا کرنا پڑے تو میڈیا بھی عوام کو یہی سمجھاتا ہے کہ آپ کو یہ پریشانی تو برداشت کرنی پڑے گی کیوں کہ آگے آپ کے لئے بھلا ہونے والا ہے اور عوام بیچاری کیا کرے۔۔۔۔
بہر حال بڑے دعؤوں اور وعدوں کے ساتھ منتخب ہو کر آئی نئی حکومت کو چاہئے کہ وہ خود احتسابی کے ساتھ آگے بڑھے ۔ وہ صرف زبان سے نہیں بلکہ عملا یہ ثابت کرے کہ پورا ملک اس کا پریوار ہے اور سبھی ایک ہی کنبے کے لوگ ہیں۔ اب یہ گھر کے مکھیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے پریوار کے ہر ہر فرد کو پہلے روٹی میسر کرے۔ یہ نہیں کہ اپنے سارے فیصلے صرف ان چند لوگوں کے حق میں یا ان کی ایماء پر کر دے جن کے ہاتھ میں کچھ طاقت یا پیسہ ہے بلکہ حکومت کو چاہئے کہ پہلے بنیادی چیزوں پر زور دے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایک آدمی جو بھوکا ہے اسے پہلے کھانا چاہئے ، لیپ ٹاپ نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر سرکار اس آدمی کو کل لیپ ٹاپ دینے کے سحر میں مبتلا کرکے آج میسر نوالہ بھی اس کے منھ سے چھین لے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ بہتر حکومت وہی ہے جو سب کو ساتھ لے کر سب کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے زمینی سطح سے ملک کو ترقی کی اونچائی تک لے جائے۔ حکومت کے دل کا ذرا بھی کھوٹ معیشت کو ترقی نہیں دے سکتا ہے بلکہ ایسی حکومت تو چند لوگوں کے ہاتھ میں کٹھپتلی بن جاتی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی سرکار خود کو کٹھپتلی سرکار کہلانا پسند کرے گی!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *