
معاشی ترقی اور خواتین

مسائل کے باوجود معاشی ترقی میں خواتین نمایاں حصہ لے رہی ہیں۔وہ زمانہ تو اب گزر گیا جب گھر سے باہر کے تمام کام صرف اور صرف مردوں کی ذمہ داری سمجھے جاتے تھے۔تعلیم تیزی سے تبدیلی لارہی ہے۔اعلیٰ تعلیم کی درس گاہوں میں اب خواتین مردوں کی نسبت زیادہ تعداد میں دیکھی جارہی ہیں۔بہت پہلے خواتین کے لئے تعلیم اور صحت کے شعبے ہی مناسب سمجھے جاتے تھے۔لیکن اب تو دنیا میں کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں تعلیم یافتہ خواتین نے اپنی جگہ نہ بنائی ہو۔خواتین صدور اور وزراء اعظم کے بارے تو ہم سبھی جانتے ہیں لیکن اب عالمی سطح کے سب سے بڑے مالیاتی ادارے IMFکو بھی ایک قابل خاتونChristine Lagradeکامیابی سے چلا رہی ہیں۔اس سے پہلے یہی خاتون فرانس کی وزیر خزانہ تھیں۔جونہی دنیا میں خواتین کو تعلیم کے مواقع ملے ان میں چھپا ہوا Talentظاہر ہونا شروع ہوگیا۔ایک تازہ رپورٹ کے مطابق چین،ہندوستان،برازیل،جنوبی افریقہ اور روس کے کاروباری اداروں پر30 فیصد خواتین حکمرانی کررہی ہیں۔یہ شرح G7جیسی قدیم تنظیم سے زیادہ ہے جہاں بڑے کاروباری اداروں پر صرف 20 فیصد خواتین چھائی ہوئی ہیں۔چین سے تو نئی طرز کی خبریں ہیں۔وہاں مالیاتی شعبوں میں60۔فیصد خواتین اعلیٰ عہدوں پرکام کررہی ہیں۔یہ شرح عالمی شرح سے بہت ہی زیادہ ہے۔تعلیم کے یکساں مواقع ملنے سے اب عالمی سطح پرGender Gapکم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ہم اپنے ملک میں بھی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔1999-2000ء میں کل لیبر فورس میں خواتین کا حصہ صرف13.7 فیصد تھا لیکن اب یہ حصہ21.6 فیصد ہوگیا ہے۔پاکستان کا اب کوئی بھی محکمہ ایسا نہیں ہے کہ جہاں تعلیم یافتہ خواتین نے اپنی جگہ نہ بنائی ہو۔CSSسے لیکر مسلح افواج تک خواتین میں موجود صلاحیتیں اب تسلیم کی جارہی ہیں۔ہندوستان میں تو گزشتہ 8سالوں میں کل لیبر فورس میں خواتین کاحصہ4 فیصد سے بڑھ کر 34 فیصد تک ہوگیا ہے۔یوں لیبر فورس میں ہر سال4 فیصد خواتین کا حصہ بڑھ رہا ہے۔ہندوستان اب تعلیم پر بہت زیادہ خرچ کررہا ہے۔اور یہ اخراجات دونوں جنسوں پر برابر ہورہے ہیں۔اس لئے تیز ی سے لیبر فورس میں خواتین کا حصہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔چین کے حالات خواتین لیبر فورس کے لحاظ سے اس لئے بہتر ہیں کہ وہاں انقلاب کے بعد ہی تعلیم سب کے لئے لازمی قرار دے دی گئی تھی۔عورتوں اور مردوں دونوں سے کھیتوں اور فیکٹریوں میں برابر کام لئے جاتے تھے۔بچوں کی پرورش کے لئےChildren Homesبہت بڑے پیمانے پرشروع میں ہی بن گئے تھے۔وہاں کام کے دوران بھی خواتین اور مردوں کو اپنی تعلیمی صلاحیتوں میں اضافہ کے برابر مواقع ملتے رہے ہیں۔اسی لئے اب اعلیٰ تکنیکی اور معاشی عہدوں پر خواتین کام کرتی اور ملک کی معاشی ترقی میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں۔چین کے ساتھ ساتھ پورے مشرقی ایشیا میں خواتین نے اپنے اپنے ملکوں کی ترقی میں بہت ہی اہم رول ادا کیا ہے۔مشرق میں خواتین کا تعلیم میں آگے بڑھنا کوئی بہت قدیم کارنامہ نہیں ہے۔یہ صرف گزشتہ50تا60سال کی بات ہے۔لیکن اب یہ خواتین مغربی خواتین کی نسبت زیادہ اعتماد اور یقین سے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔چین سے جاپان اور انڈونیشیا تک پھیلے ہوئے یہ ممالک بڑی تیزی سے ترقی کررہے ہیں۔مغرب ان کی ترقی سے حیران وپریشان ہے۔ان کی حیرانی اور پریشانی میں اضافہ مشرقی خواتین نے بھی کیا ہے جہاں تک مشرقی خواتین میں ذمہ دارانہ رویے کا تعلق ہے یہ بات بنگلادیش کی خواتین نے عالمی سطح پر ثابت کر دی ہے۔ڈاکٹر محمد یونس کے گرامین بینک نے جب شروع میں قرض دیئے تو قرض کی واپسی خواتین کی طرف سے99فیصد تھی۔بعد میں تمام چھوٹے چھوٹے قرض صرف خواتین کو دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔خواتین نے گاؤں میں ہی چھوٹے چھوٹے کام شروع کئے۔قرض واپس کیا۔مزید قرض لیا اور یوں ان خواتین نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ پورے خاندان کواپنے پاؤں پر کھڑا کردیا۔خواتین کے ایسے کارناموں نے بنگلادیش کی غربت میں ایک بڑاDent ڈال دیا۔مردوں کی نسبت خواتین نے یہ کارنامہ بڑی ذمہ داری سے اداکیا۔اگریہ قرض اخوت کی طرح بغیر سود کے ہوتا تو نتائج اور زیادہ بہتر نکلتے۔پاکستان میں بھی غربت کے خاتمے کے کئی پروگرام شروع کئے گئے۔ان میں سے ایک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہے۔جو پہلی دفعہ2008-09ء کے بجٹ میں35 ارب روپے سے شروع کیاگیا۔اس کے بعد یہ رقم بڑھتی چلی گئی۔یہ پروگرام موجودہ حکومت کے دورمیں بھی جاری ہے۔لیکن شروع ہی سے ایسی رقومات خواتین میں نقد تقسیم کی جارہی ہیں۔کاروبار کے لئے اس میں برائے نام حصہ ہے۔اگر شروع سے ہی یہ رقومات ایسی خواتین کو دی جاتیں جو اس سے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرلیتیں تو اب تک اس کے بہت ہی خوشگوار نتائج نکلتے۔پیداوار میں اضافہ ہوتا۔بے روزگاری ختم ہوتی اور نتیجتاً غربت میں بڑاDentپڑچکا ہوتا۔یوں ملک کی معاشی ترقی میں خواتین کے رول میں اضافہ ہوتا۔خوشحالی بینک کی طرح کے پاکستان میں اور بھی ادارے ہیں جو لوگوں کو چھوٹے چھوٹے قرض فراہم کرتے ہیں۔لیکن پاکستان میں بنگلا دیش کی طرح خواتین کو ترجیح نہیں دی گئی۔اس طرح معاشی ترقی میں خواتین کا رول بڑھ نہیں سکا۔اب آکر موجودہ حکومت نے نوجوانوں کے لئے قرض سکیم شروع کی ہے۔ کل 100 ارب روپے تقسیم کرنے کا پروگرام ہے۔یہاں یہ طے کیا گیا ہے۔کہ ان قرضوں میں سے50 فیصد قرض خواتین کو دیئے جائیں گے۔ اگر اس سکیم پر صحیح انداز اور ایماندارانہ طریقے سے عمل ہوا تو پاکستانی خواتین کو بہت فائدہ ہوگا۔یہ اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کرسکیں گی۔ خواتین میں اعتماد پیدا ہوگا۔یہ اپنے خاندان کے لئے انتہائی فائدہ مند بن جائیں گی۔اگر مرد اور عورت دونوں اپنے خاندان کی فلاح وبہبود کے لئے کام کریں گے تو نتائج بہت ہی بہتر ہونگے۔اپنے بچوں کو وہ اعلیٰ تعلیم دلا کر معاشرے کے لئے بہتر افراد تیار کرسکیں گے۔ہمارے اکثر خاندانوں میں یہی رواج ہے کہ ایک مرد کماتا ہے اور پورا خاندان اسی پر انحصار کرتا ہے۔یوں بے چارہ مرد بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔اﷲ کرے کہ محمد نواز شریف کی قرض سکیم عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے بہتر ثابت ہو۔دوردراز دیہاتوں تک بھی یہ رقومات پہنچیں۔دیہاتوں کی جوان خواتین کو بھی قرض ملیں اور وہ چھوٹے چھوٹے کام شروع کرکے اپنے آپ کو غربت سے نکالیں۔یوں وہ اپنے آپ کو بااعتماد اور طاقتور محسوس کریں گی۔عورتوں کے ذریعہ روزگار کی بڑی اہمیت ہے۔لڑکیاں جب والدین کے گھر ہوتی ہیں تو وہ پیسے کے لئے باپ کی طرف دیکھتی ہیں۔اور شادی کے بعد ان کا واحد سہارا خاوند ہوتا ہے۔عورت اسی وقت ذمہ دارانہ آزادی محسوس کرے گی جب وہ خود بھی کمائے ۔پاکستان میں عورت کی غربت خود کوئی نہ کوئی کام کرنے سے ہی ختم ہوسکتی ہے۔جیسا کہ پہلے بتایاگیا ہے کہ پاکستان کی لیبر فورس میں خواتین کا حصہ ابھی تک21.6 فیصد ہی ہے۔اسے مزید بڑھنا ضروری ہے۔پاکستان میں کئی خواتین نے اپنی صلاحیتیوں کا لوہا اپنی کامیاب کمپنیاں بنا کر منوایا ہے۔اور یوں معاشی ترقی میں اہم رول اداکیا ہے۔پاکستان سافٹ وئیر ایسوسی ایشن کی صدر بھی ایک قابل خاتون ہیں۔ایسی ہی بے شمار خواتین جنہیں اپنے خاندان کی وجہ سے تعلیم کے مواقع ملے وہ ملازمت اور کاروبار میں آگے بڑھ گئیں۔اعلیٰ تعلیم کے یہ مواقع خواتین کے لئے دور دراز دیہاتوں اور ٹاؤنز تک پھیلائے جائیں۔یوں وہ نہ صرف روزگار حاصل کرسکیں گی بلکہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد تک ان کی رسائی ہوگی۔حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لئے ایسے کاروباروں اور ملازمتوں کے مواقع فراہم کریں جہاں وہ اسلامی تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے سکون سے اپنی روزی کما سکیں۔ایسی فیکٹریاں،کمپنیاں اور بینک جہاں مکمل طورپر خواتین ہی چھائی ہوئی ہوں، انتظامیہ اورکارکن وہ خود ہی ہوں، یوں معاشی ترقی میں خواتین کا حصہ تو ہو لیکن عزت و احترام کا رشتہ بھی قائم رہے۔
بہ شکریہ نئی بات