زکوۃ کا نصاب

رمضان کیسے گزاریں ؟ (۲۲)
مولانا ندیم الواجدی

zakat

زکوۃ کی مقدار نصاب کے سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس مال پر زکوۃ ہے جو ایک سال گزرنے کے بعد اخراجات سے بچا ہوا ہو، اور ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ان کی مالیت کے برابر ہو، اگر صرف سونا ہے تو سونے کے وزن کا اعتبار کیا جائے گا، صرف چاندی ہے تو ساڑھے باون تولہ چاندی ہونا ضروری ہے، دونوں ہیں تو چاندی کا نصاب معتبر ہوگا، یعنی اگر کسی کے پاس مثلاً ایک تولہ سونا ہے اور دو تین تولے چاندی ہے اور دونوں کی مجموعی قیمت میں ساڑھے باون تولہ چاندی آسکتی ہے تو اس پر زکوۃ ہے، ساڑھے سات تولہ سونا ۴۸۰؛۸۷ گرام اورساڑھے باون تولہ چاندی ۳۶۰؛ ۶۲۱ گرام کے برابر ہے، اگر کسی کے پاس نقدر قم گھر میں ہو، بنک کے کھاتوںمیں ہو، ڈاک خانے میں جمع ہو، بنک سارٹیفکٹ کی شکل میں ہو، شیئرز کی صورت میں ہو، کسی تجارتی کمپنی میںسرمایہ لگا ہوا ہو، غیر ملکی کرنسی کی صورت میں ہو، فیکٹری میں تیار یا خام مال کی شکل میں موجود ہو، مکان ودکان وغیرہ کی آمدنی کی شکل میں ہو سب پر زکوۃ ہے۔ اس مال کا ڈھائی فی صد حصہ بہ طور زکوۃ ادا کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص پر قرض ہو تو قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد بہ قدر نصاب مال بچ جانے پر زکوۃ ادا کی جائے گی، اور اگر کسی کو قرض دے رکھا ہے اور اس کے ملنے کی امید ہے تو اس کی بھی ہر سال زکوۃ ادا کرنی ہوگی خواہ وہ رقم کتنی ہی مدت میں کیوں نہ وصول ہو، کرائے پر اٹھائے گئے مکان، دوکان یا رہائش کے لیے خریدے ہوئے مکان یا پلاٹ وغیرہ پر کوئی زکوۃ نہیں ہے ، البتہ ان کے کرائے سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ اگر بہ قدر نصاب پہنچ جائے اورسال بھر گزر جائے تو اس پر زکوۃ ہوگی، تاہم تجارت کے لیے خریدے گئے زمین، مکان اور پلاٹ وغیرہ پر زکوۃ ہوگی اور مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے ان کی قیمت متعین کی جائے گی۔ (فتاوی عالمگیری: ۱/۱۷۲ فتاوی شامی: ۳/۱۷۱، احکام زکوۃ مولانا رفیع عثمانی، ص:۲۵)
زکوۃ کے سلسلے میں سب سے اہم بات مستحق تک پہنچانا ہے، عموماً زکوۃ دینے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ زکوۃ کے مصارف کون ہیں، بسا اوقات بلا تحقیق ایسے لوگوں کو زکوۃ کا مالک بنا دیا جاتا ہے جو قرآن کریم کے بیان کردہ مصارف ہی نہیں ہوتے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غیرمستحق لوگ زکوۃ پر قابض ہوجاتے ہیں اور مستحق محروم رہ جاتے ہیں ، اس لیے ضروری ہے کہزکوۃ دینے والے یہ دیکھیں کہ زکوۃ کن لوگوں کی دی جانی چاہئے پھر یہ دیکھیں کہ جس شخص کو زکوۃ دے رہے ہیں وہ ان لوگوں میں شامل بھی ہے یا نہیں جن کو قرآن کریم نے زکوۃ کا مستحق قرار دیا ہے۔
زکوۃ کے مصارف:
قرآن کریم کی سورۂ توبہ میں مصارف زکوۃ متعین کردیئے گئے ہیں، جو یہ ہیں (۱) فقراء (جو صاحب نصاب نہ ہوں )(۲) مساکین (جو کسی بھی مال کے مالک نہ ہوں) (۳) اسلامی حکومت کے وہ کارکن وملازمین جو زکوۃ کی وصولیابی پر متعین ہوں (۴) مؤلفۃ القلوب۔ جن کی دل جوئی مقصود ہو، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اسلام سے مانوس کرنے کے لیے زکوۃ دے دی جاتی تھی، جمہور ائمہ کے نزدیک یہ مصرف منسوخ ہوچکا ہے (۵) ایسے غلام جو اپنی آزادی کے لیے مالی امداد چاہتے ہوں (۶) ایسے قرض دار جن کو قرض سے سبک دوشی کے لیے مدد کی ضرورت ہے (۷) فی سبیل اللہ اس میں کئی قسم کے لوگ داخل ہیں مثلاً مجاہد، حاجی، اہل علم اور اللہ کی راہ میں کام کرنے والے لیکن ان سب کے لیے فقر شرط ہے (۸) وہ مسافرجو سفر کے درمیان ضرورت مند ہوجائیں۔ (معارف القرآن: ۴؍۳۹۳)
یاد رکھئے:
زکوۃ کے سلسلے میں ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ زکوۃ کی رقم حساب کرکے نہایت احتیاط کے ساتھ ادا کرنی چاہئے، اندازے سے زکوۃ نکالنے میں غلطی کا احتمال ہے، اگر زکوۃ زیادہ دے دی تو انشاء اللہ یہ مال ذخیرۂ آخرت بنے گا، لیکن اگر کم دی گئی تو اس کا سخت وبال ہوگا، زکوۃ ایک دینی فریضہ ہے، اس کی ادائیگی کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک اہم فرض سے سبکدوش رہے ہیں، اس لیے زکوۃ دیتے وقت یہ سوچنا کہ وہ کوئی بہت بڑا کام انجام دے رہے ہیں یا زکوۃ دے کر مستحقین پر احسان کر رہے ہیں انتہائی غلط ہے، قرآن کریم میں اس کی سخت مذمت وارد ہے، اللہ نے اگر آپ کو مال دیا ہے اور صاحب نصاب بنایا ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اس کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ اس مال کی زکوۃ وقت پر نکالیں اور زکوۃ کی تمام شرائط وآداب کی رعایت ملحوظ رکھیں۔
کن چیزوں میں زکوۃ نہیں ہے:
(۱) رہائشی گھر (۲) استعمال کے کپڑے (لباس، چادریں، فرش وغیرہ) (۳) گھریلو سامان فرنیچر، فریج ، واشنگ مشین ، کولر، اوون ، گیس کا چولہا سلنڈر وغیرہ (۴) کار، موٹر سائیکل وغیرہ (۵) حفاظتی ہتھیار (۶) کھانے پینے کا سامان (۷) سجاوٹ کی چیزیں (گلدان، گملے، پھول، منقش برتن وغیرہ) بہ شرط یہ کہ سونے چاندی کے نہ ہوں، (۸) ہیرے جواہرات (۹) علمی کتابیں جو مطالعے کی ہوں (۱۰) آلات زراعت وتجارت و صنعت وحرفت، کارخانوں میں لگی ہوئی مشینیں، کرایہ پر چلنے والی بسیں، کاریں، ٹیکسیاں، ٹرک وغیرہ (فتاوی عالمگیری: ۱/۱۷۲) (۱۱) گروی رکھی ہوئی چیزیں، نہ رہن رکھنے والے پر زکوۃ ہے نہ اس شخص پر جس کے پاس بہ طور رہن رکھی ہوئی ہیں، رہن سے چھڑانے کے بعد گذشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی (فتاوی شامی:۳/۱۷۱ )(۱۲) عورت جب تک اپنے دین مہر پر قابض نہ ہوجائے اس پر زکوۃ نہیں ہے (فتاوی عالمگیری: ۱/۱۷۲) جس قرض کی وصولیابی کی قطعاًامید نہ ہو اور مقروض نے دینے سے انکار کردیا ہو اس پر بھی زکوۃ نہیں ہے، اگر ناامیدی کے بعد کسی وجہ سے رقم وصول ہوجائے تو گذشتہ سالوں کی زکوۃ واجب نہیں ہوگی، رقم پر ایک سال گزرجائے تب زکوۃ واجب ہوگی (فتاوی شامی: ۳/۱۷۱ ، احسن الفتاوی: ۴/۲۶۶)
قرض میںدی ہوئی رقم پر زکوۃ:
قرض میں دی ہوئی رقم پر اگر وہ نصاب کے مطابق ہے زکوۃ ہوگی اور یہ زکوۃ قرض دینے والے کے ذمے ہوگی، اب یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ وصول یابی کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ادا کردے، یا ہر سال دی ہوئی رقم کا حساب لگا کر اداکر تار ہے۔ (فتاوی دار العلوم: ۶/۸۵، کفایۃ المنتہی: ۴/۲۵۱) اگر قرض میں رقم دے رکھی ہے اور بہ ظاہر اس کے ملنے کی امید نہیں ہے تو جب تک وصول نہ ہو اس وقت تک زکوۃ واجب نہیں ہے لیکن قرض کی رقم وصول ہوجانے کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگی۔ (فتاوی دار العلوم: ۶/۹۷) مقروض کو قرض معاف کرنے سے زکوۃ ادا نہیں ہوتی، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ پہلے مقروض کو اتنی رقم جو آپ معاف کرنا چاہتے ہیں دے کر اسے مالک بنا دیا جائے پھر وہ اس رقم کو قرض کی مد میں ادا کردے اس صورت میں زکوۃ بھی ادا ہوجائے گی اور قرض بھی وصول ہوجائے گا (فتاوی دار العلوم: ۶/۸۹، فتاوی رحیمیہ )
نصاب زکوۃ میں کمی بیشی:
شروع سال میں نصاب پورا ہو اورسال کے آخر میں بھی پورا ہو تو درمیان سال کی کمی بیشی کا کوئی اعتبار نہیں ہے، خواہ مال کم رہ جائے یا اس میں اضافہ ہوجائے جس دن زکوۃ کی ادائیگی کے لیے حولان حول یعنی سال گزرنے کی شرط پوری ہوگی اس دن کا نصاب دیکھا جائے گا کہ پورا ہے یا نہیں اگر پورا ہے تو زکوۃ واجب ہے، کم ہے تو زکوۃ واجب نہیں ہے (بدائع الصنائع: ۲/۹۹)
زکوۃ کے لیے نیت ضروری ہے:
زکوۃ ادا کرنے کے لیے نیت ضروری ہے، کسی غریب کو بہ راہ راست زکوۃ دیتے وقت، یا زکوۃ دینے کے لیے کسی وکیل کو رقم دیتے ہوئے یا مال میں سے زکوۃ میں دی جانے والی رقم الگ کرتے ہوئے زکوۃ کی نیت کرلینی چاہئے، اگر کسی شخص نے نیت نہیں کی اور زکوۃ کی رقم مستحق کے پاس پہنچ گئی اس کے بعد نیت کا خیال آیا تو یہ دیکھا جائے گا کہ وہ رقم مستحق کے پاس موجود ہے یا خرچ ہوگئی، اگر موجود ہے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی اور اگر فقیر کے پاس سے خرچ ہوگئی یا ضائع ہوگئی تو زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ (فتاوی شامی: ۳/۱۷۴،فتاوی دار العلوم : ۶/۷۹) البتہ اگر کسی نے پورا نصاب ہی خیرات کردیا اور نیت نہیں کی تو اس کے ذمے سے استحسانا زکوۃ ساقط ہوجائے گی (فتاوی عالمگیری: ۱/۱۷۱)
مرنے والے کی زکوۃ:
اگرکوئی شخص صاحب نصاب زکوۃ کی وصیت کئے بغیر مر گیا تو اس کے مال کی زکوۃ نہیں لی جائے گی، ہاں اگر مرنے والا شخص وصیت کرکے مرا ہو تو اس کے تہائی مال میں سے زکوۃ ادا کی جائے گی، خواہ وہ تہائی مال زکوۃ کی مد میں پورا ہوجائے یا کم رہے اس سے زائد مال زکوۃ میں خرچ نہیں کیا جائے گا اور باقی مال ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا، اگر ورثا خوشی سے بقیہ مال میں سے ادا کرنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے (احسن الفتاوی: ۴/۲۶۵، فتاوی دار العلوم: ۶/۳۳۰)
زکوۃ کے لیے شوہر کی اجازت ضروری نہیں ہے:
اگر کسی عورت کے پاس نصاب کے برابر زیورات ہوں یا نقد روپیہ ہو تو اس پر زکوۃ ہے کیوں کہ وہ زیورات کی مالک ہے ، اس کے لیے شوہر کی اجازت یا مرضی ضروری نہیں ہے، اسے یہ زکوۃ اپنے پاس سے ادا کرنی چاہئے، اگر دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو زیور بیچے، زکوۃ ضرور ادا کرے، ہاں اگر شوہر بیوی کی طرف سے دے دے، یا بیوی اپنے شوہر سے لے کر دے دے تو زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ (فتاوی دار العلوم: ۶/۱۲۱)
مال حرام کی زکوۃ:
حرام مال میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی، اگر مال حرام کا مالک معلوم ہے تو جس کا مال ہے اس کو واپس کرنا ضروری ہے اور اگر معلوم نہیں ہے تو تمام مال صدقہ کردینا ضروری ہے، اگر کسی کے پاس حلال وحرام مال ملا جلا ہے تو اس میں سے حرام مال الگ کرکے دیکھا جائے گا کہ بہ قدر نصاب باقی رہتا ہے یا نہیں اگر باقی رہتا ہے تو باقی ماندہ مال پر زکوۃ دی جائے گی (احسن الفتاوی: ۴/۲۸۳، فتاوی دار العلوم: ۶/۴۹ امداد الفتاوی: ۲/۲۳)
رمضان میں زکوۃ ادا کرنے کا ثواب:
یوں تو سال کے کسی بھی مہینے اور کسی بھی دن زکوۃ نکالی جاسکتی ہے، لیکن رمضان میں عبادت کا اجر وثواب زیادہ ہے اس لیے اگر اس ماہ مبارک میں زکوۃ نکالی جائے تو اللہ تعالیٰ حسب وعدہ انشاء اللہ ستر گنا ثواب عنایت فرمائیں گے۔ (صحیح ابن خزیمہ: ۳/۱۹۱، رقم الحدیث: ۱۸۸۷، بیہقی فی شعب الایمان:۳/۳۰۵، رقم الحدیث: ۳۶۰۸ )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *