نئی دہلی، 16 جولائی (یو این بی): جھماجھم برسات کے لیے جانا جانے والا ساون کا مہینہ شروع ہو چکا ہے لیکن بارش تو کیا آسمان میں بارش کے بادل بھی دور دور تک نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کسان آسمان کی طرف نگاہیں لگائے بادل کی آنکھ مچولی کا کھیل دیکھتے رہتے ہیں۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سے بیجوں کے سوکھنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہوئی کم بارش کے اعداد و شمار حیرت انگیز کرنے والے ہیں۔ اس سے واضح ہو رہا ہے کہ خشک سالی ملک کے زراعتی علاقوں کو 50 سے 60 فیصد متاثر کر سکتا ہے۔ ایسے میں خشک سالی سے نمٹنے کے منصوبوں پر کسانوں کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ ان سب باتوں کے درمیان کوئی اتر پردیش میں خشک سالی کی بات کرتا نظر آ رہا ہے تو کوئی بہار اور مدھیہ پردیش کو خشک سالی کی چپیٹ میں بتا رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں شمالی ہندوستان میں کئی ریاست خشک سالی کی راہ پر ہیں۔ موسمی حالات خشک سالی کا واضح اشارہ دینے لگے ہیں۔ مانسون کو آئے پندرہ روز گزر گیا ہے لیکن زمین کو تر کرنے کے لیے بادلوں نے وافر مقدار میں پانی نہیں برسایا۔
کئی ریاستوں میں ہلکی بارش کے بعد کسانوں نے بوائی کر دی لیکن اب ان بیجوں کے سوکھنے کا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ قرض لے کر خریدے گئے بیج کے سوکھنے پر کسانوں کی مشکلیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ دوہری مار سے ان کی کمر بیٹھی جا رہی ہے۔ زراعتی سائنسداں کی نظر میں شمالی ہندوستان میں کئی ریاست خشک سالی کی طرف گامزن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک مناسب بارش کے نہیں ہونے سے یہی اندیشہ ہے۔ ایگریکلچرل سائنس انسٹی ٹیوٹ (بی ایچ یو) کے سابق ڈائریکٹر اور زراعتی سائنسداں پروفیسر شیو راج سنگھ کہتے ہیں کہ زراعت کے لیے کہیں سے پانی ملنا دشوار ہو گیا ہے۔ بادل پانی نہیں گرا رہے، بجلی کی قلت میں نل سے پانی نہیں نکل رہا اور نہروں میں بھی پانی ختم ہو چکا ہے۔ آخر اس کا اثر زراعت پر تو پڑے گا ہی۔ اب اگر بارش ہوتی ہے تب بھی زراعت پر منفی اثر کا امکان قائم رہے گا۔
موسم کے ماہر پروفیسر ایس این پانڈے کہتے ہیں کہ موسم کا مزاج حیران کرنے والا ہے۔ بارش کے سبھی آثار موجود ہیں، بادل بھی ہیں لیکن بارش کا نام و نشان نہیں ہے۔ بارش نہ ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ مشرقی اتر پردیش میں 9 جولائی تک 179 ایم ایم بارش ہونی چاہیے تھی لیکن ہوئی تقریباً 140 ایم ایم۔ یعنی اوسط سے 22 فیصد کم بارش۔ یہ بارش کہیں ہوئی اور کہیں نہیں ہوئی۔ اس بارش کے بعد کھیتوں میں کتنا پانی پہنچ سکا اس کا اعداد و شمار کسی کے بھی پاس موجود نہیں۔