
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
محمد ارشد

جون کی 12 تاریخ سے اب تک بے گناہ فلسطینیوں پر صہیونیوں کی دہشت گردی جاری ہے۔ جس کے خلاف دنیا بھر سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ مختلف مقامات پرہر قوم و ملت اور انسانیت کا درد رکھنے والے احتجاج و مظاہرے کررہے ہیں۔ اسرائیل سے مظلوموں پر اب مزید ظلم ڈھانے سے باز رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے۔ تقریبا ہر اخبار و رسائل اورٹی وی چینلز کی رپورٹیں غاصب اسرائیلوں کے ظلم کے خلاف اور مظلوم فلسطینیوں کے حق میں یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ظلم کی اب انتہا ہوچکی ہے۔ انسانیت کی تذلیل و تحقیر اب اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن صہیونی فرعون پر اس کا کوئی اثر نہیں دیکھائی دے رہاہے۔ وہ ان سب سے بے پرواہ ?معصوم فلسطینیوں پر بے تحاشہ گولہ باری کرنے میں مصروف ہے۔کیا وہ فلسطینیوں کا نام و نشان مٹادینا چاہتا ہے۔ لیکن کیوں ؟ کیا اسرائیل جس نے اس حملے کی شروعات اپنے اغواشدہ ان تین بچوں کی آڑلے کر کی تھی ، جس الزام کوفلسطین نے یکسر مسترد کردیا اور اس بات سے صاف انکار کردیا کہ اسے ایسی کسی خبرکی اطلاع ہے۔ لیکن صہیونیوں نے اپنی فطری عیاری اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدلے آڑ میں جو حملہ شروع کیا تھا کیا ابھی تک ان کے بدلے کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ حقیقت میں یہ تو صرف ایک بہانہ اور سوچی سمجھی سازش تھی کیوں کہ اسرائیل کیجو لڑکے اغوا ہوئے وہ ایسے علاقے سے ہوئے تھے جو اسرائیلی فوجیوں کے زیر سایہ علاقہ ہے۔ اصل بات تویہ تھی کہ اسرائیل کو حماس کا الفتح سے دوستی کا ہاتھ ملانا انتہائی ناگوار گزرا۔ جس کی خلش اس قدر شدید تھی کہ وہ آپے سے باہر ہوگئے اور اس کا سبق سکھانے کے لئے انہیں آگے کی کارروائی انجام دینی پڑی۔ پھر یہ غاصب قوم جسے وینزویلا کے صدر نے “ناجائز مملکت ” قرار دیا تھا ، نے فلسطینیوں پر ظلم و بربریت کی حدیں پار کردیں۔ ان کے آشیانے پر آگ کی بارش شروع کردی اور سیکڑوں بے گناہوں کو ابدی نیند سلادیا، ہزاروں افراد کو بے گھر کردیا۔ نہ جانے کیکتنے بے گناہ معصوموں بچوں اور خواتین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن کا صرف اور صرف یہ جرم تھا کہ وہ ایک فلسطینی تھے اور اس کے بعد یہ کہ وہ ایک مسلمان تھے۔ فسلطین اور اہل فلسطین کی صرف یہ غلطی تھی کہ ایک طویل مدت سے اس نے ہمیشہ صہیونی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی جرات کی ہے۔ دوسری اسلامی ممالک کی طرح اس نے صہیونیوں کی جی حضوری نہیں کی بلکہ ان ظالموں کے ظلم کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر ہوگئے۔ان کی ہر وار کا کرارا جواب دیا۔ یہ صہیونی قوم جو اسلام اور انسانیت کی روز ازل سے دشمن رہی ہے۔ اسلام اور انسانیت کے خلاف ہمیشہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے طرح طرح کی حکمت عملی اور ساز ش کرتی رہی ہے ۔اس نے اپنی عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کی ذہنیت سازی کی اور دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو اپنا حلیف بناکراسلام اور اہل اسلام کے خلاف متحد ہوگئے۔ ان کی تباہی و بربادی کے لئے زمینی سطح پر منصوبہ بندی کی اور ان کی ہلاکتوں کے تمام دروازے کھول دیئے۔ انہیں آپس میں برسر پیکار کیا اور پھر جو اس کی ساز ش کو سمجھنے میں کامیاب ہوگیا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کی تو اسے عبرتباک انجام تک پہنچ دیا۔
آج جبکہ فلسطین کے ہزاروںمظلوموں کی آہ و بکا دنیا وسیع و عریض میں پھیل رہی ہیں ۔ ایسے میں جہاں ایک طرف انسانیت کا درد رکھنے والا ہرشخص صہیونیوں کی اس ظلم و بربیت خلاف آواز بلند کرتا نظر آرہاہے۔حتی کہ ان کے حامیوں نے بھی اسے غلط قرار دیا ہے۔ لیکن یہ ساری باتیں بے سود معلوم ہوتی ہیں ، کیوں کہ اس کا کوئی اثرنہیں ہورہاہے۔تو دوسری طرف ہر ہاتھ دربار خداوندی میں ان کی مدد کے لئے اٹھا ہواہے۔ لیکن رمضان کی اس مبارک ساعت میں بھی ہماری دعائیں اور لوگوں کی آوازیں ان مظلوموں کیکچھ کام نہیں آرہی۔ کیا خدا ان سے ناراض ہوگیا یا پھر ہماری دعاؤں سے اثر غائب ہوگیا یا پھردعاؤں کی قبولیت کی جو شرائط ہیں کیا وہ ہم سے مفقود ہوچکی ہیں۔ یقینا ان سوالوں کا جواب ہمیں اپنے محاسبہ نفس کے بعد حاصل ہوجائے گا ۔ لیکن یہ ظالم کیا اتنے جری ہوگئے ہیں کہ دنیا کے ہرگوشے کی آواز ان کے کانوں پر کوئی اثر نہیں ڈال رہی ہے۔ کیا اسلامی ممالک کے حکمراں بھی دنیا کے حکمرانوں کے ساتھ اس ساز ش میں شریک ہوگئے ہیں۔ کیا وہ اپنی حکمرانی کے حوص میں نبی رحمت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر انسانیت کے درد سے بھی بے بہرہ ہوچکے ہیں۔ کیاانہیں معلوم نہیں کہ دنیا کی طاقتیں ان کے خلاف یکجا ہوچکی ہیں۔ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو مشت ستم بنایا جارہا ہے۔ اسلامی طاقتوں کو آپس میں برسر پیکار رکھ کر ان کی طاقتوں کو پاش پاش کیا جارہاہے ،اوردنیا بھر کی اسلام مخالف طاقتیں مسلمانوں کے آپسی اتحاد کو کسی بھی حال میں برداشت کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ اگر یہ طاقتیں آپس میں متحد ہوگئیں۔ان کے آپسی مسائل سلجھ گئے اور ان کے آپسی مراسم میں دوستانہ پہلو غالب آگیا تو پھر انسانیت کے یہ علمبردار دنیا میں امن و امان کے لئے اور دوسروں پر کئے جارہے ظلم کو روکنے کے لئے کسی بڑی سے بڑی طاقت کی پرواہ کئے بغیر ان سے الجھ بیٹھیں گے۔ تب دنیا سے ان کی حکمرانی ختم ہوجائے اور ان کی حیثیت نہ کے برابر رہ جائے گی۔ ایک طر ف انسانیت کے دشمنوں کی یہ منصوبہ بندی جاری ہے تو دوسر ی طرف اسلامی سلطنت حکمراں اپنی حکمرانی کے خمار میں بد مست ہیں۔انہیں دنیا میں جاری ظلم و بربیت سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی مظلوم کے خلاف اپنی آواز بلند کرکے فرعون وقت کو اپنی طرف متوجہ کریں ، جس سے ان کی تعیش پرست زندگی میں خلل پیدا ہو۔وہ اپنی آرام گاہ میں اس قدر کھوئے ہوئے ہیں کہ کسی بھی مظلوم کی چینخ و پکار کو ایک خواب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔اورجب انہیں اپنی کوتاہی کا احساس ہوتا ہے اور یہ خوف ستانے لگتا ہے کہ دنیا انہیں لعن طعن کرے گی تو جھوٹی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے تھوڑی سی رقم کا اعلان کردیا جاتاہے۔ کیا یہ تھوڑی سے مدد سے ہم اپنی کوتاہیوں کو چھپاسکتے ہیں۔کیا ان سکسکتے ہوئے معصوموں کے آنسو کی یہی قیمت ہے۔کیااسی امدادی بھیک کے لئے انہوں نے آپ کو آواز دی تھی۔رہی ہماری حالت تو ہم بھی ان حکمرانوں سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔ فلسطین اور اس جیسے دیگر مقامات کے مظلوموں اور بے کسوں کی پکار ہم پر بھی بے اثر ثابت ہورہی ہیں۔ ہمارے اندر صرف اور صرف انسانیت کا اتنا ساپہلو باقی رہ گیا ہے کہ ہم انہیں مصیبت زدہ دیکھ کر تھوڑی سی وقتی افسوس کا اظہار کردیتے ہیں اور بس۔ لیکن ہمارے پاس ان کی مدد کے لئے نہ تو اپنی جیب خالی کرنے کی زحمت گوا را ہے اور نہ ہی ہم امداد کی دوسری صورت سے ان کا تعاون کرنے کو تیار ہیں ، جس کی جہاں بہت ساری وجہیں ہوسکتی ہیں ان میں نمایاں اور اہم یہ ہے کہ دنیاطلبی ہماری ذہنیت غالب آگئی ہے مفاد پرستی جیسی مہلک بیماری ہمارے اندر داخل ہوچکی۔قومی ، ریاستی ، نسلی ، مسلکی اور نہ جانے کیسی کیسی عصبیت ہمارے اندر سرایت کرچکی ہے۔یہ وہی بیماری ہے جس کے خاتمے کے لئے ہی نبی رحمت صلی اللہ تشریف لائے تھے۔ جسے دنیا نے جہالت کا نام دیا تھا اور جن لوگوں میں یہ پائی جاتی تھی انہیں بدترین دور کا سامنا تھا ۔ لیکن اسلام نے عصبیت کا خاتمہ کرکے ،اخوت و بھائی چارگی کا درس دیا۔ لوگوں سے حسن سلوک کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دشمنوں کے ساتھ بھی بھلائی کا حکم دیا۔ اور جب تک ہم اپنے نبی کی ان تعلیمات پر عمل پیرائے رہے دنیا میں سرخرو اور کامیاب ہوئے۔ بڑی سے بڑی طاقتوں کی ہمارے سامنے دم مارنے کی جرات نہ ہوئی۔ لیکن اس مہلک بیماری کے ساتھ جب ہم نے دنیا کو سب کچھ سمجھ لیا۔ پوری طرح دنیا میں طلبی میں منحمق ہوگئے۔ خدااور رسول سے ہمار بھروسہ اٹھ گیا ہم اپنی قوت پر غرور کرنے لگے۔ مغربیت کا نشہ ہمارے سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ہماری زندی کے ہر پہلو پر مغربیت غالب آگئی۔ ہماری طرز زندگی مغربی طرز زندگی کے قالب میں ڈھلنے لگی۔ تو خدا نے ہمیں اپنے حال پر چھوڑدیا۔ ہمیں دنیا کے حوالے کردیا۔ تو پھروہی ہوا جو ایسی صفات مصتف لوگوں کا ہوا کرتاہے۔ دنیا بھر ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن گئی۔ دنیا کی قومیں ہمارے اوپر ایسے ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے نبی کا وہ قول صادق ہوتا ہوا نظر آنے لگا کہ “ایک وقت تم پر ایسا آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے دستر خوان پر ٹوٹ پڑتیہیں ، اور اس وقت تمہاری حیثیت سمندر کے خش و خشاک کی طرح ہو جائے ، اور اس کی وجہ یہ نہیں ہوگی کہ تم تعدا میں کم ہوگے۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہوگی کہ تم بزدل ہوجاؤ گے۔دنیا کی محبت تم پر غالب آجائے گی اور آخرت سے تم بیزار ہوجاؤ گے۔تمہارے آپسی اختلافات عروج پر ہوں گے۔کیا اب بھی ہمیں اپنے نبی کی ان پیشن گوئیوں کی صداقت کا انتظار ہے۔
ہم اس قدر خود پرست اور مفاد پرست ہوچکے ہیں کہ حماس کے معصوموں کی آہ و بکا اور مظلوموں کی فریاد ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرنے میں ناکام ہیں۔ ہمارا خون منجمد ہوچکا ہے ، ہم اپنے ماضی کو بھلا چکے ہیں۔ہم اپنی دنیا میں اس قدر محو ہیں کہ ہمیں ان مظلوموں کی آہ و بکا اپنی عیش پرست زندگی میں مخل ہوتی نظر آرہی ہے۔ ہم ان مظلوں کو مدد تو دور اپنی مدد کے قابل نہیں رہے۔ ہماری حالت اس خوبصورت کھلونے سی ہوگئی جسے جب جو چاہے استعمال کرے اور دل بھر جانے پر کوڑے دان کے حوالے کردے۔ ہمارا دل مردہ ہوچکا ہے۔ ہم پر اب کسی ناصح کی نصیحت بھی کام نہیں کررہی ہے۔ہم اندھے ہوچکے ہیں۔ ہم اس قدر خودغرض ہوگئے ہیں کہ ہمیں اپنے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں۔ ہم نے دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے۔ ہمیں آخرت ، یوم حساب ، اجر و ثواب ، جنت و جہنم پرانی باتیں معلوم ہونے لگی ہیں۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ ہم انسانیت کے درد سے محروم ہوجاتے۔ ہمارے معصوموں بچوں ، بہوں اوربھائیوں کے آوازیں ہمارے پردہ سماعت سے ٹکراتی اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتے۔اے کاش ہم اپنی اس خستہ حالی کا محاسبہ کرتے۔ ہوش کے ناخون لیتے اور دشمنوں کی چال سمجھنے کی کوشش کرتے۔
مختصر یہ کہ جب تک ہم اللہ رب العزت اور نبی رحمت کی تعلیم کی تعلیمات پر عمل نہیں کریں گے۔ اسلام کے بتائے طریقے کے مطابق انسانیت کا سبق نہیں پڑھیں گے۔ دنیا کو ارزاں نہیں سمجھیں۔ دنیا پر آخرت کو ترجیح نہیں دیں گے۔ آپسی اختلاف کو پس پشت ڈال کر بھائی چارگی اور اتحاد باہمی کا ثبوت نہیں دیں گے۔ ہماری حالت میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہم پر فلسطین اور اس جیسے بے شمار بے گناہوں کے چینخیں ہمار ا دل موم نہیں کرسکتے۔ ہم ظاہری طور لاکھ شور مچالیں لیکن ہماری ہنگامہ آرائی کسی کام کی نہیں ، ہم لاکھ دعائیں کرلیں لیکن ہماری دعائیں کسی کام کی نہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہم پہلے اپنا محاسبہ کریں ، پھر اپنی اصلاح کریں پھر دوسرے عوامل اپنائیں پھر دیکھیں یقینا ہماری حالت میں تبدیلی آئے گی۔ ہمیں کسی غیر قوم کے سامنے اپنے حقوق کے مطالبے کے لئے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے۔ اگر ہم اپنی حالت میں تبدیلی کے خواہاں ہے۔ اپنے جگر میں انسانیت کا درد رکھتے ہیں تو اب بھی ہم اپنا کھویا ہوا وقار پا سکتے ہیں۔ ضرورت ہے صرف اس بات کی دوسروں کو حقیر سمجھنے سے پہلے اپنے گریبان جھاں کر دیکھیں۔ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے دامن کو نہاریں۔ آپسی خلفشارکے سارے دروازے مسدود ہوجائیں گے۔ اور پھر ہم یقینا کامیاب ہوں گے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے۔آمین!