
مسجد نبوی میں غیر ملکی خواتین سے ناروا سلوک کی شکایات

مدینہ منورہ، 1 8جولائی (یو این بی) مدینہ منورہ میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے آنے والی بہت سی عرب اور غیر عرب خواتین نے سعودی خواتین محافظوں کے نسل پرستانہ امتیازی سلوک کی شکایات کی ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں زبردستی منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے (کمرے) کے درمیان واقع مخصوص جگہ الروضہ الشریف (ریاض الجن? ) پر چند منٹ کے لیے بھی ٹھہرنے نہیں ہونے دیا جاتا ہے اور اس کو زبردستی سعودی خواتین کے لیے خالی کرالیا جاتا ہے۔
سعودی گزٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق متعدد عرب زائرات کا کہنا ہے کہ مسجد نبوی کے اندر سعودی اور خلیجی خواتین کے لیے جگہوں کا مختص کیا جانا بالکل غیر منصفانہ ہے اور مسجد میں بیٹھنے کی جگہ کسی نسل اور قومیت کے بجائے پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر دی جانی چاہیے۔
ایک مصری زائرہ زینب عبدالفضیل نے بتایا ہے کہ وہ اور ان کی ساتھی خواتین جب الروضہ الشریف کی جانب بڑھیں تو وہ خوشی سے جھوم اٹھی تھیں مگر اس کے بعد پتا کیا ہوا۔سعودی خاتون نگران نے ہمیں سختی سے جھڑک دیا اور کہا کہ یہ کوئی شادی کی جگہ نہیں ہے حالانکہ ہم تو خوشی کا اظہار ہی کررہی تھیں۔زینب عبدالفضیل نے کہا کہ ”سعودی خاتون سپروائرز نے خاموشی سے ہماری رہ نمائی نہیں کی اور نہ مہذب طریقے سے سمجھایا۔ سپروائزر بہت ہی سخت مزاج واقع ہوئی تھی اور ہمارے ساتھ درشت لہجے میں پیش آرہی تھی کیونکہ ہم لوگ غیر ملکی تھے۔ پھر ہمیں وہاں سے دورکعت نماز ادا کرنے کے بعد مسجد نبوی کے مغربی حصے کی جانب زبردستی بھیج دیا گیا”۔
اس مصری خاتون نے بتایا کہ” مسجد نبوی میں خواتین زائرات کی ان کے ملکوں کے مطابق درجہ بندی کی جاتی ہے اور ان کو اکٹھے کردیا جاتا ہے جبکہ سعودی اور خلیجی خواتین کو اکٹھے وہاں آنے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ دوسری خواتین کے ان کے ممالک کے مطابق گروپ بنا دیے جاتے ہیں”۔ان کا کہنا تھا کہ ”بہتر یہ ہے تمام زائرات کو آزادانہ طور پر وہاں آنے کی اجازت دی جائے اور ان کی گروپ بندی کی جائے۔ہم تمام مسلمان ہیں اور نسلی بنیاد پرکسی کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کا کوئی جواز نہیں ہے”۔
مراکش کے شہر فیض سے تعلق رکھنے والی خاتون ہدیٰ بنت اسماعیل نے بتایا کہ ”انھیں سپروائرز کی یہ آواز سن کر بہت صدمہ پہنچا جب اس نے یہ کہا کہ تمام سعودی خواتین ایک طرف سے جائیں اور باقی تمام غیرملکی خواتین دوسری جانب سے جائیں”۔اس خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں زبردستی مختصر وقت کے بعد ہی الروضہ کو چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ وہ بہت دور دراز سے زندگی میں پہلی مرتبہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت کے لیے آئی ہیں اور ہمارے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے تھا لیکن اپنے ناروا سلوک کے ذریعے تو یہ نگران خواتین ہم مسجد نبوی میں جس روحانیت کی تلاش میں آتی ہیں،اس کو ہی قتل کردیتی ہیں’۔
الجزائر سے آنے والی خاتون سلمہ ابو قریط نے بھی خواتین کو ان کی قومیتوں کے مطابق الگ تھلگ کرنے اور ان کے گروپ بنانے پر اعتراض کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مکہ مکرمہ میں مسجدالحرام میں بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ترک خاتون خدیجہ عبدالحمید کا کہنا تھا کہ سعودی مردوں کو کیوں دوسرے ممالک کے مرد زائرین کے ساتھ گھلنے ملنے کی اجازت دے دی جاتی ہے جبکہ خواتین کا ان کے اپنے ساتھیوں (محرم افراد) کے ساتھ گروپ بنا دیا جاتا ہے۔انھوں نے سوال کیا کہ ”اگر میں انڈونیشیا اور نائیجیریا سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کے درمیان نماز پڑھ لوں گی تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟”
فلسطینی خاتون زاہدہ عمار نے بتایا کہ ”میں ضعیف العمر ہوں اور زندگی میں پہلے مرتبہ مسجد نبوی کی زیارت کے لیے آئی ہوں۔میری خواہش تھی کہ میں الروضہ میں زیادہ وقت گزاروں،وہاں نماز ادا کروں اور قرآن مجید کی تلاوت کروں لیکن یہ سادہ سا خواب بھی پورا نہیں ہوا کیونکہ سعودی خواتین سپروائزروں نے مجھے چند ثانیے کے بعد ہی وہاں سے نکال باہر کیا تھا”۔زاہدہ عمار کا کہنا تھا کہ ”میں اس کے بعد ایک گھنٹے تک مسجد نبوی میں داخل ہونے کے لیے دروازے کے باہر کھڑی رہی لیکن الروضہ پر صرف پانچ منٹ تک ٹھہرنے کی اجازت دی گئی۔میں نے سعودی خاتون سپروائرز سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز اور پڑھنے کی اجازت دی جائے لیکن مجھے کہا گیا کہ میں فوراً وہاں سے نکل جاؤں”۔
مسجد نبوی کیامور کی پریزیڈینسی کے اطلاعات اور تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر شیخ عبدالواحد الحطاب نے غیرملکی خواتین کی ان شکایات کو مکمل طور پر درست قرار نہیں دیا۔انھوں نے بتایا کہ ان خواتین کو صرف اس لیے الروضہ کو خالی کرنے کے لیے کہا جاتا ہے تاکہ دوسری خواتین کو بھی وہاں عبادت کا موقع مل سکے۔انھوں نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ اور الروضہ کو رمضان المبارک کے دوران خواتین کے لیے تین اوقات میں کھولا جاتا ہے۔نماز فجر ،نماز ظہر اور نماز تراویح کے بعد۔رمضان کے آخری عشرے میں صرف دو اوقات نماز ظہر اور عصر کے بعد خواتین زائرات کو وہاں جانے کی اجازت ہوگی۔
الحطاب کا کہنا تھا کہ خواتین کے ساتھ کوئی نسلی امتیاز نہیں برتا جاتا ہے بلکہ مسجد نبوی میں نقل وحرکت کو بہتر بنانے کے لیے خواتین کی گروپ بندی کی جاتی ہے اور ہم بھگدڑ سے بچنے کے لیے مسجد نبوی میں خواتین کے داخلے کو مربوط اور منظم بنا رہے ہیں۔
حطاب یہ بات تسلیم کی کہ ”سعودی اور خلیج تعاون کونسل کے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ایک گروپ میں رکھا جاتا ہے اور دوسرے ممالک کی خواتین کو ان کی قومیت کے مطابق الگ گروپوں میں رکھا جاتا ہے تاکہ ان کے ساتھ خاتون سپروائزروں کو ان کی اپنی زبان میں بات کرنے میں آسانی رہے”۔ تاہم انھوں نے اس الزام کی تردید کی کہ سعودی یا خلیجی خواتین کے ساتھ کوئی ترجیحی سلوک کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حج کے موقع پر زائرین کی گروپ بندی کی طرح ہی مسجد نبوی میں گروپ بندی کی جاتی ہے۔یہ ایک عملی اقدام ہے اور اس سے زائرین کے درمیان کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔
انھوں نے غیرملکی زائرات کے اس الزام کی بھی تردید کی کہ سعودی نگران خواتین ان کے ساتھ ناروا اور درشت لہجے میں پیش آتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کو آداب سکھانے کے لیے جامعہ اْم القریٰ مکہ اور شاہ سعود یونیورسٹی الریاض میں تربیتی کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا مسجد نبوی میں شوروغل کرنا غیر اسلامی ہے۔یہ احترام کی جگہ ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔