
روزہ رکھئے صحت مند رہئے!

دانش ریاض
اپنے روز افزوں موٹاپے سے پریشان فرحانہ تبسم یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر اس مرض سے کیسے نجات حاصل کی جائے ۔ اس کی بڑی بہن فرزانہ نے اسے ڈائٹنگ کا مشورہ دیا لیکن انہیں دنوں رمضان المبارک سے سارا مسئلہ ہی حل ہوگیا ۔ فرحانہ نے رمضان کے مکمل روزے رکھے اور اپنے بڑھتے ہوئے وزن پر قابو پالیا ۔
ان دنوں جبکہ موٹاپے کی وبا عام ہے اور لوگ ڈائٹنگ کے ذریعہ اس پر قابو پانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ایسے میں وہ لوگ جو روزے کا اہتمام کرتے ہیں اس پر مکمل قابو پالیتے ہیں ۔ روزہ نہ صرف روحانی ارتقاء کا مظہر ہے بلکہ یہ جسمانی نظام کو بھی چست و درست رکھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی اس کی کافی اہمیت ہے ۔ ہندو دھرم کا ’’بَرت‘‘ ہو یا جین اور بودھوں کے یہاں ’’اپواس‘‘ یا پھر سامی مذاہب میں شمار کئے جانے والے عیسائیوں اور یہودیوں کے یہاں Fastingکا تصور ان تمام مذاہب میں اسے خاصی اہمیت دی گئی ہے ۔ اللہ رب العزت نے جہاں اَلصَّوْم لِیْ وَانا أجزی (روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا) کا ارشاد فرماکر اس کی اہمیت کا تذکرہ کیا ہے ۔ وہیں اطباء نے بھی اسے مختلف کسوٹی پر پرکھ کر صحت و تندرستی کیلئے بیش بہا تحفہ قرار دیا ہے ۔
ماہرین کے مطابق وہ لوگ جو روغن کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اور جن کے دل اور شریانوں پر چکنائیاں جمع ہوتی رہتی ہیں روزے کا اہتمام کرتے ہی وہ اس پر قابو پالیتے ہیں ۔کیونکہ دل کے لئے مفید چکنائی ایچ ڈی ایل کی سطح میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور ٹرائی گلیسرائیڈ بھی معمول پر آجاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے چکنائیوں کے استحالے (میٹابولزم) کی شرح بہتر ہوجاتی ہے ۔ واضح رہے کہ روزہ کے دوران خون کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے دل کو انتہائی آرام ملتا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ روزے کے دوران بڑھے ہوئے خون کا دباؤ ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے ۔ شریانوں کی کمزوری اور فرسودگی کی اہم ترین وجوہات میں خون میں باقی ماندہ مادے(Remnanuls)کا پوری طرح تحلیل نہ ہوسکنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف روزہ بطور خاص افطار کے وقت کے قریب خون میں موجود غذائیت کے تمام ذرے تحلیل کردیتاہے ۔ اس طرح خون کی شریانوں کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جم نہیں پاتے جس کے نتیجے میں شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں چنانچہ موجودہ دور کی انتہائی خطرناک بیماری شریانوں کی دیواروں کی سختی (Arteriosclerosis) سے بچنے کی بہترین تدبیر روزہ ہی ہے ۔
روزہ کے دوران جسم کا اعصابی نظام پرسکون ہوتا ہے جب انسان خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ رب العزت کے آگے سجدہ ریز ہوتاہے تو تمام طرح کی پریشانیاں بھی تحلیل ہوجاتی ہیں لہٰذا وہ لوگ جو پیچیدہ مسائل میں الجھ کر اعصابی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں انہیں یک گونہ سکون حاصل ہوتا ہے چونکہ روزہ کے دوران جنسی خواہشات علاحدہ ہوجاتی ہیں لہٰذا اس کی وجہ سے بھی اعصابی نظام پر کسی طرح کا منفی اثر مرتب نہیں ہوتا ۔ اسی طرح روزہ اور خون کے اشتراک سے جو مضبوط ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے وہ دماغ میں دوران خون کا بے مثال توازن قائم کرتی ہے اور انسان صحت مند اعصابی نظام کا حامل قرار پاتا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ نظام ہضم ہمارے جسم کا سب سے اہم نظام ہے اس کے اہم اعضاء لعابی غدود ، زبان، گلا ، غذائی نالی ، معدہ ، بڑی آنت ، چھوٹی آنت ، جگر اور لبلبہ خود بخود ایک نظام سے عمل پذیر ہوتے ہیں جیسے ہی ہم کچھ کھاتے ہیں یہ خودکار نظام حرکت میں آجاتا ہے اور اس کا ہر عضو اپنا مخصوص کام شروع کردیتا ہے ۔ چونکہ یہ نظام 24 گھنٹے مصروف عمل رہتا ہے لہٰذا اعصابی دباؤ اور غلط قسم کی خوراک سے اس پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ نتیجتاً روزہ اس کے لئے تریاق ثابت ہوتا ہے اور ایک ماہ تک سارے نظام پر آرام طاری کردیتا ہے ، لیکن روزہ کا سب سے حیرت ناک اثر جگر پر ہوتا ہے کیونکہ اسے روزانہ 6 گھنٹوں تک آرام کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ توانائی بخش کھانے کو اسٹور کرنے کے عمل سے بڑی حد تک آزاد ہوجاتا ہے اور اپنی توانائی خون میں گلوبیولین کی پیداوار پر صرف کرسکتا ہے جو جسم کو محفوظ رکھنے والے نظام کو طاقت دیتا ہے ۔
تذکرۃً یہ بات خلاف واقعہ نہ ہوگی کہ گاندھی جی فاقہ کے لئے مشہور تھے ۔ وہ اپنے مذہب کے مطابق ’’ برت‘‘ رکھا کرتے تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھاکراپنے جسم کو سست کرلیتا ہے ۔ وہ نصیحتاً کہا کرتے کہ اگر تم اپنے جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہوتو جسم کو کم از کم خوراک دو، روزے کا اہتمام کرو اور سارادن جاپ کیا کرو پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو ۔
مغربی مفکرین بھی روزہ کی اہمیت محسوس کرتے ہوئے اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں، آکسفورڈ یونیورسٹی کے مشہور پروفیسر مورپالڈ اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا ہے ۔ جب میں روزے کے باب پر پہنچا تو چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کتنا عظیم فارمولہ دیا ہے ۔ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو کچھ اور نہ دیتا اور صرف روزے پر ہی اکتفا کرتا تو بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہ ہوتی ۔‘‘ پروفیسر مورپالڈ کے مطابق ’’میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں بھی اس فارمولے کو آزماؤں۔ پھر میں نے مسلمانوں کی طرز پر روزہ رکھنے کا اہتمام کیا ۔ میں طویل عرصے سے ورم معدہ (Stomach Inflammation)میں مبتلا تھا ۔ لیکن کچھ دنوں بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے ۔ میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی ۔ کچھ عرصہ بعد ہی میں نے اپنے جسم کونارمل پایا ۔ حتیٰ کہ ایک ماہ بعد میں نے اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی ۔ ‘‘
ہالینڈ کا مشہور پادری پوپ ایلف گال روزے سے متعلق اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے ’’ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں ۔ میں نے اس طریقہ کار کے ذریعہ جسمانی اور روحانی ہم آہنگی محسوس کی ہے ۔ میرے مریض مسلسل مجھ پرزور دیتے ہیں کہ میں انہیں مزید نئے طریقے بتاؤں لیکن میں نے ایک اصول یہ وضع کرلیا ہے کہ وہ مریض جو لاعلاج ہیں ان کو تین دن کے روزے نہیں بلکہ ایک ماہ کے روزے رکھوائے جائیں ۔ میں نے شوگر، دل کے مریض اور معدے کے مرض میں مبتلا لوگوں کو مستقل ایک ماہ کاروزہ رکھوایا ہے ۔ نتیجتاً شوگر کے مریضوںکی حالت بہتر ہوئی ہے ۔ ان کی شوگر کنٹرول ہوئی ۔ دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا ۔ جبکہ معدے کے مرض میں مبتلا لوگوں کو سب سے زیادہ افاقہ ہوا ہے ۔
فارما کولوجی کے مشہور ڈاکٹر لوتھر جیم روزہ د ار شخص کے معدے کی رطوبت لے کر لیبارٹری میں ٹیسٹ کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ غذائی متعفن اجزا (Food Particlesseptic) جس سے معدے میں خرابی واقع ہوتی ہے ۔ روزہ دار اس سے محفوظ ہوتا ہے وہ کہتے ہیں ’’ روزہ جسم اور خاص طور سے معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔ ‘‘
واضح ہوکہ روزہ نہ صرف معدہ اور جگر کے مریضوں کے لئے مفید ہے بلکہ وہ لوگ جو ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہیں وہ بھی اس ماہ سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں ۔ سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے تو روزہ رکھنے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کے بلڈ شوگر میں60 ملی گرام تا 70 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر کمی واقع ہوتی ہے ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے مگر چونکہ ان ایام میںکھانا ممنوع ہوتاہے لہٰذا جگر دیگر ذرائع سے گلوکوز بناکر خون میں شامل کردیتا ہے جس سے اس کمی کا ازالہ ممکن ہوجاتا ہے۔
طب یونانی کے مشہور ڈاکٹر سید اشفاق میر ٹی ایس آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ روزہ روحانی ، قلبی اور جسمانی امراض کے لئے ڈھال ہے ۔ اس کے فوائد حفظان صحت اور مواد ردیہ کو خارج کرنے میں عجیب تاثیر رکھتا ہے اور نفس کو تکلیف دہ چیزوں کے تناول سے روکتا ہے ۔ ‘‘میر کے مطابق ’’روزہ سے اعضاء و جوارح کو سکون ملتا ہے اور اس کی قوتوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ ‘‘