شالیمار ریسٹورنٹ :ممبئی میں مغلئی کھانے کا مرکز

عمیرشیخ کو ہوٹلنگ کا کاروبار ورثے میں ملا ہے ممبئی کے بھنڈی بازار سے شروع ہونے والا کاروبار اب ممبئی و مضافات میں پھیل چکا ہے۔ شالیمار ریسٹورنٹ ان تمام لوگوں کی پسند ہے جو مغلئی کھانا چاہتے ہیں پیش ہے دانش ریاض کی روپورٹ

شالیمار ریسٹورنٹ کے مالک عمیر شیخ
شالیمار ریسٹورنٹ کے مالک عمیر شیخ

زین الدین شیخ اتر پردیش کے ضلع جونپور کے ایک چھوٹے سے گائوں سبرحد سے تلاش معاش کے لئے ممبئی آئے تھے ،1970میں جب انہوں نے جنوبی ممبئی کی گنجان مسلم آبادی والے علاقے بھنڈی بازارمیں فالودہ بیچنے کاآغاز کیا تھا توشاید انہیں احساس بھی نہیںتھا کہ جس بیج کو وہ بونے کی کوشش کر رہے ہیں اس کے پھل سے کتنی نسلیں مستفید ہوں گی؟آج اسی مقام پر مشہور شالیمار ریسٹورنٹ قائم ہے جہاںمزیدار مغلئی کھانا کھانے والوں کی لمبی قطارلگی رہتی ہے ،لیکن اس ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے والے بیشتر افراد اس فالودہ کو کھانا نہیں بھولتے جسے کبھی دادا جان بنایا کرتے تھے۔ ریسٹورنٹ کے موجودہ مالک عمیر شہاب الدین شیخ ٹی ایس آئی سے کہتے ہیں’’داداجان کے فالودہ کی شہرت اس قدر ہوئی کہ دور دور سے لوگ یہاں آنے لگے،لہذا انہوں نے یہیں پہ تھوڑی سی جگہ خرید لی،جب ہمارا کاروبار مزید بڑھا تو بقیہ جگہ بھی خرید لی گئی،اب الحمد للہ جنوبی ممبئی میں ہمارا بڑ ابزنس ہے۔1996میں دادا جان کا انتقال ہوگیا اس کے بعد والد صاحب بیٹھنے لگے لیکن 2004میں والد صاحب بھی دنیا سے چلے گئے جس کے بعد سے اب میں ہی تمام ذمہ داریاں سنبھال رہا ہوں۔‘‘ 2004سے 2010تک کے عرصے میں کیا کچھ نیا کرنے کی کوشش کی،اس سوال کے جواب میں ممبئی یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری حاصل کرنے والے عمیر کہتے ہیں’’میں نے ریسٹورنٹ میں آنے والے باسلیقہ وخلیق گاہکوں کے لئے ’’نیو دسترخوان ‘‘کا آغاز کیا جہاں مغلئی کھانا شاہی انداز میں پروسا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ بہتر پیمانے پہ کیٹرنگ کا آغاز کیاگیا جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔فی الحال ایک برانچ اندھیری میں کھول رہا ہوں تاکہ وہاں کے مقامی افراد کو یہاں تک کا طویل سفر نہ طے کرنا پڑے اور وہ من پسند کھانا اپنے ہی علاقے میں تناول فرمالیں‘‘۔شالیمار کی مقبولیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے عمیر کہتے ہیں’’یوپی اور بہار کا کھانا ملک کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میںتھوڑاجدا ہے دراصل اسی خطہ کے لوگ مغلئی کھانا پسند کرتے ہیں اور اس کے ذائقہ سے بھی واقف ہیں لہذا ہمارے یہاں لوگ صرف پیٹ بھرنے نہیں آتے بلکہ کام و دہن کا بھر پور لذت بھی اٹھاتے ہیں،اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی Qualityسے کوئی سمجھوتا نہیں کیاہے،ہمارے یہاں یہ سوچنا ہی جرم ہے کہ چلو یہ چلے گا،بلکہ ہم نے ہر جگہ کی اچھی چیزیں منگائی ہیں اور اسے گاہکوں کو پروسا ہے۔اسی طرح ریسٹورنٹ میں صفائی ،سروسیز کا خیال اہمیت کا حامل ہے،جسے ہمارے یہاں بہتر طور پر برتا جاتا ہے۔مغلئی اور مشرقی ہند کے کھانوں کے ساتھ ہی یہاں چائنیز کھانے بھی ہیں ،کباب کی تھالیں ہیں ،فاسٹ فوڈ ہے اور پھر مٹھائیوں کی دکان ہے ۔لہذا ایک جگہ تمام چیزیں دستیاب ہونے کی وجہ سے بھی یہاں لوگوں کی آمد زیادہ رہتی ہے البتہ درست بات یہ ہے کہ اس سوال کو لوگوں سے ہی پوچھنا چاہئے کہ وہ یہاں کیوں آنا پسند کرتے ہیں۔‘‘17برس کی عمر میں ہی تجارتی چکی میں جت جانے والے عمیر مسلم تاجروں کو درپیش مسائل پر لب کشائی کرتے ہوئے کہتے ہیں’’مسلمان تاجروں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ کف پریڈ،لوکھنڈوالاجیسے پاش علاقوں میں اپنی دکانیں کھولنا چاہیں تو وہاں انہیں کوئی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔تعصب اس قدر عام ہے کہ لوگ بہتر سوسائٹیوں میں مسلمانوں کو دیکھنا نہیں چاہتے۔اس چیز نے مسلمان تاجروں پر سب سے زیادہ برا اثر ڈالا ہے‘‘۔ تجارتی دائو پیچ کو سمجھنے کے لئے والد صاحب کی شدت سے کمی محسوس کرنے والے عمیرمستقبل کے خاکہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں’’فی الحال دبئی میںریسٹورنٹ کھولنے کی تیاری چل رہی ہے جبکہ چین اور سائوتھ افریقہ میں فرنچائزی تلاش کر رہا ہوں‘‘۔28مئی 1988کو ممبئی سینٹرل میں آنکھیں کھولنے والانو عمر تاجر انسان کے ذاتی رجحان پر گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے’’انسان اعلی سوچ و فکر کے ساتھ سادہ زندگی گذارے،اسی کے ساتھ وہ آخرت کی تیاری بھی کرے،کیونکہ انسان محدود عمر کے لئے بہت سارا پیسہ کما نے کی کوشش کرتا ہے جس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا،ہم لوگ مسلمانوں کے درمیان تعلیم عام کرنے کے لئے صفا اسکول چلا رہے ہیں جبکہ جونیئر اور اسلامک کالج قائم کر نے کی کوشش جاری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *