لہٰذا ہم نے اپنی زبان بند رکھی

ندیم صدیقی
ہمارے ایک شناسا بزرگ کا قول یاد آتا ہے کہ ”میاں! عمل، عمل ہی سے بدل سکتا ہے۔“ جن صاحب کے منہ سے یہ قول سنا تھا انہی کا واقعہ ہے ، واقعہ کیا ہے اُن کے قول کی عملی شکل بھی ہے۔
واقعہ: ایک شخص نے ایک مسلم محلے میں عام جگہ پر سہواً گندگی کر دِی، وہاں موجود لوگ اس کو ڈانٹنے لگے، وہ دیہاتی شخص بار بار یہ کہتا رہا کہ میں نے جان بوجھ کر یہاں اُلٹی( قے) نہیں کی ۔ میری طبیعت خراب ہے۔ بس اُلٹی ہو گئی۔ وہ شخص تو دیہاتی تھا مگر جو لوگ وہاںموجود تھے وہ شہر کے باسی تھے اور ان کے ہاں اپنے مہذب ہونے کا احساس بھی ایک فخر کی صورت موجود تھا۔ اُنہی میں سے کسی نے کہا کہ ” گاوں کے ماما“ ہو،نا؟ جہاں چاہا تھوک دیا اور جہاں چاہا مختصر یہ کہ بیچارے دیہاتی کی خوب خبر لی گئی۔ مذکورہ باریش بزرگ یہ سب تماشا دیکھ رہے تھے۔ وہ جلدی سے مسجد کی طرف گئے اور وہاں سے ایک بوتل میں پانی بھر کر لائے اور قے سے آلودہ جگہ پر پانی ڈال کر صاف کر دیا اور اس دیہاتی سے کہا کہ جا بابا جا۔ وہ دیہاتی ا ِن’ فخر زدہ‘ لوگوں کی طرف ٹیرھی نگاہ اور بزرگ کی طرف نظر ِممنونیت ڈالتے ہوئے چلا گیا۔
ایک واقعہ اور حافظے میں سر اُٹھا رہا ہے۔ چا ند رات تھی اور ممبرا جانے والی آخری ٹرین لوگ عید کی خریداری وغیرہ کرکے لوٹ رہے تھے، معمول سے زیادہ کچھ رش بھی تھا۔ عموماً سکنڈ کلاس میں لوگ سیٹ پر بیٹھے تیسرے شخص کو ذرا کھسکا کر بیٹھ کیا جاتے ہیں، کولہے ٹِکا لیتے ہیں کہ کچھ تو تھکن دور ہو۔ اسی طرح کی صورت حال تھی۔ ایک برقعہ پوش خاتون اپنے کسی عزیز کے ساتھ تیسری سیٹ پر بیٹھی تھی۔
سائن ریلوے اسٹیشن سے ایک شخص ٹرین میں چڑھا اور اس نے حسب ِمعمول اس تیسری سیٹ پر بیٹھی خاتون سے ذرا کھسکنے کو کہا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس خاتون کے جو عزیز اُس کے ساتھ سیٹ کے بیچوں بیچ بیٹھے تھے وہ خاتون کی جگہ پر بیٹھ جاتے اور ذرا سی جگہ اس آنے والے مسافر کو دیدیتے، ہو اِاس کے برعکس
آنے والے شخص کو یہ کہہ کر ڈانٹا گیا کہ کیا میری عورت کی گود میں بیٹھے گا۔ اُس شخص نے بھی کچھ جواب دیا۔ مختصر یہ کہ جملے بازی ہاتھا پائی پر پہنچ گئی۔ آنے والاکچھ صحت مند تھا اس نے بھی اپنے ہاتھ سے جواب دیا۔ پھر یہ دیکھا کہ اس خاتون کے ساتھ جو مرد تھا اس کے ساتھی براتی بھی اسی کمپارٹمنٹ میں موجود تھے۔ شور سن کر وہ بھی وہاں آگئے ”کیاہوا، کیا ہواکیا ہوا، کیا ہوا؟“
ارے یہ س ا ل ا تیری بھابھی کے بازو میں بیٹھ رے لا ہے۔ ان لڑ کوں نے فوراً اِس شخص کو گھیر لیا اور اتنا مارا کہ وہ لہو لہان ہو گیا۔ اتنے میں کرلا اسٹیشن آگیا۔ اسے سوئے اتفاق کہیے کہ ہمارے ان بھائیوں کی شامت اعمال کہ وہ کمپارٹمنٹ ،پلیٹ فارم پر اس جگہ رُکا جہاں سامنے ہی آر پی ایف( ریلوے پروٹیکشن فورس) کا دفتر تھا وہ مسافر اُترا اور بہ عجلت اس دفتر میں داخل ہوا
پھر آن کی آن ہم نے دیکھا کہ ٹرین میں ایک دو نہیں چار پانچ آر پی ایف کے باوردی نوجوان داخل ہوئے اور انہوں نے اُن نوجوانوں کو کھینچ کر پلیٹ فارم پر اُتار لیا ، ظاہر ہے وہ خاتون بھی ان کے ساتھ نیچے اُتری۔ اتنی دیر میں ہمیں پتہ چل گیا کہ جس کو ان نوجوانوں نے لہو لہان کیا تھا وہ سادہ لباس میں آر پی ایف ہی کا جوان تھا اور ڈیوٹی کے بعد گھر لوٹ رہا تھا۔ اب ہمارے قاری سمجھ سکتے ہیں کہ اُن نوجوانوں کی کیا دُرگت بنی ہوگی اور ان کی عید کتنی خوشگوار گزری ہوگی۔
معاملے کی تمام تفصیل ہم نے اس لئے لکھی کہ ہم خود اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں۔
”ذرا سی بات کا انجام کیا ہوا؟“ باشعور لوگ سمجھ سکتے ہیں۔یہ واقعہ پرانا ہے مگر کل کے ایک واقعے نے اسے یاد دلا دِیا، ہمارے سفر کے چالیس سا لہ تجربے کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ لوکل ٹرین کے فرسٹ کلاس میں عموماً اس طرح کے واقعے شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں ۔ کل دوپہر ایک باریش نوجوان اپنے کرتے پاجامے کے ساتھ ممبرا ہی سے سوار ہوا اُس وقت عموماً رَش ختم ہو چکا ہوتا ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ بالکل خالی ہو۔ ہماری ” خوش بختی “ کہ یہ نوجوان ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گیا اور پھر کچھ دیر ہی میں اس نے آنکھیں بندکر لیں۔ یقیناً گھر سے ظہرانے سے فارغ ہو کر نکلا ہوگا کہ آنکھ بند کرتے ہی اسے نیند بھی آگئی، پھر یوں ہوا کہ کچھ دیر میں اس کا سر ہمارے کاندھے پر گرا، ہم نے نظر انداز کیا، پھر یوں ہوا کہ پیر پھیلنے شروع ہوئے اور اُس کا سر پھرہمارے کاندھے پر گرا۔ ہم نے اسے آہستہ سے ہاتھ لگا کر کہا: ٹھیک سے بیٹھئے بھائی! ہمارا اِتنا کہنا تھا کہ اس کی نیند جیسے بھاگ گئی ہو، وہ نہایت تیز آواز میں بولا:” کیا ہے، دیکھتے نہیں مَیں سو رہا تھا ۔ ذرا سا سر کیا لگ گیا، میری نیند خراب کردی۔ میں روز اسی طرح سوتے ہوئے جاتا ہوں اور سوتے ہوئے آتا ہوں۔ سمجھا کیا!“ ہمیں لگا کہ اگر ہم نے زبان کھولی تو شاید ہماری شامت نہ آجائے۔ لہٰذا ہم نے اپنی زبان بند رکھی۔ وہ نوجوان باریش کرلا میں اُتر گیا۔ دادر میں ایک جملہ مراٹھی میںسننے کو اور ملا :
” کائے دادا! تمہارے بھیا لوگوں کے ساتھ ایس ایس والے لوگ برابر کرتا ہے نا!“
ہم ’ مراٹھی بھا و ‘کی بات کا بھی جواب نہیں دے سکے ، کیونکہ کوئی جواب ہوتا تو دیتے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *