میرے والدپاکیزہ روح کے مالک، مضبوط اور قابل انسان ہیں: دمن سنگھ

مجھے نہیں لگتا کہ میرے والد سیاست کے لیے صحیح ہیں، انھیں سیاسی جوڑ توڑ نہیں آتا

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بیٹی دمن سنگھ
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی بیٹی دمن سنگھ

ایسے وقت میں جب منموہن سنگھ سوالوں کے گھیرے میں ہیں اور ان پر سنجے بارو سے لے کر نٹور سنگھ تک سبھی سوال اٹھا رہے ہیں، انھیں بچانے کے لیے ان کی بیٹی دمن سنگھ نے قدم بڑھایا ہے۔ انھوں نے ایک کتاب لکھی ہے ’اسٹرکٹکلی پرسنل، منموہن اینڈ گرشرن‘۔ اس کتاب میں انھوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے والد نہ تو چالاک سیاستداں ہیں اور نہ ہی موقع پرست ہیں۔ ایک انگریزی اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے منموہن سنگھ کی زندگی سے جڑے کئی پہلوئوں کو سامنے رکھا۔ اس انٹرویو کے دوران انھوں نے کہا کہ 2009 کے انتخابات میں انھوں (منموہن سنگھ) نے کہا تھا کہ ہم دوبارہ اقتدار میں نہیں آ رہے ہیں۔ انھیں ایسا لگتا تھا، لیکن یہ بات انھوں نے سنجیدگی سے نہیں کہی تھی۔ جب دمن سنگھ سے ان کے والد اور نرسمہا رائو کے تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ نرسمہا رائو نے میرے والد کو فون کیا اور راتوں رات انھیں ملک کا مرکزی وزیر مالیات بنا دیا گیا۔ ملک کا بجٹ پیش کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک مہینے کا وقت تھا۔ اس وقت اقتصادی نظام بہت برے دور میں تھا۔ اقتصادی پالیسی میں جو بھی فوری بدلائو کیے گئے، اس کا مشورہ بھلے ہی میرے والد نے دیا تھا، لیکن وہ سب نرسمہا رائو جی کی وجہ سے عمل میں لایا جا سکا۔ انھوں نے بتایا کہ میرے والد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ وہ ایک اقلیتی حکومت تھی جس نے ملک کے اقتصادی نظام کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ میرے والد کو لگتا ہے کہ اگر ان کے پاس پانچ سال اور ہوتے تو وہ مزید بہت کچھ کر سکتے تھے۔

مدن سنگھ نے ایک سوال کے جواب کہا کہ میرے والد کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں تب تک کوئی تبدیلی لانا مشکل ہے جب تک نظام پوری طرح منہدم نہ ہو جائے۔ جمہوریت میں نظام ایسے ہی چلتا ہے۔ لوگوں پر اوپر سے کوئی انقلابی فیصلہ تھوپا نہیں جا سکتا۔ جب انھوں نے تبدیلی کی شروعات کی تو کانگریس پارٹی میں ہی ان کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں لگاتار لوگوں کو یہ سمجھانا پڑتا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ نرسمہا رائو لگاتار پارٹی کو اس سلسلے میں مطلع کرتے رہتے تھے۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ تبدیلی لانے کے دوران ان کے والد پر پارٹی کے لوگوں نے حملہ بھی کیا، تو انھوں نے کہا کہ سی سبرامنیم میرے والد کے حامی تھے۔ کتاب لکھنے کے دوران مجھے پتہ چلا کہ انھوں نے سبز انقلاب کو آگے بڑھانا چاہا تھا، لیکن انھیں امریکہ کا ایجنٹ کہا گیا۔ سبرامنیم اپنی سیٹ ہار گئے۔ رہنمائوں کو کبھی بھی ان کی مناسب جگہ نہیں ملتی اور نہ ہی کبھی ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ دمن سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا انھیں لگتا ہے کہ ان کے والد سیاست کے لیے صحیح آدمی تھے، تو انھوں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ سیاست کے لیے صحیح ہیں کیونکہ سیاسی جوڑ توڑ کرنا انھیں نہیں آتا۔ وہ موقع پرست نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ سیاست کر سکے، کیا اسے ان کی کامیابی نہیں کہا جانا چاہیے۔ انھیں بے حس سیاستداں کہنا بھی غلط ہے کیونکہ انھیں چیلنج سے کھیلنا اچھا لگتا ہے اور وہ خطروں سے کھیلتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی بیٹی نے مزید بتایا کہ 1991 میں جب وہ مرکزی وزیر مالیات بنے تو ایک بڑا خطرہ مول لیا۔ ملک میں اقتصادی تبدیلی لانے کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کی کمائی ہوئی عزت کو دائو پر لگا دیا۔ دراصل وہ ایک جنگ جیسی حالت تھی جس میں انھوں نے ایک بڑا دائو کھیلا تھا۔ سنجے بارو اور نٹور سنگھ کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے جواب دیا کہ میں نے دونوں ہی کتابیں پڑھی ہیں۔ دراصل سیاست پر لکھی کتابیں پڑھنے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے اپنی کتاب اس لیے لکھی ہے کیونکہ میں اپنے والدین کو ایک ’شخص‘ کی شکل میں جاننا چاہتی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ اپنی زندگی کے تجربات کے بارے میں اپنی بیٹی سے بات کرتے ہوئے انھیں اچھا لگا ہوگا۔ مدن سنگھ نے کہا کہ میری ماں ان کے ساتھ ساتھ چلنے والی طاقت ہیں نہ کہ ان کے پیچھے کھڑی طاقت۔ میری ماں کو لوگوں کے درمیان رہنا اچھا لگتا ہے اور انھوں نے پوری زندگی میرے والد کا خیال رکھا۔ اپنے والد کو جنونی انسانی کا درجہ دیتے ہوئے مدن نے کہا کہ انھوں نے اپنی ہر ذمہ داری کو پوری ایمانداری سے نبھایا، چاہے وہ وزیر مالیات رہے ہوں یا آر بی آئی کے گورنر۔ انھیں اپنے کسی بھی کام پر افسوس نہیں ہے۔
اپنی کتاب میں دمن سنگھ نے لکھا ہے کہ 2005 سے 2009 کے درمیان ان کے کنبہ کو ہنسنے کا موقع نہیں ملا، کیونکہ جس حالت میں انھیں وزیر اعظم بنایا گیا وہ غیر معمولی تھا۔ دراصل وہ ایسی کسی صورت حال کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ بہت جلد ہی انھیں ایک مضبوط ٹیم بنا کر کام شروع کرنا تھا۔ اتحادی حکومت کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ایک سرکاری ملازم ہونے اور وزیر اعظم ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ایسے میں گھر والوں کے لیے وقت نکال پانا مشکل تھا۔ جب دمن سنگھ سے یہ سوال کیا گیا کہ جب حکومت پر بدعنوانی کا الزام لگنے لگا اور وہ تنازعوں میں پھنسنے لگے تو کیا گھر والوں نے انھیں وزارت عظمیٰ چھوڑنے کے لیے کہا؟ اس سوال کے جواب میں دمن نے کہا کہ ہاں، اس سلسلے میں گھر والوں کی الگ الگ رائے تھی، لیکن انفرادی چیزیں اور سیاست دو الگ الگ باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن ہاں، ہم ان باتوں سے متعلق فکرمند تھے۔ دمن نے بتایا کہ جب میرے والد وزیر مالیات تھے تب بھی ان کی تنقید ہوتی رہتی تھی۔ انھیں امریکہ کا ایجنٹ تک کہا گیا۔ ان کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ ان چیزوں سے متاثر نہیں ہوتے، لیکن مجھے یہ سب برا لگتا ہے۔ میں اخبار نہیں پڑھتی اور ٹی وی پر بھی خبریں نہیں دیکھتی لیکن یہ سب باتیں میرے بیٹے تک پہنچتی ہیں جو بہت غمزدہ کرتی ہیں۔
منموہن-اندرا گاندھی تعلقات پر دمن نے کہا کہ اندرا گاندھی نے انھیں عزت دی۔ اپنی حکومت میں وہ طاقت کا مرکز ہوتی تھیں، لیکن وہ لگاتار میرے والد سے بات چیت کرتی تھیں اور ان کے نظریات اور صلاح و مشورہ کو سنتی تھیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بدعنوانی پر وہ خود کو معذور محسوس کرتی ہیں، تو انھوں نے کہا کہ جب میں یہ کتاب لکھ رہی تھی تو میں نے بدعنوانی پر ان (منموہن سنگھ) سے طویل گفتگو کی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جب وہ دہلی اسکول آف اکونومکس سے پڑھ کر نکلے اور محکمہ خارجی تجارت میں کام کرنے گئے تو انھیں پتہ چلا کہ اس محکمہ کے وزیر پر بدعنوان ہونے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ لیکن میرے والد نے کہا کہ بغیر ثبوت میں کسی کو قصوروار نہیں مانتا۔ بعد میں ایچ ایم پٹیل، جن کی میرے والد تعریف کرتے ہیں، پر کئی جھوٹے الزامات لگے، انھیں پریشان کیا گیا اور آخر میں انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ میرے والد کو اس بات کا بے حد افسوس ہے کہ اتنے قابل سرکاری ملازم کے ساتھ ایسا سلوک ہوا۔ میرے والد اکثر کہتے ہیں کہ سیاسی نظام بدعنوانی کو پیدا نہیں کرتی بلکہ انتخابات کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب آخر میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی بیٹی سے پوچھا گیا کہ انھیں کیا لگتا ہے کہ تاریخ ان کے والد کو کس طرح یاد کرے گی؟ تو انھوں نے کہا کہ میں اپنے والد کو مظلوم کی طرح نہیں دیکھتی۔ وہ پاکیزہ روح کے مالک، ایک مضبوط اور قابل انسان ہیں۔ دس سال کا ان کا وزارت عظمیٰ کا دور ان کے 40 سال کی ملکی خدمت کا صرف ایک حصہ ہے۔ ہو سکتا ہے لوگ ان کی وراثت کو آج نہ سمجھ سکیں، لیکن انھوں نے جو کیا ہے وہ بیش قیمتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *