Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

ہمیں صرف اپنے ایجنڈے سے مطلب ہونا چاہئے

by | Aug 7, 2014

سید خرم رضا

آج کی نئی نسل شاید جنرل محمد ضیاء الحق سے واقف نہ ہو لیکن ایک دور ایسا بھی تھا جب شائد ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب کسی اخبار میں جرنل صاحب کا تذکرہ نہ ہوتا ہو اور کیوں نہ ہوتا جنرل صاحب کی شخصیت تھی ہی کچھ ا یسی۔ ارے صاحب جرنل صاحب نے کچھ ایسے کارنامے انجام دئے ہیں جن کو کرنے کا شائد کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ویسے تو پاکستان میں کئی مرتبہ مارشل لا لگا اور فوج نے ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی مگر جنرل صاحب کا دور اقتدار بڑا تاریخی نوعیت کا تھا۔ 1978میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے جنرل صاحب سے اوپر چار سینئر فوجی افسران کو نظر انداز کرکے ان کو ملک کا فوجی سربراہ بنایا تھا لیکن ایک سال بعد ہی جنرل صاحب نے اس احسان کا بدلہ ایسے ادا کیا کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو نہ صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈلوا دیا بلکہ د و سال کے اندر ان کو تختہ دار پر بھی چڑھوا دیا۔ یہ پاکستانی تاریخ کا اب تک کا واحد معاملہ ہے جب ملک کے وزیر اعظم کو پھانسی ہوئی ہو۔ اس کے بعدجنرل صاحب زندگی کی اپنی آخری سانسوں تک اقتدار پر کسی نہ کسی شکل میں قابض رہے۔ اس کا سہرا بھی ان کے ہی سر جاتا ہے کہ امریکہ کی ہم پلہ طاقت سوویت یونئن کو دنیا کے نقشہ سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا۔ سوویت یونئن کے خلاف جو جنگ بظاہرافغانستان لڑ رہا تھا وہ حقیقی معنی میں امریکہ کی سرپرستی میں جنرل صاحب کی فوجیں ہی لڑ رہی تھیں۔ آج پاکستانی فوج کا ایک طبقہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ طالبان دراصل فوج کی پیدا کردہ نہیں ہیں بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی دین ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان تحریک جنرل صاحب ہی کی دین ہے ۔ ان کے 11سال کے اقتدارکا خاتمہ اس وقت ہوا جب 1988میں ایک طیارے حادثہ میں ان کی موت واقع ہوئی۔اس حادثہ میں ان کے ساتھ پاکستانی فوج کے کئی سینئر افسران اور امریکی ڈپلومیٹ بھی شکار ہوئے۔ کچھ لوگوںکی نظر میںجنرل صاحب ایسے حکمراں تھے جنہوں نے صرف اور صرف امریکہ کے ایجنڈے کو لاگو کیا اور کچھ کی نظر میں وہ خدا کا خوف رکھنے والے مذہبی رہنما تھے۔مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی غلط نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے پاکستانی حکمراں تھے جنہوں نے ملک میں شرعی قانون کے نفاذ کے لئے جر ات کا مظاہرہ کیا اور پورے معاشرے کو مذہبی رنگ میں رنگنے کی پوری کوشش کی اس کے ساتھ میں امریکہ کے ایجنڈہ کو کامیابی سے عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی ہر ممکن کوشش کی اور امریکہ کے سب سے بڑے حریف سوویت یونئن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں میں تبدیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک طبقہ ان کی ہمیشہ تعریف کرتا رہے گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان آج جن برائیوں کے گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے اس جنگل میں جنگلی پودے جنرل صاحب کے دور میں ہی اگنے شروع ہوئے تھے لیکن امریکہ نے ان کی آنکھوں پر اقتدار کا ایسا چشمہ لگا دیا تھا کہ جنرل صاحب کو یہ جنگلی پودے پھل د ار درخت نظر آ رہے تھے ۔ جنرل صاحب نے پاکستان میں جومذہبی اور مسلکی شدت پسندی کا پودا اس دور میں لگا یا تھا اسی پودے نے دہشت گردی اور گن کلچر کو جنم دیا جو پاکستا ن کے لئے ہی نہیں پوری دنیا کے لئے ایک لعنت بن کر سامنے آیا ہے۔ امریکہ اپنے مقاصد میںپوری طرح کامیاب رہا۔ اس نے سوویت کو بھی ختم کرا دیا اور پاکستان کو بھی ایک ناکام ریاست میں تبدیل کرا دیا۔ اور جنرل صاحب کی بے لوث خدمات کی وجہ سے امریکہ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا۔
آج سوویت یونئن کی جگہ چین نے لے لی ہے اور وہ دنیا کے نقشہ پر ایک بڑی طاقت بنکر سامنے آیاہے۔ ظاہر ہے چین کا طاقتور ہونا امریکہ کو کیسے گوارہ ہو سکتا ہے اس لئے اب وہ ہر ممکن کوشش کررہا ہے کہ چین کی ترقی کی رفتار اگر رکے نہیں تو دھیمی ضرور ہو جائے۔اس کے لئے وہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی خدمات لینے کے لئے ماحول بنائے۔ ہماری خدمات کے بدلے میں ہمیں کچھ چھوٹی موٹی رعائتیں بھی ملیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملک میں آنے والے دنوںمیں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہو اور پورے سماج میں بے چینی ہو جس کا پورا فائدہ امریکہ اٹھائے ۔ ایسے ہی نازک اور حساس موقعوں پر ہمارے قائدین اور اقتدار کے اعلی منصب پر بیٹھے لوگوں کا امتحان ہوتا ہے۔یہ وہ موقع ہے جب ہمیں اپنی گنگا جمنی تہذیب کو بھی بچانا ہے اور ملک کو ترقی اور کامرانی کے راستے سے بھی نہیں ہٹنے دینا ہے۔ اگر ہم نے اپنی نگاہیں اپنے مقصد سے ہٹا لیں اور کسی دوسرے ملک کے چشمے سے چیزوں کو دیکھنا شروع کر دیا تو ہم اپنے راستے سے تو بھٹک ہی جائیں گے ساتھ میں ہمارے سماج میں بد امنی اور بے چینی پیر پسار کر سوئیں گی۔ ہمیں صرف اور صرف اپنے ایجنڈے کو لاگو کرنا ہے کسی دوسرے کے ایجنڈے سے ہمارا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ (یو این بی)

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...