
ترکی ميں صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ کا آغاز
پہلی مرتبہ عوام براہ راست ووٹ کے ذریعے ترک صدر کا چناو کریں گے

ترکی ميں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا آغاز ہو گیا۔ عوام پہلی مرتبہ سربراہ مملکت کو براہ راست منتخب کریں گے۔ اس سے پہلے تک پانچ سالہ مدت کے لیے ملک کے صدر کو ترک پارلیمان منتخب کرتی تھی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ان انتخابات کے ‘فيورٹ قرار ديے جانے والے امیدوار اور موجودہ وزير اعظم رجب طيب ايردوآن نے کل ہفتے کے روز اپنی آخری انتخابی ريلی سے خطاب کرتے ہوئے ’ملک کو ايک نئی شکل دينے‘ کے عزم کا اظہار کيا۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اس اليکشن میں وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔ ايردوآن کا مقابلہ اکمل الدین احسان اوگلو اور کرد سیاستدان صلاح الدین دیمیرتاس سے ہے۔ حال ہی ميں کرائے جانے والے ايک جائزے کے نتائج کے مطابق ايردوآن اليکشن کے پہلے ہی مرحلے ميں 57 فيصد عوامی تائيد حاصل کرتے ہوئے انتخاب جيت سکتے ہيں۔
اپنی سياسی جماعت جسٹس اينڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا گڑھ سمجھے جانے والے اور قدامت پسند رجحانات کے حامل شہر قونيہ ميں اپنی آخری انتخابی ريلی ميں ہزاروں حاميوں سے خطاب کرتے ہوئے ايردوآن نے ترکی کو ايک ’نيا اور زیادہ مضبوط ملک‘ بنانے کا عزم ظاہر کيا۔ ان کے بقول وہ ترکی ميں جمہوری اور اقتصادی سطح پر بہتری لاتے ہوئے ملک کو ايک عالمی قوت بنا ديں گے۔ اس موقع پر ترک وزير اعظم کا يہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنے دور صدارت ميں خارجہ پاليسی کو وسعت ديتے ہوئے اسے زيادہ با اثر بنائيں گے اور انصاف کے ليے عالمی سطح پر کوششيں کريں گے۔
آخری ريلی سے خطاب کرتے ہوئے رجب طيب ايردوآن نے مزيد کہا کہ مذاہب سے قطع نظر، خواہ وہ آرمينيائی، يونانی، ايزدی يا اشوريہ نامی تہذيب سے ہوں، سب برابر کے شہری ہيں۔ ان کے بقول وہ لڑائی جھگڑے اور مختلف اقسام کے دباؤ کو ايک طرف رکھتے ہوئے ملک کو متحد رکھيں گے۔ ايردوآن نے کہا، ’’ہم 77 ملين عوام کے دلوں ميں ہيں۔ ہم سب کو تسليم کرتے ہيں اور ہم سب مل کر ترکی بنتے ہيں۔ يہی بات ہميں منفرد بناتی ہے۔‘‘
يہ امر اہم ہے کہ رجب طيب ايردوآن اس بات کا اظہار کر چکے ہيں کہ وہ ملکی آئين ميں تراميم کرنے اور صدر کے عہدے کو زيادہ سے زيادہ با اختيار بنانے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ انہوں نے يہ بھی کہہ رکھا ہے کہ وہ 2015ء ميں ہونے والے عام انتخابات کے بعد ملکی آئين ميں ترميم کے ذريعے صدر کے عہدے کے ليے امريکا کی طرز پر اختيارات کی کوشش کريں گے، جہاں صدر بہت با اختيار ہوتا ہے۔
رجب طيب ايردوآن قريب ايک دہائی سے وزير اعظم کے منصب پر فائز ہيں اور اس دوران انہوں نے ملک کے سيکولر دھڑوں کا زور کافی حد تک توڑ ديا ہے۔ ايردوآن کے مخالفين انہيں موجودہ، ترقی يافتہ دور کے ايک ’سلطان‘ کے طور پر ديکھتے ہيں، جن کی اسلام پسند سياست اور کسی بھی قسم کی مخالفت کے ليے عدم برداشت مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کے رکن اور يورپی يونين کی رکنيت کے اميدوار ملک ترکی کو مصطفیٰ کمال اتا ترک کے اعتدال پسندانہ پیغامات سے کافی دور دھکيل رہی ہے۔