
کانگریس کے جھوٹ اور بی جے پی کے ادھورے سچ کے درمیان اچھے دن کا مستقبل!
عمر فراہی
الیکشن 2014 میں پوری اکثریت کے ساتھ بی جے پی کی کامیابی نے عام طور پر اس خیال کو رد کردیا ہے کہ اب ہندوستان میں ایک سیاسی پارٹی کی حکومت کا دور ختم ہو چکا ہے ۔یہ بھی کہا جارہا تھا کہ بی جے پی کے پاس ہندو تو کی بالادستی اور رام مندر جیسے متنازعہ مسائل کے علاوہ کوئی ایسا ایجنڈا بھی نہیں ہے جسکی بنیاد پر وہ ملک کے پارلیمانی انتخابات میں پوری اکثریت کے ساتھ اپنی کامیابی پر خوش ہو سکے ۔مگر ا س الیکشن میں بی جے پی نے ترقی روزگار اور اچھے دن کا وعدہ کرکے جس طرح سے پارلیمنٹ پر اپنی جیت کا پرچم لہرایا ہے اس کا احساس بھی اسے ہے کہ ہندوئوں کی اکثریت نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے رام مندر اور ذات پات کی سیاست کو ترجیح نہیں دی ہے۔مگر عوام جس مہنگائی اور بد عنوانی سے تنگ ہیں اگر موجودہ حکومت نے عوام کے ان روزمرہ کے مسائل کو حل نہیں کیا تو اسے آئندہ الیکشن میں اقتدار سے محروم بھی ہونا پڑسکتا ہے ۔مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آر ایس ایس اور اسکی ملیٹینٹ تنظیمیں جو اپنے پر تشدد اور فرقہ وارانہ ذہنیت کیلئے مشہور ہیں ان کاکردار بھی اہم رہا ہے ۔جس کا اندازہ الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کے اعلان کے فوراً بعد آر ایس ایس کی پریس کانفرنس سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس کے ذریعے غالباً اس نے عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بی جے پی کی سیاست آر ایس ایس کی مدد کے بغیر ادھوری ہے ۔اس طرح جو ہندو آر ایس ایس کی تحریک کو ناکام سمجھتے ہوئے دور ہوئے ہیں انہیں اب قریب آنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔یہ سچ ہے اور اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اگر آر ایس ایس نے مودی کی جیت میں کانگریس کے خلاف پروپگنڈے اور اشتہار کی تمام کڑیوں کو یکجا نہ کیا ہوتا تو بی جے پی اتنی واضح اکثریت سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی تھی ۔سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی اس کامیابی میں یہ کڑیاں کیا تھیں اور کیا یہ تمام کڑیاںدوبارہ اس کی کامیابی میں معاون ہو سکتی ہیں ۔کہتے ہیں کہ آر ایس ایس نے گجرات میں مودی کی مقبولیت سے ایک تیر سے کئی شکار کھیلے ہیں۔سب سے پہلے تو اس نے مودی کی شکل میں وزیر اعظم کے عہدہ کیلئے ایک مضبوط لیڈر کے طور پر پروپگنڈہ کیا جبکہ دیگر پارٹیوں کی طرف سے اس عہدہ کیلئے کوئی مضبوط امیدوار سامنے نہیں آسکا ۔اس کے علاوہ گجرات فساد کے بعد مودی کی جو ایک سخت گیر ہندو ہمدرد لیڈر کی شبیہہ بن چکی تھی شدت پسند ہندوئوں کو یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں رہی کہ آر ایس ایس نے اپنے سخت گیر ہندوتو کے نظریات سے مصالحت اور مفاہمت کر لی ہے۔ہو سکتا ہے مودی کے نام پر آر ایس ایس نے گجرات ترقی ماڈل کا جو چہرہ پیش کیا یہ نقلی اور بنائوٹی ہی کیوں نہ رہا ہو مگر اس نے ہندوستانی عوام کے سامنے ایک تصویر تو بہر حال پیش کی جس پر عوام کی اکثریت نے ہو سکتا ہے بھروسہ بھی کیا ہو۔مگر بی جے پی کی اس کامیابی میں آر ایس ایس کا یہی پورا سچ نہیں ہے۔سچ یہ ہے کہ مہنگائی اور بد عنوانی کے تعلق سے نہ صرف کانگریس نے اپنی مقبولیت کو کھودیا تھا بلکہ اس کے تمام لیڈران اپنی یہ بات کہہ پانے میں بھی ناکام رہے کہ عوام انہیں ایک بار پھر اقتدار سونپے۔آر ایس ایس نے کانگریس اور دیگر سیکولر پارٹیوں کے اس پروپگنڈے کو بھی غلط ثابت کردیا کہ بی جے پی صرف برہمنوں کی پارٹی ہے اور وہ کامیاب ہوگی تو وزیر اعظم کیلئے کسی برہمن ذات کے ہندو کا ہی انتخاب کریگی جبکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے مودی کا پچھڑی ذات سے ہونا بھی فائدہ مند رہا ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ اس بار دلتوں اور پچھڑی ذات کے ہندوئوں نے بھی اپنے ووٹ کا بہت بڑا حصہ بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیا۔اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ملک کا ہندو اچانک 2014 کے الیکشن میں ذات برادری کے فرق کو مٹا کر ہندوتو کی بالادستی کیلئے فکر مند ہو گیا جیسا کہ اب دو مہینے بعد دھیرے دھیرے ہندو شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد کے رہنما پروین توگڑیا اور اشوک سنگھل نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا ہے اور انہیں لگتا ہے کہ ہندو متحد ہو گیا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ خاص طور سے یوپی میں امت شاہ نے مودی کے نام پر ہندوئوں کو ورغلاکر یوپی کی تقریباًتمام پارلیمانی سیٹوں پربی جے پی کیلئے کامیابی کا راستہ کھول دیا ، یہ بات درست نہیں ہے۔یوپی کی عوام اگر بی جے پی کے ان لیڈران کے ورغلانے میں آتی تو پروین توگڑیا ،اشوک سنگھل اور اوما بھارتی اور اسی یوپی میں آدتیہ ناتھ کے زہریلے بیانات سے کبھی کا بہک جاتی ۔مگر بی جے پی 2004 کے الیکشن میں 2002 کے گجرات فسادات کا فائدہ بالکل نہیں اٹھا سکی ۔یوپی کی عوام پہلی بار متحد نہیں ہوئی ہے ۔اسی عوام نے متحد ہو کر یوپی اسمبلی میں بی ایس پی کو اکثریت دلا کر کامیاب کیا اور پھر اسے شکست دیکر سماج وادی پارٹی کو اقتدار سونپا اس بار اس نے متحد ہو کر بی جے پی کو بھی دیکھنے کا فیصلہ کرلیااور یہ صرف یوپی کے ہندوئوں کی ذہنیت نہیں ہے ۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں مودی نے شمالی ہند کے تقریباً تمام علاقوں کو اثر انداز کیا ہے۔مثال کے طور پر بہار میں جہاں پاسوان اپنی نشست ہی مشکل سے جیت پاتے تھے ان کی پارٹی پارلیمنٹ کی سات نشستوں پر کامیاب ہوئی ۔مہاراشٹر میں بال ٹھاکرے کی موت کے بعد جو
شیو سینا نزع کی کیفیت میں تھی دوبارہ زندہ ہو گئی ۔
کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی کامیابی میں جو بات بحث کا موضوع نہیں بن سکی وہ 2011 کے بعد بد عنوانی کے خلاف انا ہزارے اور ان کے ساتھیوں کی تحریک تھی۔اس تحریک نے کانگریس کے خلاف وہی کردار ادا کیا جو 1970 میں جئے پرکاش نارائن کی تحریک سے جنتا پارٹی نے فائدہ اٹھایا ۔جنتا پارٹی کیلئے اچھے دن تو ضرور آئے مگر وہ اپنی اس کامیابی کو سنبھال نہیں سکے۔اب یہی اچھے دن بی جے پی کیلئے بھی ضرور آگئے ہیں ۔کیا ہندوستان کے بھی اچھے دن آئیں گے جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے بھی بہت بڑے بڑے دعوے کئے ہیں اور اب جس طرح فرقہ پرست لیڈران سر ابھاررہے ہیں ایسا لگتا تو نہیں ہے مگر سیاسی دائو پیچ کیلئے ابھی بہت وقت باقی ہے اگر ایسا ہو گیا تو مودی سرکار کے اس دور کو تاریخ کے سنہرے دورمیں شمار کیا جائیگا۔دیکھنا یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی فہرست میں شامل جواہر لال نہرو ،پٹیل ،ابو الکلام ،لال بہادر شاستری اور جئے پرکاش نارائن کی جو تحریک ہندوستان کو نئے انقلاب کے رنگ میں نہیں ڈھال سکی کیا وزیر اعظم مودی ،امیت شاہ،پروین توگڑیا اور اشوک سنگھل جنہیں کہ پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ،کو ساتھ لے کر کوئی انقلاب برپا کرسکیں گے ؟جبکہ فطرت کا اصول ہے کہ ایک اچھے سماج اور معاشرے کی تشکیل کیلئے اچھی سوچ اور اچھے لوگوں کی قیادت کا ہونا بھی لازمی ہے ۔جو اب ہندوستان میں دور دور تک پیدا نہیں ہو رہے ہیں ۔پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے ،ہو سکتا ہے قدرت کی طرف سے ہی اچھے دنوں کا کوئی نظم ہوجائے ۔بی جے پی نے بہر حال انا ہزارے ،رام دیو ،آر ایس ایس،میڈیا اور صنعتکاروں کی مدد سے ایک انقلاب کا پہلا مرحلہ تو طے کر ہی لیا ہے اور مسلمانوں کے حق میں یہ بہتر ہی ہوا ہے کہ ایک بار عوام نے بی جے پی کو اکثریت کے ساتھ اقتدار سونپ کر اسے ایک امتحان میں مبتلاء کردیا ہے ۔اور پھر مسلمانوں کیلئے کانگریس اور بی جے پی میں کوئی فرق بھی نہیں رہا ،اگر فرق ہے بھی تو وہ راہل چکر اور مودی چکر کا ہے۔کام تو بہر حال دونوں کی حکومتوں میں ملک کی پولس اور انٹیلیجنس کرتی ہے ۔ان کی ذہنیت کو بدلنے اور صاف کرنے کیلئے ہندوستان کی کسی سیاسی پارٹی میں جرات اور ہمت نہیں ہے ۔ بی جے پی کی کامیابی سے مسلمانوں کے حق میں ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے کے عام ہندوئوں کے ذہن میں جو یہ غبار تھا کہ مسلمان صرف کانگریس کا پجاری ہے اور اپنے ذاتی مسائل کو لے کر ملک کے مفاد کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے ،بی جے پی کو بھی آزما لینے کے بعد اس کا یہ غبار کافور ہو جائے گا ۔دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کانگریسی لیڈران اگلے الیکشن میں مسلمانوں کو بی جے پی کے بھوت سے ڈرانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے ۔تیسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ آئندہ آر ایس ایس کو شاید مودی کی مقبولیت انا ہزارے ،رام دیو اور میڈیا کی تحریک سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے اور خود آر ایس ایس اور شدت پسند ہندو لیڈران بھی اپنی مقبولیت کھو بیٹھیں۔سوال یہ ہے کہ اچھے دن لانے میں ہندوستانی مسلمانو ں کا کردار کیا ہوگا۔کیا ایک بار پھر وہ اسی کانگریس کو اقتدار سونپنے کیلئے متحد ہو جائے گاجس نے 1947 سے ہی اس کا جینا حرام کردیا ہے۔کیا مسلمان پھر اسی پارٹی سے دھوکہ کھائے گا جس کی حکومت میں بابری مسجد شہید ہوئی ۔2004_2014 کے دوران بے قصور مسلم نوجوانوں کو دھماکوں کے الزام میں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔بٹلہ ہائوس انکائونٹر 26/11 کی دہشت گردی اور افضل گرو کو پھانسی پر چڑھا کر کانگریس نے خو د ہندو کارڈ کھیلنے کی سازش کی ۔تعلیم ہافتہ ہندوئوں کی بہت بڑی اکثریت نے بہر حال کانگریس کی اس فرقہ وارانہ سیاست کو رد کرکے بی جے پی کو ایک موقع دیا ہے ۔ اگر مودی سرکار ناکام ہوتی ہے تو ہندوئوں کی بھی اکثریت جو انٹر نیٹ کے دور میں تھوڑا سا بدلی ہوئی اور متحد نظر آرہی ہے ملک کے مفاد کے تئیں تیسرے متبادل کو بھی تلاش کر لے گی ۔ایسے میں اگر مسلمانوں کی قیادت عام انصاف پسند ہندوئوں کی سوچ کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرتی ہے تو ممکن ہے کہ وہ خود حاشیے پر چلی جائے اور اس کے ووٹوں کی کوئی اہمیت نہ رہے جیسا کہ یوپی میں ہوا۔مگر جس طرح 2014 کے الیکشن میں مسلم قیادت اور مسلم تنظیموں نے ایک نااہل سیاسی جماعت کے حق میں فیصلہ کرکے مسلمانوں کا وقار مجروح کیا ہے ،ایسانہیں لگتا کہ آئندہ الیکشن میں بھی مسلمانوں کو صحیح راستہ دکھانے کیلئے کوئی تحریک سامنے آئے گی۔ہندوستانی مسلمانوں کے اس المیے پر تاریخ کو کوئی افسوس نہیں ہوگا کیوں کہ تاریخ نے اپنے باب میں یونان ومصر اور روما کی سلطنتوں کی تباہی کا قصہ جذب کیا ہے ۔اسپین اور بخارا کے بعد اگر تاریخ کے اس باب میں ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک اور المناک داستان بھی شامل ہوجائے توآنے والی نسلیں اسے بھی تاریخ کی عام روایت سمجھتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گی۔
عمر فراہی۔ موبائل۔09699353811 ای میل umarfarrahi@gmail.com