6 سال میں غیر ملکی افراد نے سوئس بینکوں سے 25 لاکھ کروڑ روپے نکالے

سوئس بینک ٹاور
سوئس بینک ٹاور

نئی دہلی، 31 اگست (یو این بی): ایک طرف تو ہندوستان کالے دھن کے مدعے پر لگاتار سوئٹزرلینڈ پر دباﺅ ڈال رہا ہے، لیکن دوسری طرف سوئس بینکوں سے 350 بلین سوئس فرینکس یعنی تقریباً 25 لاکھ کروڑ روپے کی بیرون ملکی رقم نکال لی گئی ہے۔ اس بات کا پتہ نہیں چلا ہے کہ اس میں سے کتنی رقم ہندوستانیوں کی تھی۔ لیکن اندیشہ ہے کہ نکالی گئی رقم میں ہندوستان کے کالے دھن کی مقدار بھی کثیر ہو سکتی ہے۔

گلوبل کنسلٹنسی جوائنٹ ’پرائس واٹر ہاﺅس کوپرس‘ کی سوئس یونٹ نے سوئٹزرلینڈ کے 90 پرائیویٹ بینکنگ انسٹی ٹیوشنز کی تحقیق کروائی ہے۔ کنسلٹنسی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے ”ہمارا اندازہ ہے کہ گزشتہ 6 سال میں غیر ملکی گاہکوں نے بینکوں سے قریب 25 لاکھ کروڑ روپے نکالے ہین۔“ کنسلٹنسی کا ماننا ہے کہ 350 بلین ڈالرس میں سے 250 بلین ڈالر ان لوگوں کے ہو سکتے ہیں جنھوں نے ٹیکس وغیرہ سے بچنے کے لیے یہ رقم یہاں جمع کروائی تھی۔ واضح رہے کہ سوئٹزرلینڈ پر ہندوستان سمیت کئی ممالک نے دباﺅ بنایا ہوا ہے۔ ہندوستان نے سوئٹزرلینڈ اور دیگر ملکوں میں ہندوستانیوں کے کالے دھن کا پتہ لگانے کے لیے ایک ایس آئی ٹی بھی تشکیل کی ہے۔ دراصل گزشتہ کچھ سالوں میں سوئٹزرلینڈ دنیا بھر کے کئی ممالک کے کالے دھن کو محفوظ رکھنے کا ٹھکانہ بن گیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ کو مجبور ہو کر ہندوستان کے ساتھ اپنے ٹیکس سمجھوتے اور کئی دیگر قانون و ضابطے بدلنے پڑے ہیں۔ ساتھ ہی اسے اب ہندوستان کے ساتھ کئی طرح کی اطلاعات بھی شیئر کرنی پڑتی ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ اسی وجہ سے کئی بڑے اکاﺅنٹ ہولڈر سوئس بینکوں سے پیسہ نکال رہے ہیں۔

سوئس نیشنل بینک کے تازہ ڈاٹا کے مطابق سال 2013 میں سوئس بینکوں میں بیرون ملکی اکاﺅنٹ ہولڈروں کے پیسے میں 90 لاکھ کروڑ روپے کی کمی آئی ہے۔ ایس این بی کے سرکاری ڈاٹا میں ہندوستانیوں یا کسی دیگر ملک کے اکاﺅنٹ ہولڈروں کی رقم کا سیدھا سادھا ذکر تو نہیں ہے لیکن اس دوران ہندوستانی اکاﺅنٹ ہولڈروں کے پیسوں میں 40 فیصد یعنی 14,000 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں تک اس میں کمی درج کی جا رہی تھی۔ پی ڈبلیو سی کی تحقیق کے مطابق سوئٹزرلینڈ میں ٹیکس سے متعلق شفافیت بڑھانے کے مطالبہ کی وجہ سے ہی پیسہ باہر جا رہا ہے۔ کنسلٹنسی کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2008 سے چیلنجوں کا سامنا کر رہے سوئس بینکوں کو اب کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ وہ معیاری خدمات اور پرفارمنس سے بھی گاہکوں کو متوجہ کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیکس دینے والے گاہکوں کی تعداد ویسے بھی ان گاہکوں سے زیادہ ہوتی ہے جو ٹیکس دینے سے بچنا چاہتے ہیں۔ اگر سوئس سیاستداں دنیا بھر کے حملے برداشت کر رہے بینکنگ سیکٹر کو بچا کر یوروپی بازاروں میں بزنس شروع کرتے ہیں تو یہ ایک بہتر قدم ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *