Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

’گلوبل جہاد‘ سے ’لوجہاد‘ تک

by | Sep 13, 2014

سُپر بے مہار میڈیا کا رول
جلال الدین اسلم، نئی دہلی

ہمارے یہاں بہت پہلے سے ہی پرنٹ میڈیا میں خاصی بڑی تعداد فسطائی ذہنیت کی حامل رہی ہے جو فسطائیت کو اپنی زہر آلود سوچ کے ذریعے قومی سطح پر آب یاری کرتی رہی ہے اور اب اسی سوچ و فکر کے لوگ جدید ذرائع ابلاغ یعنی الیکٹرانک میڈیا پر بھی بڑی آن بان اور شان سے قابض ہیں۔ یہ لوگ جب چاہتے ہیں ڈھول تاشے کے ساتھ لوگوں کی توجہ اپنی سوچ و فکر کی طرف مائل کرلیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں پورے سماج میں قبرستان جیسا سناٹا بھی پیدا کردیتے ہیں۔ آج کل ’لو جہاد‘ جیسے فرسودہ موضوع کو لے کر جو واویلا ہے اس کے پیچھے جو اغراض چھپے ہوئے ہیں وہ اب کسی بھی طور سے نہاں نہیں رہ گئے ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی فسطائی تنظیم آرایس ایس اور اس کے سرسنچالک موہن بھاگوت نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے جب یہ زہریلا شوشہ چھوڑا تو اس کے پروردہ میڈیا کے لوگوں نے اسے گھر گھر پہنچادیا۔ اسی طرح کے عناصر عالمی میڈیا میں بھی شامل ہیں جو بات کا بتنگڑ بنانے میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔

اس وقت دنیا کے سپر چودھری امریکہ اور اس کے حلیف ممالک بالخصوص برطانیہ کے سامنے ایک ہی مدعا ہے اور وہ ہے اسلام اور مسلمانوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنا اور انہیں دہشت گردی جیسے ملعون پیشے سے جوڑ کر ان کا جینا دوبھر کرنا، اس لیے دنیا بھر میں ان ملکوں نے اپنے میڈیائی ڈھنڈورچیوں کے ذریعہ ’گلوبل جہاد‘ چھیڑ رکھا ہے، جو اب مختلف مسلم ملکوں میں خوں آشام جنگ کی صورت میں دیکھا جارہا ہے۔ اس ’گلوبل جہاد‘ اور ’لوجہاد‘ میں ایسا محسوس کیا جانے لگا ہے کہ ہمارے قومی میڈیا کے لوگ بھی محض چند سکوں کے عوض اپنا ضمیر بیچ رہے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیںجو اپنے سطحی اور حقیر مقاصد کے لیے پوری قوم کا امن و چین چھین لینے پر آمادہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے آقائوں کے اشاروں پر کسی بھی وقت پورے انسانی معاشرے کو جہنم زار بنادیتے ہیں اور اپنے آقائوں کے اشاروں پر ہی یہی لوگ ہنستی کھیلتی انسانی زندگیوں میں اچانک گور غریباں جیسی خاموشی بھی طاری کردیتے ہیں۔
عالمی سطح پر جب بھی کوئی سیاسی تبدیلی آتی ہے یا اتار چڑھائو جیسے حالات بنتے ہیں تو میڈیائی بھونپو بھی متاثر ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے دوران اسے جس طرح مرچ مسالہ کے ساتھ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع حاصل رہا، جنگ بندی کے بعد اسے بڑی مایوسی رہی بلکہ کیفیت کچھ ایسی ہوگئی کہ ’مرغان خوش الحان ہوگئے چپ، آہو نے اچھلنا چھوڑدیا۔‘ یعنی ہمارے ان زرخرید تجزیہ اور تبصرہ نگاروں کو کوئی تازہ تازہ، گرم گرم چٹپٹا، لذیذ اور ترترا موضوع جب نہیں مل پا رہا تھا تو ان کے آقائوں نے ’لوجہاد‘ کی دل پسند خوراک پہنچادی جس نے کسی حد تک تو چٹخارہ دیا لیکن پوری طرح آسودگی نہیں۔ اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ کب اور کہاں کون سا دسترخوان بچھ جائے اور ہمارے میڈیائی لوگ بھوکے بھیڑیوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑیں۔
اسی طرح فلسطین، عراق اور افغانستان وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں انسانیت دشمنوں کے لیے ناشتہ، پانی اور ڈنر کا ہمہ وقت انتظام ہے۔ مزید تلذذ دہن کے لیے بہت سارے مسلم ممالک اور بھی ہیں جہاں لذیذ کھانوں کے لیے دسترخوان بچھنے ابھی باقی ہیں اور حق نمک ادا کرنے کے لیے یہ جھوٹ کے سوداگر بے تاب و بے قرار ہیں تاہم یہ بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ گورکن کے بال بچے بھوک سے بے تاب ہیں، کوئی مرجائے تو یہ بھی جی جائیں اے خدا!
قارئین کرام کو یقینا یاد ہوگا کہ برطانیہ کے گورڈن برائون نے اپنے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوتے ہی دہشت گردی کے تعلق سے یہ تجویز پیش کی تھی کہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ایک ایسا نیٹ ورک قائم کیا جائے جس میں عالمی سطح پر معلومات کے تبادلہ کا نظم ہو یعنی کال کانفرنسنگ سسٹم ہو۔ اس طرح دنیا کا ہر ملک دہشت گردی سے متعلق ایک دوسرے کو معلومات بہم پہنچا سکے اور اس تعلق سے ایک دوسرے کا تعاون کرسکے۔ انہوں نے اپنی بات ایک ٹی وی چینل پر بہت ہی صراحت سے پیش کی اور کہا کہ اگر کسی ملک میں وہاں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعہ معلوم ہو کہ اس ملک میں ایک یا ایک سے زیادہ دہشت گرد گروپ کام کر رہے ہیں اور وہ وہاں کے لوگوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں تو اس معلومات کو وہیں تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اس سے دوسرے ملکوں کو آگاہ کرنا چاہئے تاکہ اس سسٹم سے نہ صرف دہشت گرد عناصر بچ نہیں پائیں گے بلکہ ساری دنیا پر اس بہانے ہمارا حکمرانی کا خواب بھی پورا ہوجائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں کے دوران دہشت گردانہ سرگرمیوں کے بارے میں جس طرح کی خبریں عراق کے تازہ حالات وواقعات پر مبنی سنی اور پڑھی جارہی ہیں ان سب کا تعلق عالمی میڈیا کے اختراع سے ہی ہے جس کے بارے میں سطور بالا میں واضح کیا گیا ہے اور جو آج کل ہمارے ذرائع ابلاغ کا خصوصی موضوع بنا ہوا ہے۔ دہشت گردی، جس کا محور صرف مسلمان ہوں، تو کیا کہنا۔ میڈیا چاہے عالمی ہو یا قومی، یہ تو سب کے لیے ہی دل پسند او رمحبوب مشغلہ ہے۔ کسی بھی داڑھی، پگڑی، کرتا پائجامہ پہننے والے مسلمان کو اپنا شکار بناسکتا ہے اور یہی ان کے آقائوں کی دلی چاہت بھی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ برطانوی وزیر اعظم کی عالمی تجویز کے فوراً بعد ہی خود برطانیہ میں دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے، یہ واقعات خود ایک ایسی کیفیت کی غماز تھے جس کی صراحت کی ضرورت ہی نہیں۔
مغربی ملکوں کے علاوہ خود ہمارے ایک پُر امن اور گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار ملک میں اس وقت جو فضا تیار کی جارہی ہے اسے بھی عالمی دہشت گردی نیٹ ورک کا ہی ایک جز قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس وقت پورے ملک میں جس طرح کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کا سیلاب اُمڈ آیا ہے، اس کے پس پشت کون سے عناصر ہیں، اب ’لوجہاد‘ اور ’گلوبل جہاد‘ سے ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے۔
یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن یہود و نصاریٰ ہیں جو نت نئی سازشیں ان کے خلاف کرتے رہتے ہیں اور اب ان کے پارٹنر ہمارے ملک میں بھی کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پورے ملک کا امن و چین چھین لینے پر آمادہ ہیں۔ حیرت تو ہمیں اپنے میڈیا پر ہے جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر مغربی میڈیا کے سُر میں سُر ملانے پر آمادۂ پیکار ہے۔ ملک کے قومی پریس کے اخبارات اور مختلف ٹی وی چینلز واقعات کو توڑ مروڑ کر آج جس طرح پیش کر رہے ہیں ان سے خود ان کی صحافتی ساکھ خراب ہو رہی ہے، اس سارے معاملے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی خاطر مملکت کا ہمارا یہ چوتھا ستون، تحقیقاتی صحافت جو کہ دراصل زرد صحافت کا سہارا لے کر نہ صرف اپنی جڑوں کو ہی نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ قوم و ملک کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا رہا ہے۔
ہمارے میڈیا کو چاہئے کہ وہ تمام مسلمانوں پر الزام تھوپنے کے بجائے اس بات پر غور کرے کہ دہشت گردی کے واقعات آخر کیوں ہوتے رہتے ہیں او راس کے پیچھے کون سے عوامل ہیں؟ میڈیا کا کام تو یہ تھا کہ ان نادیدہ ہاتھوں کو پکڑ کر قوم و ملک کے سامنے لاتا اور انہیں ان کے کیے کی سزا دلاتا۔ لیکن افسوس کہ ہمارا میڈیا ایسا نہ کرکے عالمی چودھریوں کے عزائم یعنی پوری دنیا پر چودھراہٹ کے خواب کو ہی عملاً پورا کر رہا ہے اور ان کے ’گلوبلائزیشن جہاد‘ میں اپنے ’لوجہاد‘ کے ساتھ پورے تام جھام سے شریک ہوکر عالم انسانیت کو جو پیغام دے رہا ہے وہ یقینا نہ صرف افسوس ناک ہی ہے بلکہ شرمناک بھی ہے۔ ٭٭٭

موبائل نمبر: 09868360472

 

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

جی ہاں ! انجینئرعمر فراہی فکر مند شاعر و صحافی ہیں

دانش ریاض ،معیشت،ممبئی روزنامہ اردو ٹائمز نے جن لوگوں سے، ممبئی آنے سے قبل، واقفیت کرائی ان میں ایک نام عمر فراہی کا بھی ہے۔ جمعہ کے خاص شمارے میں عمر فراہی موجود ہوتے اور لوگ باگ بڑی دلچسپی سے ان کا مضمون پڑھتے۔ فراہی کا لاحقہ مجھ جیسے مبتدی کو اس لئے متاثر کرتا کہ...

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

سن لو! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دو ست

دانش ریاض،معیشت،ممبئی غالبؔ کے ندیم تو بہت تھےجن سے وہ بھانت بھانت کی فرمائشیں کیا کرتے تھے اوراپنی ندامت چھپائے بغیر باغ باغ جاکرآموں کے درختوں پر اپنا نام ڈھونڈاکرتےتھے ، حد تو یہ تھی کہ ٹوکری بھر گھر بھی منگوالیاکرتےتھے لیکن عبد اللہ کے ’’ندیم ‘‘ مخصوص ہیں چونکہ ان...