
مہاراشٹر کے مسلم ووٹر کشمکش کا شکار،البتہ مسلم نوجوان ایم آئی ایم کے حق میں
ممبئی : ریاست مہاراشٹر میں انتخابی ریلیاں،جلسے جلوس ،نکڑ سبھائیں،سوسائٹیز میٹنگ کا سلسلہ جاری ہے ۔ہر پارٹی ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہی ہے ۔تمام پارٹیوں کے علحدہ انتخابات لڑنے کی وجہ سے اسمبلی انتخابات اب کارپوریشن انتخابات کی طرح لگ رہے ہیں۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انتخاب میں مسلمان کشمکش کا شکار ہیں۔انہیں یہ سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کسے اپنا ووٹ دیں۔
حیدر آباد میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین پہلی مرتبہ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں شریک ہوئی ہے۔مجلس کے کل ۲۶ امیدوار میدان میں ہیں ۔ممبئی و تھانے میں صرف ۱۲ امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔لہذا مسلمانوں کا رجحان مجلس کی طرف بھی ہے۔کانگریس،این سی پی کے ساتھ اب بی جے پی ،شیو سینا اور ایم این ایس بھی مسلمانوں کو رجھانے میں لگی ہوئی ہے اور ان تمام پارٹیوں کے بڑے بڑے اشتہارات اب اردو میں بھی شائع ہو رہے ہیں۔
ماضی میں مسلم ووٹروں کی بڑی تعداد این سی پی اور کانگریس کے حق میں ووٹ کرتی رہی ہے۔لیکن اس بار مسلم ووٹرس ان دونوں پارٹیوں سے ناراض ہیں ۔مسلم ووٹروں کا کہنا ہے کہ ان پارٹیوں نے کبھی مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔گذشتہ دس برسوں میں انہوں نے وعدے تو بہت کئے لیکن کام کچھ بھی نہیں کیا۔لیکن اس کے باوجود کچھ ووٹرس فرقہ پرست طاقتوں کے اقتدار میں آجانے کے خوف سے انہیں ہی ووٹ کا حقدار سمجھتے ہیں ۔
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ نوجوان مسلم ووٹر مجلس اتحاد المسلمین کے حق میں اپنی حق رائے دہی کا استعمال کرنا چاہتا ہے۔نوجوان مسلم ووٹروں کا کہنا ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین ان کے دلوں کی بات کہتی ہے اور مجلس کے لیڈران فرقہ پرست طاقتوں کا بہتر طور پر جواب دے سکتے ہیں۔نوجوان ووٹرس جہاں اکبر الدین اویسی کی تقریروں سے متاثر ہے وہیں وہ اسد الدین اویسی کو بھی پسند کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں بھائیوں نے جس طرح فرقہ پرستوں کا جواب دیا ہے اس کی نظیر ماضی قریب میں کہیں اور نظر نہیں آتی۔