ڈاکٹر سید ظفر محمود
افلاطون ایک دفعہ پھر صحیح ثابت ہو گیا‘ اس نے کہا تھا کہ سیاست کہتے ہیں اس فن کو جس سے حکمرانی حاصل کی جائے اور ملی ہوی حکمرانی کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ میڈیا کے مطابق مرکزی وزیر برائے سماجی انصاف تھور چند گہلوت نے کہا ہے کہ شڈیولڈ کاسٹ کی فہرست میں اگر ہندو‘ سکھ و بودھ کے علاوہ مذاہب کو اندراج کی اجازت دی جائے گی تو لوگ مذہب تبدیل کرنا شروع کر دیں گے۔ اسی شرمناک صورت حال کے لئے علامہ اقبال انسنیت کو آگاہ کرگئے ہیںکہ: جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔وزیر موصوف نے ایسا اس ضمن میں کہاکہ عرصہ دراز سے مسلمان و عیسائی اور ان کے بہی خواہ کوشاں ہیں کہ 1950 کے صدارتی حکم نامہ میںسے پیرا 3 حذف کر کے شڈیولڈ کاسڈ کی تعریف میں سے مذہب کی قید ہٹا دی جائے ۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ میںاُن10 رٹ پٹیشنوں میں مسلمانوں و عیسائیوں کی مخالفت کرے گی جن کی سماعت تقریباً 5 برس سے زیر التوا ہے اور جن میں یو پی اے حکومت اپنا جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے عمل کو منفی طول دیتی رہی ہے۔ حالانکہ قومی شڈیولڈ کاسٹ کمیشن نے منظوری دے دی ہے کہ دیگر مذاہب کے دلتوں کو بھی شڈیولڈ کاسٹ کی فہرست میں شامل کر لیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ شڈیولڈ کاسٹ کا موجودہ کوٹا نسبتاً بڑھا دیا جائے۔
مذہبی و لسانی اقلیتوں کے قومی کمیشن ‘جسے بعد میں عام طور پر جسٹس مشرا کمیشن کہا جانے لگا ‘نے2007 میں اپنی رپورٹ میں یہ زور دار سفارش کی ہے: ’’شڈیولڈ کاسٹ آئینی آرڈر 1950 کے پیرا 3 نے ابتدا میں شڈیولڈ کاسٹ کے عطیہ کو ہندئوں تک محدود رکھا تھا اور بعد میں اسے سکھوں اور بودھوں کے لئے کھول دیا اور اس طرح اس کے استفادہ سے مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ پارسیوں اور جین مذہب کے ماننے والوں کو پھر بھی محروم رکھا ۔لہٰذا اس آرڈر کے پیرا 3کو مکمل طور پر حذف کر کے شڈیولڈ کاسٹ کے گریڈکو مذہب سے منقطع کر دیا جائے اور اس کے فائدے کو مذہبی زاویہ سے غیر جانب دار بنا دیا جائے‘‘۔ یہ سفارش کرنے سے پہلے کمیشن نے اس معاملہ کی تاریخی و آئینی چھان بین کی۔ اس نے یہ نوٹ کیا کہ 1927 میں مدراس پریزیڈنسی (Madras Presidency)نے ہر12 سرکاری عہدوں میں سے 5 کو غیر برہمن ہندئوں‘ 2 کوبرہمنوں ‘ 2کو عیسائیوں‘ 2کو مسلمانوں‘ اور1 کو دیگر کے لئے رزرو کر دیا تھا۔بمبئی پریزڈنسی (Bombay Presidency)میں سب کے لئے سیٹیں رزرو تھیں بجز برہمن‘ مارواڑی‘ بنیا‘ پارسی اور عیسائی کے۔بڑودا‘ کولہاپور‘ ٹریونکور وغیرہ نے بھی انھیں دو ماڈلوں کے طرز پر قوانین بنائے تھے۔
جسٹس مشرا کمیشن نے یہ بھی زیر غور رکھا کہ آئین ہند کے دفع 14‘ 15 و 16 میں متواتر حق مساوات (Right to equality)‘ مذہب کی بنیاد پرتعصب کی ممانعت(Prohibition of discrimination based on religion) اور سرکاری ملازمت کے لئے مساوی مواقع (Equal opportunity in public employment)عطا کئے گئے ہیں۔ پھر بھی شہریوں کے پچھڑے ’کلاسز‘ (Backward classes of citizens)کے لئے رزرویشن کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے۔ دفعہ 46 میں حکومت کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ وہ خصوصی نگرانی کے ساتھ’سماج کے کمزور طبقوں‘ (Weaker sections of society)کے تعلیمی و معاشی مفادات کی ناانصافی و استحصال سے حفاظت کرے۔ ان دفعات کے مطابق سرکاری ملازمتوں و تعلیمی اداروں میں داخلہ میں کیرالہ میںمسلمانوںکو 10% اور عیسائیوں کو 2% اور کرناٹک میں مسلمانوں کو4% رزرویشن ملا ہوا ہے۔ مہاراجا جیواجی رائو سندھیا بہادر مادھو رائو بنام حکومت ہند (1971) میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ 1950 کے حکم نامہ کا پیرا 3ایک لعنت(Anathema) ہے جس نے بھارت کے تحریری آئین کی خوبصورتی کو مسمار کر دیا ہے۔ کیشو آنند بھارتی کے مشہور کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ صدر جمہوریہ کو پیرا 3 شامل کرنے کا اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ دفع15(2)‘ 16(2) و29(2) کی خلاف ورزی کرتا ہے اور وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے پر بھی ضرب لگاتا ہے۔ دفع341 کے تحت بھی صدر کو اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی شہری کی اس کا پسندیدہ مذہب اختیار کرنے کے لئے ہمت شکنی کریں۔لیکن پیرا 3 کے ذریعہ صدر عوام الناس کو خصوصاً شڈیولڈ کاسٹ کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ تین تقویت یافتہ (Favoured) مذاہب کی ترمورتی(ہندو‘ سکھ ‘ بودھ) کے علاوہ اور کوئی مذہب اختیار نہ کریں۔ دفع341 کے تحت صدر کوذات کی شناخت کرنے کا اختیار دیا گیا ہے نہ کہ مذہب کی شناخت کرنے کا۔لہٰذا 1950 کا آرڈر’’ صدارتی حکم نامے کے بھیس میں بیجا طرفداری پر مبنی قانون ہے‘‘۔
یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ آئین کے دفع 25 کے ذیل میں درج تشریح (Explanation)کا استعمال سکھ‘ جین‘ بودھ اور ہندو کو ایک منفرد گروپ یا کلاس ماننے کے لئے نہیں کیا جا سکتا ہے ]بجز25(2) کے تحت ذاتی مذہبی قوانین کی مناسبت کے[ ۔لہٰذا 1950 کے آرڈر نے دفع 25 کی ذیلی تشریح کا غلط مطلب نکالا ہے۔ ساتھ ہی اندرا ساہنی بنام مرکزی حکومت میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے 1950 کے آرڈر کے پیرا 3 کو کالعدم (Null and void)قرار دے کر منسوخ کر دینا چاہئے کیونکہ عدالت عالیہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ ذات کا تعلق کسی مذہب خاص سے نہیں ہے بلکہ بھارت کے سماج میں اُس کا پھیلائو تمام مذاہب کو اپنے دائرے میں لئے ہوے ہے۔ 1950 کے آرڈر کے ذریعہ مسلمانوں کو رزرو ڈسیٹوں سے محروم کر دیا گیا ہے۔ لیکن او بی سی کے زمرہ (OBC Category)میں وہی مسلمان شامل ہیں۔اس تضاد کی بنیاد پر مشرا کمیشن نے کہا کہ 1950 کا آرڈر نچلے طبقے کے مسلمانوں(نائی‘ چمار‘دھوبی‘مہتر وغیرہ) کے خلاف بد اندیش تعصب(Hostile discrimination) کرتا ہے۔ علاوہ ازیں‘ اسلام اور عیسائیت کے طرز پر سکھ اور بودھ مذہب بھی ذات کو نہیں مانتے ہیں ۔ لیکن صدر نے سکھ اور بودھ مذاہب کی طرفداری کی اور اسلام اور عیسائیت کے خلاف تعصب کیا‘ یہ صریحاً خلاف منطق‘ نا معقول اور غیر منصفانہ رویہ ہے۔
لہٰذا جسٹس مشرا کمیشن نے سفارش کی کہ 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں سے پیرا 3 کو حذف کر دیا جائے۔ اس نے یہ بھی سفارش کی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں اُن تمام گروپوں اور کلاسوں کو جن کے ہم منصب ہندو‘ سکھ و بودھ مرکزی و صوبائی شڈیولڈ کاسٹ فہرست میں شامل ہیں‘ انھیں بھی شڈیولڈ کاسٹ کے زمرہ میں شامل کیا جائے۔جسٹس سچر کمیٹی نے بھی کہا ہے کہ مسلمانوں کو ’ذات ‘ کا استعمال رزرویشن لینے کے لئے کرنا چاہئے۔ اس نے سکھوں اور بودھ مذہب کے لوگوں کو شڈیولڈ کاسٹ کوٹا دئے جانے پر سوال اُٹھائے جبکہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اس سے خارج رکھا گیا ہے۔ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی دونوں کی رپورٹیں اب سے7 برس قبل 2007 میں پیش ہوی تھیںلیکن اس طویل عرصہ میںبھی عدلیہ میں یا اس کے باہران رپورٹوں کی کوئی معقول یا قابل برداشت مخالفت نہیں ہوی ۔
اِس قدر مضبوط کیس ہے 1950 کے صدارتی حکم نامہ میں سے پیرا 3 کو حذف کرنے کا۔اس کے ساتھ جوڑ کر غور کریں وزیر اعظم نریندر مودی کے پارلیمنٹ میں بیان کوجس میں انھوں نے باقی سب کے مقابلہ میںمسلمانوں کی زبوں حالی کو بہ آواز بلند تسلیم کیا ‘ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی حالت کو سدھارنے کے لئے خصوصی اسکیمیں چلنی ہی چاہئیں جنھیں وہ مسلمانوں کی ناز برداری نہیں سمجھتے بلکہ انھیں وہ قومی سماجی ضرورت کے طور پر مانتے ہیں۔ لہٰذا وزیر برائے سماجی انصاف تھور چند گہلوت کو چاہئے کہ وہ اس سنجیدہ معاملے پر نظر ثانی کریں اور اس سے متعلق اپنا موقف تبدیل کریں تاکہ وہ ان کے لیڈر کی آواز کی مناسبت سے بے سرا نہ لگے اور وہ قومی ہوشمندجذبہ (Saner national sentiment)کے ساتھ قافیہ بند رہ سکیں ۔ انھیں چاہئے کہ وہ اس تبدیل شدہ موقف کے مطابق ہی سپریم کورٹ میںاپنی وزارت کا جواب حلفی داخل کریں ۔امید ہے کہ وزیر اعظم بھی انھیں مناسب ہدایت دے کر اپنی مخصوص قیادت کے شایان شان ثابت کریں گے کہ وہ125کروڑ بھارت واسیوں میں سے سب کے لئے برابر سے متفکر ہیں۔ ہم مسلمانوں کو اس معاملہ میں عیسائیوں و دیگر کشادہ ذہن اہل وطن کے ساتھ مل کر لائحہ عمل طے کرنا ہو گا۔ تعصب کے شکار فرقوں کی بازیابی کے لئے جو اشخاص اس نیک کام میں لگے ہیں وہ سب قابل تحسین و مبارکباد ہیں ۔ اگر وہ وقتاً فوقتاً ساتھ بیٹھ کر آپس میں تبادلہ خیال کرتے رہیں گے تو اس اشو کو یقینازیادہ تقویت ملے گی۔