Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

جزیرہ نمائے عرب میں مینجمنٹ

by | Dec 28, 2014

عبدالمنعم فائز
امینجمنٹ کا مفہوم
قرآن مجید کی کسی سورۃ میں مینجمنٹ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ قرآن مجید میں ’’تدور‘‘ کا لفظ اس آیت کریمہ میں استعمال ہوا ہے: الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونہا (البقرۃ: 282)یہی لفظ ایک اور آیت کریمہ میں بھی استعمال ہوا ہے: ینظرون الیک تدور اعینہم (احزاب: 19) المعجم المفہرس میں اسی مادہ سے متعدد الفاظ آئے ہیں۔ مینجمنٹ کا لفظ کسی بھی حدیث میں نہیں آیا۔ بہر حال ایک بات واضح ہے کہ مینجمنٹ کی متعدد شاخیں ہیں، جن میں بزنس مینجمنٹ، عسکری مینجمنٹ، شہری مینجمنٹ اور عدالتی مینجمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
اسلام سے پہلے عربوں کی مینجمنٹ
جزیرہ نمائے عرب کے تمام لوگ دو طرح زندگی گزارتے تھے: شہری اور دیہاتی شہری لوگوں سے مراد وہ افراد تھے جو گائوں یا شہر میں رہتے، تجارت یا ذراعت پیشہ ہوتے اور بکریاں پالتے تھے۔ دیہاتی لوگوں سے مراد وہ افراد جو صحرائوں میں رہتے، جانوروں کا گوشت اور دودھ ان کے گزر بسر کا ذریعہ ہوتا۔ دیہاتی لوگوں کے معاشرتی نظام کی بنیاد اپنے اپنے قبیلہ پر ہوتی۔ سیاسی تفریق کی بنیاد بھی قبیلہ ہی پر ہوتی۔ ہر شخص اپنے اپنے قبیلے کی حدود میں ہی سیاسی، ادارہ جاتی اور اقتصادی سرگرمیاں سرانجام دیتا۔ قبائلی رسوم و رواج اور حد بندیوں کے باوجود اس دور میں ہمیں کہیں بھی منظم مینجمنٹ نظر نہیں آتی۔ ہر قبیلہ کا سردار ’’شیخ‘‘ کہلاتا۔ شیخ کا بااخلاق، باکردار اور زبردست قائد ہونا ضروری تھا۔
مکہ مکرمہ میں مینجمنٹ
مکہ مکرمہ کی مینجمنٹ دو شخصیتوں کے پاس تھی: قصی بن کلاب اور ہاشم بن عبدمناف۔ قصی نے اس علاقے کا انتظام سنبھالا اور شہری مینجمنٹ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے قریش کے تمام قبائل کو جمع کیا۔ اس دور میں کوئی بھی شخص مکہ مکرمہ کے احترام کی وجہ سے وہاں مکان تعمیر نہیں کرتا تھا۔ تمام لوگ پہاڑوں اور گھاٹیوں میں رہائش گاہیں بناتے تھے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں دن کے وقت داخل ہونے کو بھی بے ادبی تصور کرتے، اس لیے رات کے وقت وہاں آتے۔ قصی نے اسی طرح ایک رات کو اپنی قوم جمع کی اور انہیں مکہ مکرمہ میں گھر بنانے کی اجازت دی۔ اس طرح پہلی بار قریش کے مختلف خاندان مکہ میں آکر آباد ہوئے۔ قصی نے پہلی بار فیصلہ سازی اور مشوروں کے لیے مرکزی دفتر بنایا۔ دیوانی اور فوجداری تمام مقدمات یہاں سنے جاتے اور ان پر باہمی مشاورت کی جاتی۔ اس جگہ کو ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ قریش کے تجارتی قافلے روانگی سے قبل یہاں پہنچتے۔ واپس لوٹنے والے تاجر بھی یہیں پہلا پڑائو ڈالتے۔ قصی کے قائم کردہ اس ہیڈ کوارٹر کو گویا ایوان بالا کی حیثیت حاصل تھی۔ اس میں خاندانوں اور قبیلوں کے سردار ہی داخل ہوسکتے تھے۔ عام لوگوںکی مجلس کعبہ کے قریب منعقد ہوتی، اس کو ’’مجلس عام‘‘ کہا جاتا تھا۔مکہ مکرمہ کے رہائشی افراد کا سب سے پہلا فرض مہمانوں کو کھانا کھلانا ہوتا۔ اس کے ساتھ زائرین حرم کے لیے سہولیات پیدا کرنا اور آنے والے افراد کو ٹھہرانا۔ اس لیے ایسے افراد ہی اس ذمہ داری کو سرانجام دیتے جو مال دار ہوتے اور عمدہ انتظامی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ اس بڑی ذمہ داری کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا انتخاب کیا گیا۔ سب سے پہلے مطلب بن ہاشم اس کے ذمہ دارتھے۔ پر عبدالمطلب نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور پوری قوم ان کی انتظامی صلاحیتوں کی معترف تھی۔ ان کے بعد حضرت عباس بن عبدالمطلب اس عہدے پر فائز ہوئے۔
پانی نکالنے اور زائرین کو پلانے کا مسئلہ سب سے اہمیت رکھتا تھا۔ اسی دور میں پانی نکالنے کے لیے کنواں کھودا گیا۔ جب حج کے دن قریب آتے تو زائرین کو پانی پلانے کے لیے باقاعدہ کمیٹیاں تشکیل دی جاتی تھیں۔ کعبہ کے قریب پانی کے مٹکے رکھے جاتے۔ ایک جماعت دور دراز کے کنووں سے پانی نکال نکال کر لاتی اور ان مٹکوں کو بھرتی رہتی۔ پانی کو میٹھا کرنے کے لیے اس میں کھجور اور کشمش ملانے کا رواج بھی عام تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب حاجیوں کو پانی پلانے میں بے حد اہتمام کرتے۔ ان کا حکم تھا کہ حاجیوں کو دودھ میں شہد ملا کر پیش کیا جائے۔ اس کا رواج اتنا عام ہو اکہ مکہ مکرمہ کے مال دار لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے۔ سوید ہرمی نے سب سے پہلے حاجیوں کو دودھ پیش کیا، اس کے بعد سے تو سب بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔
مینجمنٹ کے حوالے سے اس دور میں بے شمار ادارے نظر آتے ہیں۔ صرف حج کے دنوں میں جو ادارے کام سرانجام دینے ان کی تعداد ہی اتنی زیادہ ہے کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ چند ایک اہم شعبے یہ تھے:
حاجیوں کو کھانا کھلانا
حاجیوں کو پانی پلانا
دودھ اور شہد فراہم کرنا
بیت اللہ کی خدمت کرنا
مزدلفہ سے آنے والوں کی آئو بھگت کرنا
عرفہ اور منی میں خدمت کرنا
مہینوں کو آگے پیچھے کرنا بھی ایک مستقل ڈیوٹی تھی

Recent Posts

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

نیپال مسلم یونیورسٹی کا قیام: وقت کی اہم اجتماعی ضرورت

ڈاکٹر سلیم انصاری ،جھاپا، نیپال نیپال میں مسلم یونیورسٹی کے قیام کی بات برسوں سے ہمارے علمی، ملی، تنظیمی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث ہے۔ اگرچہ اس خواب کو حقیقت بنانے کی متعدد کوششیں کی گئیں، مگر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ...

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

غزہ کے بچے: اسرائیلی جارحیت کے سائے میں انسانی المیہ

ڈاکٹر سید خورشید، باندرہ، ممبئیغزہ کی پٹی میں جاری تنازع نے اس خطے کی سب سے کمزور آبادی بچوںپر ناقابل تصور تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم عمل حماس کوزیر کرنے کے بیانیہ کے ساتھ اسرائیلی فوجی کارروائی نے ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے، جسے عالمی تنظیموں،...

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک)ہندوستانی مسلمانوں کا تعلیمی منظرنامہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی موضوع ہے جو تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہے۔ ہندوستان میں مسلم آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے، جو کل آبادی کا تقریباً 14-15 فیصد ہے۔ یہ کمیونٹی دنیا کی سب سے بڑی...