
جزیرہ نمائے عرب میں مینجمنٹ
عبدالمنعم فائز
امینجمنٹ کا مفہوم
قرآن مجید کی کسی سورۃ میں مینجمنٹ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا۔ قرآن مجید میں ’’تدور‘‘ کا لفظ اس آیت کریمہ میں استعمال ہوا ہے: الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیرونہا (البقرۃ: 282)یہی لفظ ایک اور آیت کریمہ میں بھی استعمال ہوا ہے: ینظرون الیک تدور اعینہم (احزاب: 19) المعجم المفہرس میں اسی مادہ سے متعدد الفاظ آئے ہیں۔ مینجمنٹ کا لفظ کسی بھی حدیث میں نہیں آیا۔ بہر حال ایک بات واضح ہے کہ مینجمنٹ کی متعدد شاخیں ہیں، جن میں بزنس مینجمنٹ، عسکری مینجمنٹ، شہری مینجمنٹ اور عدالتی مینجمنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
اسلام سے پہلے عربوں کی مینجمنٹ
جزیرہ نمائے عرب کے تمام لوگ دو طرح زندگی گزارتے تھے: شہری اور دیہاتی شہری لوگوں سے مراد وہ افراد تھے جو گائوں یا شہر میں رہتے، تجارت یا ذراعت پیشہ ہوتے اور بکریاں پالتے تھے۔ دیہاتی لوگوں سے مراد وہ افراد جو صحرائوں میں رہتے، جانوروں کا گوشت اور دودھ ان کے گزر بسر کا ذریعہ ہوتا۔ دیہاتی لوگوں کے معاشرتی نظام کی بنیاد اپنے اپنے قبیلہ پر ہوتی۔ سیاسی تفریق کی بنیاد بھی قبیلہ ہی پر ہوتی۔ ہر شخص اپنے اپنے قبیلے کی حدود میں ہی سیاسی، ادارہ جاتی اور اقتصادی سرگرمیاں سرانجام دیتا۔ قبائلی رسوم و رواج اور حد بندیوں کے باوجود اس دور میں ہمیں کہیں بھی منظم مینجمنٹ نظر نہیں آتی۔ ہر قبیلہ کا سردار ’’شیخ‘‘ کہلاتا۔ شیخ کا بااخلاق، باکردار اور زبردست قائد ہونا ضروری تھا۔
مکہ مکرمہ میں مینجمنٹ
مکہ مکرمہ کی مینجمنٹ دو شخصیتوں کے پاس تھی: قصی بن کلاب اور ہاشم بن عبدمناف۔ قصی نے اس علاقے کا انتظام سنبھالا اور شہری مینجمنٹ کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے قریش کے تمام قبائل کو جمع کیا۔ اس دور میں کوئی بھی شخص مکہ مکرمہ کے احترام کی وجہ سے وہاں مکان تعمیر نہیں کرتا تھا۔ تمام لوگ پہاڑوں اور گھاٹیوں میں رہائش گاہیں بناتے تھے۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں دن کے وقت داخل ہونے کو بھی بے ادبی تصور کرتے، اس لیے رات کے وقت وہاں آتے۔ قصی نے اسی طرح ایک رات کو اپنی قوم جمع کی اور انہیں مکہ مکرمہ میں گھر بنانے کی اجازت دی۔ اس طرح پہلی بار قریش کے مختلف خاندان مکہ میں آکر آباد ہوئے۔ قصی نے پہلی بار فیصلہ سازی اور مشوروں کے لیے مرکزی دفتر بنایا۔ دیوانی اور فوجداری تمام مقدمات یہاں سنے جاتے اور ان پر باہمی مشاورت کی جاتی۔ اس جگہ کو ہیڈ کوارٹر کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ قریش کے تجارتی قافلے روانگی سے قبل یہاں پہنچتے۔ واپس لوٹنے والے تاجر بھی یہیں پہلا پڑائو ڈالتے۔ قصی کے قائم کردہ اس ہیڈ کوارٹر کو گویا ایوان بالا کی حیثیت حاصل تھی۔ اس میں خاندانوں اور قبیلوں کے سردار ہی داخل ہوسکتے تھے۔ عام لوگوںکی مجلس کعبہ کے قریب منعقد ہوتی، اس کو ’’مجلس عام‘‘ کہا جاتا تھا۔مکہ مکرمہ کے رہائشی افراد کا سب سے پہلا فرض مہمانوں کو کھانا کھلانا ہوتا۔ اس کے ساتھ زائرین حرم کے لیے سہولیات پیدا کرنا اور آنے والے افراد کو ٹھہرانا۔ اس لیے ایسے افراد ہی اس ذمہ داری کو سرانجام دیتے جو مال دار ہوتے اور عمدہ انتظامی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اللہ کی قدرت دیکھیے کہ اس بڑی ذمہ داری کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا انتخاب کیا گیا۔ سب سے پہلے مطلب بن ہاشم اس کے ذمہ دارتھے۔ پر عبدالمطلب نے اس ذمہ داری کو نبھایا اور پوری قوم ان کی انتظامی صلاحیتوں کی معترف تھی۔ ان کے بعد حضرت عباس بن عبدالمطلب اس عہدے پر فائز ہوئے۔
پانی نکالنے اور زائرین کو پلانے کا مسئلہ سب سے اہمیت رکھتا تھا۔ اسی دور میں پانی نکالنے کے لیے کنواں کھودا گیا۔ جب حج کے دن قریب آتے تو زائرین کو پانی پلانے کے لیے باقاعدہ کمیٹیاں تشکیل دی جاتی تھیں۔ کعبہ کے قریب پانی کے مٹکے رکھے جاتے۔ ایک جماعت دور دراز کے کنووں سے پانی نکال نکال کر لاتی اور ان مٹکوں کو بھرتی رہتی۔ پانی کو میٹھا کرنے کے لیے اس میں کھجور اور کشمش ملانے کا رواج بھی عام تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب حاجیوں کو پانی پلانے میں بے حد اہتمام کرتے۔ ان کا حکم تھا کہ حاجیوں کو دودھ میں شہد ملا کر پیش کیا جائے۔ اس کا رواج اتنا عام ہو اکہ مکہ مکرمہ کے مال دار لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے۔ سوید ہرمی نے سب سے پہلے حاجیوں کو دودھ پیش کیا، اس کے بعد سے تو سب بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے۔
مینجمنٹ کے حوالے سے اس دور میں بے شمار ادارے نظر آتے ہیں۔ صرف حج کے دنوں میں جو ادارے کام سرانجام دینے ان کی تعداد ہی اتنی زیادہ ہے کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ چند ایک اہم شعبے یہ تھے:
حاجیوں کو کھانا کھلانا
حاجیوں کو پانی پلانا
دودھ اور شہد فراہم کرنا
بیت اللہ کی خدمت کرنا
مزدلفہ سے آنے والوں کی آئو بھگت کرنا
عرفہ اور منی میں خدمت کرنا
مہینوں کو آگے پیچھے کرنا بھی ایک مستقل ڈیوٹی تھی