پاکستان کی 40 امیرترین تجارتی فیملیاں

ترجمانی :دانش ریاض
(پاکستان کے نام نہاد شدت پسند بھلے ہی ہندوستان کے خلاف معاندانہ چالیں چلتے نہیں تھکتے لیکن وہاں کی تاجر برادری آج بھی ہندوستان سے تجارتی تعلقات استوار کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ممبئی و دہلی میں ہونے والے ٹریڈ فیئرس اس کی بہترین مثال پیش کرتے ہیں جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی اپنا اسٹال لگاتے ہیںاور ہندوستانی عوام ان کی بھرپور پذیرائی کرتی ہےاور پاکستانی ساز و سامان کی خریداری میں پیچھے نہیں ہٹتی۔ادارہ معیشت (www.maeeshat.in)ملک و ملت کے مابین اتحاد ، محبت و خیر سگالی کا علمبردار رہا ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم وہاں کے مشہور تاجروں کی فہرست پیش کر رہے ہیں تاکہ ہندوستانی عوام بھی وہاں کے تاجروں سے آشنا ہو سکیں اور ہندوستانی ساز و سامان پاکستانی بازار کی زینت بنے۔)
1 نشاط گروپ کے میاں محمد منشا یحییٰ کامیابی کی اس کشتی کے کپتان ہیں جن کے پاس تقریباً 30 فعال کمپنیاں ہیں. منشا جو مسلم کمرشیل بینک کے مالک بھی ہیں اب ایک بلین روپئے (17ملین ڈالر) کا پیپر سیک پروجیکٹ بھی شروع کرنے جارہے ہیں. وہ امیر ترین پاکستانیوں میں سے ایک ہیں. نشاط گروپ 1970 میں ملک کی 15 ویں امیر ترین فیملی تھی. جبکہ 1990 میں چھٹی اور 1997 میں نمبر 1 امیر ترین فیملی بن گئی. منشا اس وقت تقریباً 50 کمپنیاں چلا رہے ہیں. ان کی شادی یوسف سایگول کی بیٹی چینیوتبی کلاں سے ہوئی ہے. یہ مانا جاتا ہے کہ ان کی سرمایہ کاری اندرون و بیرون پاکستان متعدد بورسیز، کرنسیوں اور دھاتی مبادلات میں ہے. زندگی میں قسمت نے ان کا کئی مواقع پر ساتھ دیا ہے جبکہ انہیں سابق صدر مشرف کی طرف سے پاکستان کا اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ بھی دیا گیا ہے. وہ یونائٹیڈ بینک بھی خرید سکتے تھے لیکن اس وقت حالات ان کے لئے سازگار نہیں تھے. نشاط گروپ کی کمپنیوں میں ٹکسٹائل، سیمنٹ، لیزنگ، بیمہ اور منیجمنٹ کی کمپنیاں شامل ہیں. اگر منشا کو 1970 میں بھٹو کی قومی کاری سے نقصان ہوا تھا تو ان کے دوستوں کا ماننا ہے کہ نواز شریف کی انسداد قومی کاری پروگرام کے ذریعہ ان کے نقصانات کی تلافی اچھی طرح ہوگئی. فی الحال منشا گروپ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اور وہ بدستور آگے کی طرف بڑھ رہا ہے.
www.nishatpak.com
2 جنگ گروپ: یہ عظیم الشان میڈیا امپائر مرحوم میر خلیل الرحمن کے ذریعہ لگ بھگ 6 دہائیوں قبل قائم کیا گیا تھا. آج تقریباً 10 بڑے اخبارات اور کئی بلین روپیوں کا جی ای او ٹی وی پروجکٹ میر خلیل کے حقیقی وارث میر شکیل الرحمن کے ذریعہ چلایا جارہا ہے، جو ریئل اسٹیٹ سے متعلق بہت سارے پروجیکٹ کے مالک بھی ہیں. چہ جائیکہ وہ بہت جدت پسند ہیں لیکن شکیل کو ملک کے وزیر اعظم سے بھی تلخی کے لئے جانا جاتا ہے. 1990 میں نواز شریف کے ساتھ ان کی ان بن سے قومی و بین الاقوامی دونوں سطح پر ان کی ناقابل یقین اثرات میں کافی اضافہ ہوا جس میں شکیل کو ایشیاء کے معروف ترین میڈیائی افراد میں شامل کرلیا تھا. ان کے اخبارات نے ملک کے اعلیٰ ترین صحافیوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیا ہے. وہ اسٹاک بزنس میں باقاعدگی سے سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں. ان کے چھوٹے بھائی میر جاوید الرحمن اور بیٹے میر ابراہیم بھی ان کے کاروبار میں معاون ہیں. ملک میں ان کے اثرات اتنے گہرے رہے ہیں کہ بعض حکومتوں نے ان کے کچھ ملازمین کو بطور وزراء منتخب کرنے کا فیصلہ بھی کیا. یہ گروپ جیسا کہ زیادہ تر سیاستدانوں کا خیال ہے، پاکستان میں حکومتوں کے جوڑ توڑ میں کئی دہائیوں سے کلیدی کردار کا حامل رہا ہے. وہ سرخیوں کا کاروبار تو کرتے ہیں لیکن خود سرخیوں میں رہنا انھیں پسند نہیں جیسے وہ اپنے باغیچے کا پھل چکھنا پسند نہیں کرتے.
www.janggroup.com.pk
3 صدرالدین ہشوانی کی قیادت میں چلنے والا ہاشو گروپ پاکستان کی ہوٹل انڈسٹری میں اپنی کلیدی شناخت کی وجہ سے جانا جاتا ہے. حالانکہ جولوگ ہشوانیوں کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے ہیں وہی ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ان کی طاقت ہیں. ہشوانی کاٹن اور اسٹیل کے کاروبارمیں شامل رہے ہیں اور 1974 میں کاٹن اکسپورٹ کی قومی کاری تک انہیں پاکستان کے کاٹن کا بادشاہ تصور کیاجاتا تھا. آج اس گروپ نے اپنا دائرہ بڑھاکر چاول، گیہوں، کپاس اور بارلی کی برآمدگی میں نام کمایا ہے. کانوں، معدنیات، ہوٹلوں، بیمہ، بیٹریوں، تمباکو، رہائشی املاک، تعمیرات، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں بلین سے زائد مالیت کی سرمایہ کاری کے علاوہ اس کے پاس اپنی ٹکسٹائل یونٹ بھی ہے. 1984میں تمباکو کی بولی میں ہشوانیوں نے لکھانیوں کو شکست دے دی لیکن ہشوانی 1986 میں اپنے بھائی اکبر کے ساتھ سگریٹ کی کسٹم ڈیوٹی نہ دینے کے الزام میں گرفتار ہوگئے. صدرالدین کے بھائی اکبر اور ایک اور مرحوم بھائی حسن علی ہشوانی کے بچے مل کر تقریباً 45 کمپنیوں کا انتظام و انصرام سنبھال رہے ہیں. اکبر دوسرا ہشوانی گروپ بھی چلاتے ہیں. وہ پاکستان کے ان معروف ترین پونجی پتیوں میں سے ایک ہیں جو ڈپلومیٹک انکلیو میں مستقل مدعو کئے جاتے ہیں. ہشوانی کے قومی و بین الاقوامی ذاتی تعلقات کی فہرست بہت طویل ہے.
www.hashoogroup.com
4 پیکیجزگروپ: اس عظیم الشان سلطنت کی بنیاد سید مراتب علی کے ذریعہ رکھی گئی تھی جو برٹش آرمی اور تقسیم سے قبل انڈین ریلویز کے لئے بطور سپلائر معروف تھے. اس گروپ نے 1947 کے فوراً بعد لیور برادرس کے ساتھ ایک مشترکہ محاذ قائم کیا لیکن پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی بہترین پروڈکشن نے بعد میں سید مراتب علی اور ان کے صاحبزادوں کو پیکجز کے نام سے ایک نئی پیکجنگ یونٹ قائم کرنے پر آمادہ کیا. مراتب علی کے دو صاحبزادے سید امجد علی اور سید بابر علی پاکستان کے وزیر مالیات رہے ہیں اور ان کی ایک پوتی اور ایک پوتے سیدہ عابدہ حسین اور سید فخر امام سیاسی قائدین میں شمار کئے جاتے ہیں جنہیں تعارف کی چنداں ضرورت نہیں. مرحوم سید امجد علی اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر رہے جبکہ سید بابر علی LUMS کے قیام کے کلیدی محرک ہیں. اس گروپ کی ایک اور کمپنی Nestle Pakistan بھی ہے جو سید یاور علی کے ذریعہ چلائی جاتی ہے. سید بابر علی نے نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن کے چیئر مین کی حیثیت سے بھی بھٹو کے دور اقتدار میں خدمت انجام دی اور ہویسٹ پاکستان، لیور برادرس اور سیمین کے چیئر مین بھی رہے. اس گروپ نے پاکستان میں کوکا کولا کے بہت سارے پلانٹ بھی اکوائر کئے ہیں. اس کے معروف ترین برانڈ میں نیسل (Nestle) ملک پیک، ٹریٹ، مشیلز اور ٹرائی پیک فلمز مشہور ہیں. ٹکسٹائل، ڈیری، ایگریکلچر اور رائس کے شعبوں میں بھی اس کے حصص ہیں.
www.packages.com.pk

5 ہاؤس آف حبیب لیجنڈ کے لئے ایسا لگتا ہے کہ دولت کی دیوی پاکستان کے کسی بھی دوسرے فرد سے کہیں زیادہ محبت اور سرشاری کے جذبات رکھتی ہے. بہت سارے کاروباری پنڈتوں کا ماننا ہے کہ حبیب کی ملکیت میں دنیا بھر کی کم سے کم 100 کمپنیاں موجود ہیں، لیکن اس قسم کے دعووں کی کوئی بنیاد نہیں ہے بلکہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ کا ہے. اس گروپ کی کثیر نوعیتی سرگرمیاں اسے لوگوں کے اندازوں سے پرے کرتی ہیں. یہ صنعتی گروپ سیٹھ حبیب مٹھا کے ذریعہ قائم کیا گیا جن کی پیدائش 1878 میں اسماعیل علی نامی ایک فیکٹری مالک کے یہاں بمبئی میں ہوئی. حبیبوں کی مالی طاقت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ محمد علی حبیب نے 1948 میں اس وقت قائد اعظم کو 80 ملین کا چیک دیا تھا جب پاکستانی حکومت ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے پاکستان کے حصے کے 750 ملین روپئے کی منتقلی میں تاخیر سے پریشان تھی. 1912 میں یورپی ممالک میں ان کے دفاتر تھے. انہوں نے حبیب بینک کو 1941 میں انکارپوریٹ کیا. ان کی ملکیت میں حبیب بینک اے جی، زوریخ، بینک الحبیب، انڈس موٹر اسیمبلنگ کورولا کار اور کئی درجن یونٹ جوٹ، پیپر سیک، معدنیات، اسٹیل، ٹائلس، مصنوعی شوگر، گلاس، کنسٹرکشن، کنکریٹ، فارم آٹوز، بینکنگ، آئل، کمپیوٹر، میوزک، پیپر، پیکجز، لیزنگ اور کیپٹل منجیمنٹ کے شعبوں میں ہیں. حبیب گروپ کی سربراہی ان دنوں رفیق حبیب اور راشد حبیب کے ذریعہ دو علیحدہ گروپوں میں کی جاتی ہے. جو چیز انہیں ہر زمانے میں انتہائی باکمال کھلاڑی بناتی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے درجنوں بڑے تاجروں کے لئے حبیب کبھی ایک افسانہ ہوا کرتا تھا.
www.hoh.net

6 سائیگولس: سائیگولس کا اصل تعلق جہلم سے ہے. مملکت سائیگولس کے سرخیل 1890 میں امین سائیگول تھے. جنہوں نے ایک جوتے کی دکان کھولی اور دھیرے دھیرے وہ کوہ نور ربڑ ورکس میں تبدیل ہوگئی. پھر زمانے نے انہیں حقیقتاً کوہ نور کی طرح چمکتے ہوئے دیکھا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلا جب تک قومی کاری کے عمل نے ان کی دولت کا دو تہائی حصہ ضائع نہ کردیا. سائیگولس 1976 میں تین حصوں میں تقسیم ہوگئے اور امین سائیگول کی 15 اولادوں نے اپنا اپنا حصہ پایا. دنیا کے اس حصے میں سائیگولوں کا نام دولت کی کثرت بتانے کے لئے بطور تشبیہ استعمال کیاجاتا ہے. یوسف سائیگول نے اپنے بھائیوں سعید سائیگول، بشیر سائیگول اور گل سائیگول کے ساتھ ایک ممتاز کھیپ تیار کی. 1948 میں سائیگولوں نے 8 ملین روپیوں کی لاگت سے کوہ نور ٹکسٹائل ملز قائم کیا اور یہ گروپ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ ایل سی کھولنے والا پہلا گروپ مانا جاتا ہے. انہوں نے 1959 میں یونائٹیڈ بینک کو خرید لیا اور پھر دیکھا گیا کہ ان کی پانچ یونیٹیں قومیا دی گئیں. بھٹو کے دورحکومت میں وہ سعودی عربیہ میں رہا کرتے تھے. آج چچا زاد بھائی طارق اور نسیم فیملی کے قلعے کو ایک ساتھ سنبھال رہے ہیں اور انفرادی صلاحیتوں سے ماوراء بلندیوں کی ناقابل فراموش سطح کو چھو رہے ہیں. این اے بی نے نسیم کو تلاش کیا لیکن طارق نے ہر جگہ انعامات قبول کرنے یا انکار کرنے میں زیادہ دلچسپی صرف کی. طارق قرب و جوار کے بہترین تجارتی دماغوں میں سے ایک ہیں.
www.saigols.com

7 نوائے وقت گروپ: نظامی راکفیلر یا شیخ محمد تو نہیں ہوسکتے لیکن یہ انتہائی موثر میڈیا امپائر کے محافظ ہیں. چونکہ میڈیا اب ایک سنجیدہ کاروبار بنتا جارہا ہے اس لئے کلاؤٹ یا اس گروپ کے سربراہ ماجد نظامی اور ان کے بھتیجے عارف نظامی ہر گوشے میں موجود ہیں یا دوسرے لفظوں میں پاکستانی سوسائٹی کو وسیع پیمانے پر قبول کیا جارہا ہے. 1947 سے اب تک پاکستان کی سیاسی صورتحال میں اپنا اثر چھوڑنے کے معاملے میں اس گروپ کو بھلایا نہیں جاسکتا. یہ گروپ دوشاندار روزنامے نوائے وقت (اردو) اور دی نیشن (انگریزی) چلاتا ہے. اس کے علاوہ کچھ دیگر ماہ نامے اور ہفت روزہ اخبارات بھی اس کی اشاعت میں شامل ہیں. اس کے علاوہ ایک الیکٹرانک میڈیا چینل کے تئیں بھی ان کی سنجیدگی قابل لحاظ ہے. سنگلہ کی پہاڑی سے آنے والے ایک نوجوان حمید نظامی (مرحوم) نے ایک اخبار نکالا جس کی ہندستانی مسلمانوں کو پاکستانی تحریک کے دوران اشد ضرورت تھی. امیر برصغیر کے ایک معروف ا سٹوڈنٹ لیڈر تھے، جنہوں نے محمد علی جناح مرحوم کے نزدیک اپنی شناخت آزاد پاکستان کے تئیں اپنی انفرادیت اور خودداری کی وجہ سے بنائی. حالانکہ حمید کا انتقال عین جوانی میں 1962 میں ہوگیا لیکن انہوں نے ماجد نظامی کو ایک بہترین وراثت عطا کی. چھوٹے نظامی خلیل کچھ سالوں قبل انتقال کرگئے اور وہ بھی اس افسانوی گروپ کا ایک حصہ تھے. حمید نظامی کے تین بیٹوں شعیب، عارف اور طاہر میں سے صرف عارف نے اپنے والد کے نقش قدم کی پیروی کی اور اب وہ آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (APNS) کے سٹنگ پریزیڈنٹ ہیں. نظامی گروپ بھی 60 سال پرانی اکائی ہے.
www.nawaiwaqt.com.pk

8 سیف گروپ: یہ گروپ NWFP کی خاتون سیاستداں بیگم کلثوم سیف اللہ کی ملکیت ہے اور انہیں کے ذریعہ چلایاجاتا ہے. ان کے سب سے بڑے بیٹے جاوید سیف اللہ بہت ہی طاقتور تجارتی گروپ Ibis کے سربراہ ہیں. جاوید نے اپنی ماسٹر ڈگری بزنس ایڈمنسٹریشن میں یونیورسٹی آف پٹزبرگ، امریکہ سے 1973 میں حاصل کی جس کے بعد انہوں نے تیس سالوں سے زیادہ کا متنوع تجربہ ٹکسٹائل، ایلی کمیونیکیشن، سیمنٹ اور انفارمیشن ٹکنالوجی میں حاصل کیا. وہ دوسالوں تک آل پاکستان ٹکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) کے اور 7 سالوں تک NWFP کے چیئر مین بھی رہے ہیں. اس کے علاوہ وہ وزارت سائنس اور ٹکنالوجی کے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن ایڈوائزری بورڈکے ٹاسک فورس رکن، وزارت سائنس وٹکنالوجی کے لبرلائزیشن اینڈ پرائیوٹائزیشن آف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹیڈ کے ٹاسک فورس رکن رہے ہیں. جاوید سیف اللہ خان گروپ کے کاروبار کو گذشتہ 20 سالوں سے دیکھتے آرہے ہیں.
سیف اللہ گروپ کے افراد کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ اقتدار سے قریب رہے ہیں. جاوید کے بھائی انور سیف اللہ خان (سابق فیڈرل منسٹر)، سالم سیف اللہ خان (NWFP کی سیاست کے اصل نگراں) اور عثمان سیف اللہ (ایک اور APTMA & Wizard) کے ملک کے کلیدی سیاستدانوں کے ساتھ قریبی خاندانی تعلقات رہے ہیں. اس کے علاوہ ان لوگوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ پاکستان پر حکومت کرچکے کئی مشہور آرمی جنرلوں کے خاندان کی شادیوں میں کردار رہا ہے.
www.saifgroup.com

9 کریسنٹ گروپ: اس گروپ کی تاریخ 1910 سے شروع ہوتی ہے جب چینیٹ کے شمس الدین اور ان کے چار بیٹے امرتسر کے ایک چمڑے کے کارخانے میں کاروبار شروع کرتے ہیں. اس خاندان کو ان کی اس جائیداد کے عوض فیصل آباد میں 125 ایکڑ زمین تفویض کی گئی جو انہوں نے ہندستان میں چھوڑ دی تھی. یہ برادران محمد انتس، محمد بشیر، فضل کریم اور محمد شفیع پھر سے ملک کے سب سے بڑے ٹکسٹائل اکسپورٹر بن گئے. انہوں نے ابتدا میں محمد امین- محمد بشیر لمیٹیڈ برائے کاٹن اکسپورٹ اور متعدد مصنوعات کی درآمدات کے لئے قائم کیا تھا. اپنی ملکیت میں دو درجن سے زائد کارخانے رکھنے والے کریسنٹ گروپ ایک جادوئی طاقت رہا ہے. یہ امپائر چچا زاد بھائیوں، چاچاؤں اور بھتیجوں کے درمیان مضبوط اتحاد کی ایک مثال تصور کیا جاتا ہے. اس گروپ کے الطاف سلیم مشرف کے دور حکومت میں پرائیوٹائزیشن کمیشن کے چیئرمین رہے لیکن ایک انعام شدہ عہدے پر رہنے کے باوجود کسی طرح کی گڑبڑی کا الزام ان کے اوپر نہیں لگا. یہ گروپ آج ٹکسٹائل، اسٹیل، شوگر، مضاربہ، فوڈ، لیزنگ،نٹ ویئر، سافٹ ویئر، پاور، کیمیکل، بینکنگ اور انویسٹمنٹ کی متعدد اکائیاں رکھتا ہے. یہ لوگ ملک کے امیر ترین افراد میں گذشتہ 40 سالوں سے برقرار ہیں. چنیویٹ کی یہ شیخ فیملی انتہائی عزت وقار کے ساتھ زندگی گذارتی ہے جس کے پاس اس کی تجارتی تاریخ کے دوران کریڈیٹروں کے ساتھ بہترین ریکارڈ رہے ہیں. کریسنٹ کو چلانے والے لوگوں کو تعلقات بنانے نہیں پڑتے بلکہ فائدے ان کی طرف طبعاً لپکتے ہیں.
www.crescenttextile.com

10 منوگروپ: منو گروپ دوبھائیوں دست محمد اور ناظر حسین کے ذریعہ 1905 میں کلکتہ میں قائم کیا گیا. منو گروپ کے ذریعہ قائم کردہ پہلی یونٹ اولمپیا ربڑ ورکس تھی. اس کے بعد وقت گواہ ہے کہ منو گروپ نے 20 ٹیکسٹائل ملیں کامیابی کے ساتھ قائم کیں. سابق سربراہ شہزادہ عالم منو اس گروپ کی طاقت کا اصل راز ہیں جو زیادہ تر ٹیکسٹائل سیکٹر میں اپنی کامیابی کے لئے معروف ہے. منو گروپ گذشتہ 65 سالوں یا اس سے زیادہ عرصے سے دولت کی علامت رہے ہیں. شہزادہ کے بھائی جہانگیر اور قیصر کاروبار میں ان کی مدد کرتے ہیں. جبکہ اے پی ٹی ایم اے کے سٹنگ سنٹرل چیئرمین وقار منو کا تعلق بھی اسی گروپ سے ہے. مشرقی پاکستان میں منو گروپ کی بجلی، سینچائی، ٹیکسٹائل اور زراعت سے متعلق کل 9 یونٹیں تھیں. ان کے بڑے بھائی منیر منو نے مشرقی پاکستان چھوڑنے کے بعد فیصل آباد میں کئی لوم کھولے. شہزادہ عالم منو جو شاید صدر الدین ہشوانی کے ساتھ ملک کے بہترین صاحب پوشاک فرد ہیں، کسی صاحب اقتدار کے لئے اجنبی نہیں ہیں. مننو چنیوٹی بھی ہیں. شہزادہ عالم منو کچھ وقفے کے بعد پھر سے لاہور چمبر کی قیادت میں سرگرم ہوچکے ہیں جبکہ جہانگیر منو طارق سائیگول اور میاں منشا کے خلاف انا کی جنگ میں وقار منو کا ساتھ دے رہے ہیں. وہ تجارتی سیاست کے ستارے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں دونوں کے مزے سے لطف اندوزی کا شوق ہے. ان کے لئے بھرپور سلام!
www.monnoo.group.com

11 دیوان گروپ کے دیوان یوسف فاروقی: اس گروپ کے سرپرست مقامی باڈیوں کے سندھی وزیر رہے ہیں. صنعت، مزدور، نقل وحمل، کان و معدنیات جیسے متعدد شعبوں کو چلانے والا تن تنہا فرد اپنی قسمت کا دھنی ہے. دیوان مشتاق گروپ پاکستان کے ان عظیم ترین صنعتی اداروں میں سے ایک ہے جو پولیسٹر اکریلک فائبر، مینوفیکچرنگ اور آٹو موٹیو جیسے شعبوں میں سرگرم ہے. ان کی 6 کمپنیاں کراچی اور اسٹاک ایکسچنج میں جبکہ ایک کمپنی لکزمبر گ بورس میں درج فہرست ہے. دیوان فاروقی موٹرس کوریائی کمپنیوں ہونڈئی اور کایا موٹرس کے تکنیکی لائسنس معاہدے کے تحت سالانہ تقریباً 10000 ہزار کاریں تیار کرتی ہے. دیوان سلمان فائبر اس امپائر کا فخر ہے کیونکہ اس کا درجہ مجموعی پیداواری صلاحیت کے معاملے میں دنیا بھر میں گیارہواں ہے. گروپ کی ملکیت میں تین ٹکسٹائل یونٹیں، ایک موٹر سائیکل مینوفیکچرنگ کارخانہ اور ملک کی سب سے بڑی شوگر یونٹ ہے. دیوان کے تجارتی مفاد ہندستان میں بھی ہیں. ان کی املاک میں سعودی سیمنٹ اور پاک لینڈ سیمنٹ کے کئی درجن ملین کے حصص شامل ہیں. وہ سڑکوں، پینے کے پانی اور بایو انرجی انفرا اسٹکچر منصوبوں کی فنڈنگ کے علاوہ تقریباً 40 طبی اداروں اور درجن بھر سے زائد اسکولوں کو مالی تعاون دیتے ہیں. دیوان تین ملین امریکی ڈالر کے آئی ایف سی انویسٹمنٹ کے ساتھ 10 ملین امریکی ڈالر کے ایس ایم ای وسائل کی تعمیر پر گامزن ہیں. دیوان گروپ کا انجینئرنگ سیکٹر پر بھی خاصہ دبدبہ ہے.
www.dewangroup.com.pk

12 لکسن گروپ: حالیہ دنوں میں لکھانی این اے پی کے ہاتھوں کافی مشہور ہوئے ہیں. سلطان لکھانی اور ان کے تین بھائی یہ شاندار گروپ اور پاکستان میں میک ڈونلڈ ریستوراں کا سلسلہ چلاتے ہیں. این اے بی نے لکھانیوں پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے بے قیمت ڈائریکٹروں کے ذریعہ فون کی کمپنیاں بنائی اور کئی بینکوں اورمالیاتی اداروں سے بہت سارا قرضہ حاصل کیا. سلطان جیل میں اپنے چھوٹے بھائی امین کے ساتھ ایک مدت گذارنے کے بعد ان دنوں ملک سے باہر ہیں، امین بہت پہلے ہی چھوڑ دئے گئے تھے. این اے بی نے لکھانیوں سے سات بلین روپیوں کا مطالبہ کیا تھا لیکن بعد میں 10 سالوں کی مدت میں 1.5 بلین روپئے ادا کرنے پر راضی ہوگئی. لکھانی اپنے کلیدی حریف ہشوانیوں کی طرح تمام اسماعیلی صنعت کاروں میں انتہائی معروف ہیں.ان کی تجارت کا دائرہ میڈیا، تمباکو، پیپر، کیمیائی معدوں اور سرجیکل آلہ جات سے لے کر کاٹن، پیکجنگ، بیمہ، ڈیٹرجنٹ اور دیگر گھریلو استعمال کی اشیاءپر محیط ہے، جن میں سے کئی ایک معروف بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ محاذ کی صورت میں سرگرم ہیں.گرچہ لکھانی حالیہ دنوں میں پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں لیکن جوکامیابی انہوںنے گذشتہ 25سالوں میں حاصل کی ہے وہ سنہرے حرفوں سے لکھے جانے لائق ہے.اپنی خاکسارانہ طبیعت اور نرم مزاجی کے باوجودبڑے تجارتی اداروں سے ان کی کشمکش اور تناؤ قائم رہتی ہے.سندھ میں کوئی حکومت ہو یا وفاقی سطح کا کوئی ادارہ لکھانی ہرجگہ قابل اعتبار مانے جاتے تھے، لیکن موجودہ صورتحال میں ایک تکلیف دہ استثنائی کیفیت پیدا کر دی ہے.
www.lakson.com.pk

13 ایک تجربہ کار صنعت کار میاں عبداللہ کی سربراہی میں چلنے والا سفائر گروپ: یہ شاندار ایمپائر اپنی ملکیت میں 11 سوت کاتنے کے پلانٹ (60,000 ہزار ٹن سوت سالانہ کی پیداوارکے ساتھ)، گریج سوت کی بنائی کے تین پلانٹ (سالانہ 50 ملین میٹرس کی پیداوار کے ساتھ)، ایک سوت سکھانے والا پلانٹ (صلاحیت 5 ٹن روزانہ)، ایک بنائی یونٹ (10 ٹن روزانہ)، بنے دھاگے کو سکھانے والا پلانٹ (10 ٹن روزانہ)، کاتے ہوئے دھاگے کی سکھائی اور فنیشنگ والا ایک پلانٹ (1.2 ملین میٹر روزانہ) اور 40 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے تین پاور پلانٹ ہیں. سفائر سمندری گارمنٹ کمپنیوں کے ساتھ سنرجیاں قائم کرتا ہے. یہ گروپ اپنی مصنوعات کی بازار کاری بڑے برانڈ ناموں سے ایشیا، یورپ، آسٹریلیا اور شمالی امریکہ میں کرتا ہے. سفائر نے اپنا ایک اسپائننگ مل 1969 میں شروع کیا تھا اور 10000 ہزار سے زائد لوگوں کو ملازمت دے کر 219 ملین امریکی ڈالر کا سالانہ ٹرن اوور حاصل کیا. میاں عبداللہ کے وقار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اے پی ٹی ایم اے میں اکتوبر 2003 کے بحران میں 1000 ہزار سے زائد ٹکسٹائل مل مالکان نے اس وقت کے چیف وقار منو کے خلاف اپنے استعفیٰ انہیں سونپ دیئے تھے. درجنوں معروف صنعت کاروں نے ایک عارضی استحکام کے طور پر اے پی ٹی ایم اے کی سربراہی کے لئے ان کا نام تجویز کیاتھا. ٹکسٹائل مل کے مالکان میں ایسا اثر رکھنا کوئی آسان کام نہیں لیکن اس تناظر میں میاں عبداللہ خوش قسمت رہے ہیں. انہیں کئی کلیدی تجارتی لیڈران کے غیر ملکی دوروں کا حصہ بنتے دیکھا گیا ہے. ساتھ ہی وہ ہم پیشہ افراد کو حسب ضرورت تعاون فراہم کرتے رہے ہیں.
www.sapphire.com.pk

14 داؤد گروپ: یہ گروپ 1970میں پاکستان کا سب سے بڑا، 1990میں تیسرا اور 1997میں 15 واں گروپ تسلیم کیاگیا تھا. دوسروں کی ہی طرح قومی کاری اور مشرقی پاکستان کے سانحہ نے داؤدیوں کو بھی کافی حد تک متاثر کیا. آج اصل داؤد گروپ تین حصوں میں منقسم ہے. اس امپائر کے مالکان نے 20 سالوں تک کوئی یونٹ کھولنے سے پرہیز کیا. اس گروپ کا قیام احمد داؤد کے ذریعہ کیا گیا تھا لیکن بعد میں ان کی مملکت تین داؤدی بھائیوں احمد، صادق اور سلیمان میں تقسیم ہوگئی. اس گروپ کے کلیدی افراد بھٹو کے دور حکومت میں بیرون ملک قیام پذیر رہے. سابق فیڈرل منسٹر برائے کامرس و ٹریڈ رزاق داؤد مرحوم سلیمان داؤد کے صاحب زادے ڈسکون انجینئرنگ اور کچھ دیگر یونٹیں چلاتے ہیں جو ریفریجریٹر اور دوسری مصنوعات کی مینوفیکچرنگ کے لئے کام کرتی ہیں. احمد داؤد کے بیٹے حسین داؤد ذہین اور ضرورت مند طلباء کی تعلیمی امداد کرکے سماجی خدمات کے شعبے میں اپنا نام پہلے ہی روشن کرچکے ہیں. حسین، داؤد ہرکولس، چند مضاربہ کمپنیاں اور کچھ ٹیکسٹائل یونٹیں چلاتے ہیں. صادق داؤد گروپ کی ملکیت میں داؤد یاماہا، کے علاوہ کچھ لیزنگ، مضاربہ اور بیمہ کے ادارے بھی ہیں. 1951 میں صدر ایوب کے دور حکومت میں ایک ایم این اے بننے اور پاکستان مسلم لیگ کے ٹریزرر بننے کے صادق داؤد کے فیصلے نے داؤدیوں کو یقینی فائدہ پہنچایا.
www.dawoodgroup.com

15 بیسٹ وے گروپ کے سر انور پرویز بیسٹ وے گروپ کے چیئرمین ہیں جس کی شروعات 1962 میں مغربی لندن میں ایک خصوصی ایشین فوڈ اسٹور کی شکل میں ہوئی تھی. بعد کے ادوار میں مزید خردہ اکائیاں کھلیں اور 1970کے اوائل تک اس گروپ نے 10جنرل فوڈ اسٹور کھول لئے تھے. انہیں بآسانی امیرترین پاکستانی مانا جاسکتا ہے. بیسٹ وے گروپ 1976 میں تھوک کاروبار میں اس وقت شامل ہوگیا جب اس کا پہلا بیسٹ وے کیش اور کیری وائر ہاؤس لندن میں قائم کیاگیا. 1980 اور 1990 کے دوران تھوک کاروبار میں کافی کچھ توسیع کی گئی اور آج بیسٹ وے گروپ میں تقریباً 30 کمپنیاں ہیں. بیسٹ وے گروپ 1995 میں سیمنٹ کے کاروبار میں شریک ہوا جب اس سے 120 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے پاکستان میں ایک سیمنٹ مینوفیکچرنگ پلانٹ کھولنے کا منصوبہ بنایا. سال 2002 میں بیسٹ وے گروپ نے یونائٹیڈ بینک لمیٹیڈ میں 25.5% اسٹیک حاصل کیا. آج کے دور میں بیسٹ وے گروپ کیش و کیری ہول سیل، پروپرٹی انویسٹمنٹ، ریٹل آؤٹ لیٹ، چاول، دال، دلہن، سیمنٹ پروڈکشن کے ملوں اور تازہ ترین شعبہ بینکنگ میں اپنے کثیر نوعیتی مفادات کے ساتھ بیسٹ وے گروپ سرگرم ہے. 30 جون 2012 کو گروپ کی کل فروخت ایک سال میں ایک بلین یورو سے زائد مانی گئی تھی. یہ گروپ 2300 افراد کو راست ملازمت دیتا ہے.
www.bestwaygroup.co.uk

16 سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ اور مغربی پاکستان کے گورنر 91 سالہ یوسف ہارون کی سربراہی والی ہارون فیملی، یہ فیملی ہیرالڈ گروپ پبلیکیشن کی مالک ہے جس میں روزنامہ ڈان، ماہانہ ہیرالڈ، اورورا اور سپائڈر مجلے شامل ہیں. جب یوسف کو کراچی کے میئر کا عہدہ ملا اس وقت وہ برصغیر کی تاریخ میں سب سے نوجوان میئر تھے. میمن کنبے کی یہ اہم ترین شاخ اس بات پر یقین رکھنے والی جماعت ہے کے جنرل ضیاءالحق نے کراچی کے تاجر پیشہ افراد کے ساتھ منظم طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جس کی وجہ سے میمن کنبے کے افراد اپنی دولت سمیت پاکستان سے باہر چلے گئے. یوسف کے چھوٹے بھائی محمود ہارون بھی سندھ کے گورنر رہے ہیں. اس کے علاوہ وہ 17 سال کی عمر میں قائد اعظم کے اے ڈی سی کے طور پر خدمت انجام دے چکے تھے. ہارون فیملی جو کبھی ملک کی امیر ترین فیملی تھی وہ آج کے دور کی اہم ترین میڈیا اکائی ہے جن کا ملک کی سیاسی و تجارتی صورتحال میں ناقابل فراموش اثر رہا ہے. یوسف اور محمود کے والد سرعبداللہ ہارون کا انتقال 1942 میں ہوگیا تھا لیکن انہوں نے اس سے قبل اپنی رہائش گاہ پاکستان کی تحریک میں لگادی تھی. سرعبداللہ ہارون کے مذکورہ صاحبزادوں کے لئے تجارت اور سیاست کو ایک ساتھ چلانا کبھی بھی مشکل نہیں رہا ہے. یوسف ہارون نے ملک کی طرف سے آسٹریلیا میں بطور ہائی کمشنر بھی خدمات انجام دی ہیں. ہارون فیملی کے بڑے پردادا تقریباً 150 سال قبل کراچی کی طرف ہجرت کرآئے تھے جہاں انہوں نے ملبوسات اور چینی کے کاروبار میں اپنی قسمت بنائی.

17 یونس برادران: اس گروپ کے چیئرمین عبدالرزاق طبا ہیں. یہ گروپ پاکستان کی سب سے بڑے وائر ہاؤسوں (ٹکسٹائل مصنوعات) میں سے ایک کا مالک ہے. یونس برادران کے زیرکار کارخانوں میں فضل ٹکسٹائلس، گاڈون ٹکسٹائلس، لکی سیمنٹ، لکی انرجی، لکی پاورٹیک، لکی ٹکسٹائلس، یونس ٹکسٹائلس، سیکوریٹی الیکٹرک پاور کمپنی اور یونس برادرس وغیرہ شامل ہیں. رزاق طبا معروف ادارہ آل پاکستان ٹکسٹائلز ملس ایسوسی ایشن (APTMA) کی سیاست میں کلیدی کردار رکھتے ہیں، اس کے علاوہ ایف پی ٹی سی سی آئی کی سیاسی جوڑ توڑ میں شاہ کلید کی بھی حیثیت رکھتے ہیں. طبا اس وقت بہت زیادہ روشنی میں آئے جب انہوں نے میسرس طارق سائیگول اور میاں منشا کی اے پی ٹی ایم اے سربراہ وقار منو کے خلاف جاری ان کی جنگ میں ساتھ دیتے ہوئے گذشتہ سال ملک بھر کے ٹکسٹائلس تاجروں کے اعزاز میں کئی شاندار عشائیوں کا اہتمام کیا تھا. وہ ایک اچھے انسان دوست کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے کراچی اور سندھ میں اپنی میمن برادری کے لئے متعدد فلاحی منصوبوں کا آغاز کیا ہے. وہ موقع بہ موقع ایشاء طبا فاؤنڈیشن، ورلڈ میمن فاؤنڈیشن اور کٹھیاور کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی وغیرہ کے زیر اہتمام منعقدہ کمیونٹی ویلفیئر پروگراموں میں حصہ لیتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں. طبا کا مزاج یہ ہے کہ وہ کیمرے کی رسائی سے دور رہنا پسند کرتے ہیں اور اپنے تمام تر اثرات اور دولت کے باوجود کچھ ایسا ضرور ہے جس نے ان کے لئے عزت و احترام کا سامان کر رکھا ہے.
www.yunusbrs.com

18 گل احمد/الکرم گروپ: ملک میں میمن برادری کے کاروباری گھرانوں میں سے ایک شاندار نام گل احمد کا ہے جس کا قیام حاجی محمد پاکولا والا کے ذریعہ ہوا تھا لیکن اب یہ گل احمد اور الکرم گروپ آف انڈسٹریز کے نام سے دو حصوں میں منقسم ہوچکا ہے. گل احمد کی سربراہی بشیر المحمد کے ہاتھوں میں ہے جبکہ الکرم والے حصے کی نمائندگی عمر حاجی کریم کے ذریعہ کی جاتی ہے. 1953 میں گل احمد کا قیام ایک پرائیوٹ لمیٹیڈ کمپنی کے طور پر 8 ملین روپیوں کے سرمائے کے ساتھ ہوا تھا. گل احمد حالیہ دنوں میں 88,000 اسپنڈل، 108 ایئر جٹ لوم اور 297 کنوینشنل لوم کی تنصیبی صلاحیت کے ساتھ ایک شاندار مرکب اکائی مانی جاتی ہے. یہ گروپ بجلی پیداوار کے شعبے میں بھی اپنی انفرادی صلاحیت رکھتا ہے. گل احمد کے سربراہ یوروپین یونین اور امریکہ کے ساتھ چند اہم مذاکرات میں حکومت پاکستان کی رہنمائی کے علاوہ متعدد ٹکسٹائل باڈیوں اوراکسپورٹ کمیٹیوں کے عہدوں پر فائز رہے ہیں. یہ گروپ جلد ہی ایکسل انشورنس کمپنی شروع کرنے والا ہے اور اس سلسلے کی مطلوبہ لائسنس کاری اور دستاویزی امور پائے تکمیل تک پہنچ چکے ہیں. دوسری طرف الکرم اپنی ملکیت میں آمنہ انڈسٹریز، اورینٹ ٹکسٹائلس، عمران کراؤن کارک، گل ایجنسیز، دابھے جی سالٹ ورکس اور پاکستان سنتھٹکس جیسی کمپنیوں کے ساتھ بہترین نوعیت کا سوت پیدا کرنے والا پاکستان کا سب سے بڑا ٹکسٹائل کارخانہ ہے. اس کے پاس پاکستان ڈیری پروڈکٹس لمیٹیڈ کے نام سے ڈیری سے متعلق ایک ادارہ بھی ہے. معین قریشی کے مدت کارمیں المحمد کو اکسپورٹ پرموشن بیورو کا وائس چیئر مین بحال کیا گیا تھا.
www.alkaram.com

19 باوانی گروپ: مملکت باوانی کا قیام دوباوانی برادران احمد کریم ابراہیم باوانی اور عبد اللطیف ابراہیم باوانی کے ہاتھوں ہوا جن کی پیدائش 1882 اور 1890 میں سلسلہ وار جیت پور، کٹھیاور میں ہوئی اور جو 19 ویں صدی کے اواخر میں برما ہجرت کر گئے تھے اور رنگون میں احمد وایولین ہوزری ورکس قائم کیا. 1947 میں ان لوگوں نے پاکستان ہجرت کرلی. شاید رنگون کے ہوزری ملز کی یادگار کے طور پر کراچی میں بھی اسی نام سے انہوں نے ایک کمپنی قائم کی جو بہترین کاروبار انجام دے رہی ہے. لفظ باوانی کی نسبت اس خاندان کے ایک بزرگ سے ہے. جو اپنے وطن جیت پور میں ایمانداری اور محنت و جدوجہد کے لئے بہت معروف تھے. یہ گروپ جاپان میں پرچیز آفس کھولنے والا میمن برادری کا پہلا طبقہ ہے اور جو فی الحال ٹکسٹائل، جوٹ، شوگر، پارٹیکل بورڈ، آکسیجن، لیدرس، گارمنٹس، ٹینریز اور کیبل وغیرہ کے کاروبار میں سرگرم ہے. باوانیوں کو صحیح وقت پر سرمایہ کاری کے بہترین اور اچانک فیصلوں کے لئے جانا جاتا ہے اور ان کے فریق آج بھی ان کی اس خوبی کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں.
www.bawany.com.pk

20 سروس گروپ: فوٹ ویئر کے کاروبار میں انفرادی حیثیت کے مالک اس گروپ کے چیئرمین شاہد حسین ہیں. جلد ہی یہ گروپ ٹکسٹائل کی تجارت میں شمولیت کا ارادہ رکھتا ہے. شاہد نے چودھری احمد سعید (سٹنگ پی آئی اے چیئرمین) چودھری احمد سعید کے بعد یہ عہدہ سنبھالا ہے. چودھری احمد سعید اور صدر جنرل مشرف اپنی طالب علمی کے زمانے سے فارمن کریسچن کالج کے پرانے دوست مانے جاتے ہیں. چودھری احمد سعید کے چھوٹے بھائی چودھری احمد مختار پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک معروف رہنما ہیں جو دومرتبہ وزیر اعظم رہ چکیں بے نظیر بھٹو کی دو مدت کار میں سے ایک میں پاکستان کے فیڈرل کامرس منسٹر رہ چکے ہیں. چودھری احمد سعید کے صاحبزادے عارف سعید اے پی ٹی ایم اے پنجاب کے چیئرمین ہیں اور اپنے سنٹرل چیف وقار منو کی حمایت میں ٹکسٹائل کاروبار کے بہت سارے بڑے سورماؤں کی مخالفت کے باوجود سرگرم ہیں. سروس گروپ اپنا کاروبار جوتے، ٹائر، سوت، چمڑے، سرنج اور خردہ بازار کے شعبوں میں چلاتا ہے. ان سیاستداں مع تجارت پیشہ افراد کا سیاسی حلقہ پنجاب کے دشمنی متاثرہ ضلع گجرات میں بھی نمایاں رہتا ہے جہاں احمد مختار بعض اوقات پاکستان مسلم لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کے خلاف فتح حاصل کرلیتے ہیں اور کبھی کبھار قومی اسمبلی کی سیٹ کے لئے رائے دہندگان کا تعاون کھو دیتے ہیں. متعدد حکومتوں کے ساتھ یہ قربت ہی ہے جس کی وجہ سے سروس گروپ کو اتنی زیادہ اہمیت حاصل ہے اور پھر ایک سفید پوش جرم کا ملزم ہونے کے باوجود سروس گروپ کے یہ افراد اپنی سیاسی مع تجارتی شناخت پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں.
www.servis.com

21 ٹاٹا فیملی: پاکستان کے ٹاٹاؤں کو ہندستان کے مشہور و معروف مارکیٹ لیڈر کے مماثل نام سے ملانے کی چوک نہ کریں. نیپال سے ہجرت کرنے والے محبوب الہی نے بنگلہ دیش میں 1971 سے کافی پہلے چمڑے کا ایک کارخانہ قائم کیا لیکن ان کے پانچ صاحبزادے محبوب اقبال ٹاٹا (چیئر مین جناح ہاسپیٹل لاہور)، ریاض ٹاٹا (پریزیڈنٹ ایف پی سی سی آئی )، انور ٹاٹا (سابق چیئر مین اے پی ٹی ایم اے)، خالد ٹاٹا اور اعجاز ٹاٹا نے باہمی اشتراک سے 15 منفرد یونٹیں قائم کیں، جنہیں ان کی تیسری نسل کے افراد جیسے شاہد، مسعود اور حسن ٹاٹا کا تعاون حاصل رہا. ٹاٹا گروپ ٹکسٹائل سپائننگ، ویونگ، ڈینم، ووین، نیٹ ویئر، لیدر اور انرجی کے کاروبار میں رہا ہے. 1.5 بلین روپئے سے زیادہ کا سالانہ ٹرن اوور رکھنے والی اس چینیوٹی خاندان کی تجارت میں موجودگی اب سے تقریباً 200 سال پرانی مانی جاتی ہے. ایک مربوط بانڈ کی پابندی کرتے ہوئے ہر ٹاٹا اپنی علیحدہ یونٹ کی سربراہی انجام دیتا ہے. فیڈریشن کے سٹنگ پریزیڈنٹ ریاض ٹاٹا نوینا اکسپورٹ ڈویزن کی صدارت انجام دیتے ہیں اور بہت مشکل اوقات سے گذرنے کے باوجود اپیکس باڈی میں نمایاں مقام پر فائز ہیں. پاکستان کا یہ کلیدی تجارتی لیڈر اپنی راہ پر پورے استحکام کے ساتھ گامزن ہے، باوجودیکہ ایسے مشکل اوقات گذرے ہیں جب ریاض ٹاٹا نے اپنی تجارت کو دوبارہ فروغ دینے کے لئے اپنے دفاتر بند کرنے کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا تھا. لیکن ہم پیشہ افراد اور دوستوں کی کثیر تعداد نے انہیں ایسا کرنے سے بعض رکھا. قدیم روایتوں کے امین ٹاٹاز مجموعی طور پرسادہ طرز زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں. انہوں نے ہمیشہ خاکساری کی زندگی پسند کی ہے لیکن جب وقت کا مطالبہ ہوا ہے تو انہوں نے اپنی قیمت ثابت کی ہے.

22 عالم گروپ: تین لیدر یونٹوں اور دو ٹکسٹائل یونٹوں کا مجموعہ یہ ادارہ کراچی چیمبر کے سابق صدر شہزادہ عالم کی سربراہی میں چلتا ہے جو ایف پی سی سی آئی کے سٹنگ وائس پریزیڈنٹ اور پاکستان امریکہ بزنس کاؤنسل کے سینئر وائس چیئرمین ارشد عالم کے بڑے بھائی ہیں. یوکے کے ایک اتحادی گروپ کے ساتھ مشترکہ محاذ میسرس لیدر کنکشنز اس گروپ کے ذریعہ چلائی جانے والی ایک یونٹ ہے جو ویلو ایڈڈ لیدر مصنوعات کا پاکستان میں سب سے بڑا اکسپورٹر تسلیم کیاجاتا ہے. لیدر کنکشنز کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری ارشد عالم کے صاحبزادے خورشید عالم کے ذریعہ انجام دی جاتی ہے جبکہ اس گروپ کے ٹکسٹائل کاروبار کی نگرانی عالم بھائیوں میں سب سے چھوٹے شفیق عالم کے صاحبزادے فراز عالم کے ذریعہ انجام دی جاتی ہے. اس فیملی نے اندرون و بیرون پاکستان ریل اسٹیٹ اور اسٹاک میں کافی سرمایہ کاری کی ہے. ایک طرف جہاں نوجوان نسل تجارت پر اپنی توجہ دیتی ہے وہیں بڑے عالم برادران ایف پی سی سی آئی اور دوسرے تجارتی چیمبروں کی سیاست میں سرگرم کردار ادا کرتے ہیں. یہ گروپ حالیہ دنوں میں ذرائع ابلاغ میں سرمایہ کاری کے لئے پر تول رہا ہے جبکہ اس کے پاس کانٹیننٹل ٹریڈرس کے نام سے ایک امپورٹ اکسپورٹ اکائی بھی ہے. شہزادہ عالم کو اس وقت بہت زیادہ شناخت حاصل ہوئی جب وہ ملکی سیاست میں تجارتی اداروں کی شمولیت کے خلاف اپنی شدید ناراضگی کے ساتھ منظر عام پر آئے تھے. عالم برادران تجارت میں تقریباً 150 سالوں سے سرگرم ایک ممتاز چینیوٹی فیملی ہے جو چمڑے کے کاروبار میں بہت زیادہ معروف ہے. کمپاس اس فلاحی اسکول کا نام ہے جو معذور بچوں کی تعلیم کے لئے عالم برادران کی جانب سے گلبرگ لاہور میں کسی خارجی مدد کے بغیر چلایا جاتا ہے.
www.alam-group.com

23 گارڈ گروپ کے 87 سالہ ملک شفیع جو پاکستان کے اعلیٰ ترین شہری ایوارڈ سے سرفراز ہوچکے ہیں پوری قوت کے ساتھ اب بھی متعدد کاروباری اکائیوں کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں. ان کے چار صاحبزادوں میں سے سب سے بڑے افتخار ملک ایل سی سی آئی/ ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر رہ چکے ہیں جو پاک امریکہ بزنس کاؤنسل کے سٹنگ چیئر مین ہیں. گارڈ گروپ اپنا کاروبار آٹوموٹیو پارٹس، فلٹرس، بریک فلڈس اور موٹر گاڑیوں کے دوسرے کلیدی اجزاء میں چلاتا ہے. گروپ نے 1959 سے اس تجارت میں اپنا تسلط برقرار رکھا ہے جب سرکاری ملازمت چھوڑ کر ملک شفیع تجارت میں شامل ہوگئے. گارڈ رائس جو اس برادری کا پوری دنیا میں سب سے بڑا اکسپورٹر ہے یہ شفیع کے سب سے چھوٹے صاحبزادے شہزاد متے چلاتے ہیں جو لاہور چیمبر کے وائس پریزیڈنٹ کے عہدہ پر بھی فائز ہیں. دوسرے دو ملک وقار اور شہباز اس گروپ کے ریل اسٹیٹ کاروبار اور ایگریکلچرل لینڈ ہولڈنگس پر نظر رکھنے کے علاوہ اپنی خاندانی کاروبار کے تکنیکی حصوں کو دیکھتے ہیں. ملک ایک آرائین پنجابی فیملی ہے جو کچھ مفت اسپتال اور طبی مراکز بھی چلاتی ہے. جبکہ ملک افتخار ہمہ وقت روشنیوں میں رہنے کا اپنا مشغلہ نہیں بھولتے اور شاید وہ پاکستان میں تصویروں کی دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک ہیں. حالانکہ جب لوگوں کی تجارتی قدوقامت میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ کیمرے کی قید سے آزاد رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن ملک برادران لاہور اسلام آباد شٹل سروس چلانا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ اقتدار پر قابض کسی بھی فرد کے ساتھ بیٹھ سکیں.
www.theguardgroup.com

24 اعجاز گروپ: یہ ادارہ لاہور واقع ملک کی سب سے بڑی نٹ ویئر مع ڈائنگ فیسلیٹی کا مالک ہے. اعجاز گروپ کی نصف درجن سے زائد ٹکسٹائل اکائیاں ایک اور چینیوٹی کنبہ میاں گوہر اعجاز ولد مرحوم سنیٹر شیخ اعجاز کے ذریعہ چلائی جارہی ہیں. گوہر اس گروپ میں اپنے کالج کے زمانے سے ہی کلیدی حیثیت کے حامل رہے ہیں جب شیخ اعجاز چند مہینے جاری رہنے والی اپنی بیماری کے بعد سارا بار ان کے کندھوں پر چھوڑ کر چلے گئے. گوہراب وفاقی و صوبائی ٹکسٹائل بورڈوں میں ایک کلیدی پالیسی ساز کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں. وہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی لاہور میں ایک بورڈ گورنر کا عہدہ بھی رکھتے ہیں. لوگوں نے 1997 میں ان کی قائدانہ صلاحیتوں پر اس وقت توجہ دینی شروع کی جب انہوں نے 1997 کے سالانہ انتخابات میں اے پی ٹی ایم اے کی صدارت کے لئے جدوجہد کی اور اعلیٰ ترین عہدے کی لڑائی میں اپنے حریف سے بہت نزدیکی تناسب سے ہار گئے. گوہر اس وقت معروف ٹکسٹائل فیملیوں کے قبائلی نوجوانوں کی ایک پرجوش جماعت کی نمائندگی کرتے تھے. میسرس طارق سائیگول، منشا اور جہانگیر الہی وغیرہ کی طرح مخالفت میں وہ بھی شامل رہے ہیں. ان کے چھوٹے بھائی میاں فیصل اعجاز شہزادہ عالم منو کے داماد ہیں. اس کے علاوہ وہ میچول فنڈ اور ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بھی کیا کرتے ہیں جبکہ وہ بنیادی طور پر اپنے ٹکسٹائل کاروبار پر منحصر ہیں اور اپنے شوق پر توجہ دیتے ہیں جو اس شعبے میں انتہائی مفید اور کار آمد ثابت ہوتی ہے. گوہر کے ذریعہ پیش کردہ خدمات ویلو ایڈیشن کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے میں کافی اہمیت رکھتی ہیں.
www.ejazgroup.com

25 طبانی فیملی: طبانی برادران کے بارے میں بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ پیداوار، ٹریڈ، اکسپورٹ و امپورٹ جیسی تجارتوں میں صف اول کے افراد ہے. چند پاکستانیوں میں سے ایک ہیں جن کے پاس سنٹرل ایشین رپبلک کا قابل قدراسٹیک موجود ہے. یہ پاکستان کی پہلی نجی ایئر لائنس ایرو ایشیا کے مالک ہیں. یعقوب طبانی گروپ کے چیئر مین ہیں. طبانیوں کی تجارت کا دائرہ کاؤنٹر ٹریڈ اور بارٹرٹرانزکشن، ٹکسٹائل، فیشن گارمنٹس، لیدر، ٹوریزم، آٹو موبائل، شیپنگ، پاور جنریشن، آئل اینڈ گیس، میٹل، کیمیکل، فرٹیلائزر، سگریٹ اور سیمنٹ تک وسیع ہے. طبانیوں نے اپنے پیر ہرجگہ پھیلا رکھے ہیں.آپ کسی بھی تجارتی شعبے کا نام لیں اور طبانیوں کو وہاں موجود پائیں گے، لیکن ان تمام کے باوجود طبانی دکھاوے سے بہت دور ہیں. ایک معمر طبانی اشرف طبانی نے 1981 سے 1984 کے دوران سندھ کے گورنر، علاقائی وزیر برائے مالیات، انڈسٹریز، آبکاری اور ٹیکسیشن کے طور پر خدمات انجام دیں. بھٹو کو قومی حیثیت حاصل ہونے کے فوراً بعد انہیں 1971 سے 1973 کی مدت کے لئے ایف پی سی سی آئی کا اعزازی منتظم مامور کیا گیا تھا. اشرف طبانی نے چیئر مین ایمپلائر فیڈریشن پاکستان، صدر سلک اینڈ روین ملس ایسوسی ایشن اور انڈیسٹریل ڈیولپمنٹ بینک آف پاکستان کے بورڈ آف ڈائریکٹرس کے چیئر مین کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں. یہ صف اول کی میمن فیملی ہے جو کہ مختلف عوامی فلاحی منصوبوں کی فنڈنگ بھی کرتی ہے. حالانکہ اتنے بڑے کسی بھی ادارہ کے لئے گھوٹالوں کا سامنا کرنا عام بات ہے لیکن طبانی اس معاملے میں بھی خوش قسمت ہیں.
www.tabani-group.com

26 تپل گروپ کے سربراہ آفتاب تپل ہیں. چائے کی تجارت میں تپل گروپ کی کامیابی نے متعدد گروپوں کو چونکا دیا. تپل گروپ کی قابل توجہ کامیابی اس کی تین نسلوں کی محنت کا نتیجہ ہے. 1947 میں تپل نے آدم علی تپل کی نگرانی میں ایک گھریلو تجارت شروع کی. انہوں نے بازارمیں معروف چائے کے برانڈو سے مسابقت کا بخوبی سامنا کیا. تپل نے اس عوامی رائے کو غلط ثابت کردیا کے ان کا سرمایہ جلد ہی کم ہوجائے گا. تپل گروپ نے فیض اللہ تپل کی قیادت میں خوب ترقی کی، جن کے صاحبزادے آفتاب نے آج مارکیٹنگ کے نقطہ نظر میں کئی تبدیلیاں لائی ہیں تاکہ تپل کو ایک گھریلو نام بناسکیں. بیرون ملک قیام کرنے کے بعد آفتاب متعدد اختراعی نظریات کے ساتھ ملک واپس آئے اور کموڈیٹی میں نیا تصور پیش کیا جو کہ سب سے پہلے 1657 میں لندن میں گارویز کافی ہاؤس میں فروخت کیا گیا تھا. جدید ترین اسٹیٹ آف دی آرٹ بلینڈنگ اور پی مکسنگ آلہ جات کے ساتھ تپل آج پاکستان کی سب سے بڑی چائے کی کمپنی ہے، کمپنی کی مارکیٹنگ ڈویزن کے مطابق اس کی کھپت ماہانہ ملینوں کپ میں ہے. دسمبر 1997 میں تپل پاکستان کی اپنی نوعیت کی پہلی چائے کی کمپنی ہوئی جس میں آئی ایس او 9001- سرٹیفیکشن حاصل کی. تپل توانائی پیداوار کے شعبہ میں اپنے حصص کے لئے ہی جانے جاتے ہیں لیکن ان کی چائے انہیں مقبول عام بناتی ہے. گروپ کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ہر گھنٹہ 1.4 ملین کپ چائے تپل کی بنائی جاتی ہے.
www.tapaltea.com

27 اٹلس گروپ: اس گروپ کی بنیاد یوسف شیرازی جوکہ ایک سابق انکم ٹیکس آفیسر اور صحافی ہیں، کے ذریعہ 1962 میں صرف 3 لاکھ کے سرمایہ سے رکھی گئی. اٹلس گروپ کے ذریعہ سب سے پہلی کمپنی شیرازی انویسٹمنٹ (پرائیوٹ) لمیٹیڈ قائم کی گئی اوراس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا. تاہم شمالی پاکستان سانحہ نے بہت حد تک شیرازی کو متاثر کیا لیکن انہوں نے امید کا دامن نہیں چھوڑا اور مختلف جوائنٹ ونچروں مثلاً جاپان کی ہونڈا کے ساتھ پھر واپس آئے. آج اٹلس – ہونڈا ملک کے شعبہ انجینئرنگ میں ایک معروف برانڈ ہے اور صرف اس ایک برانڈ سے سینکڑوں ونڈر منسلک ہیں. ان کے اسٹیک بیمہ، مالی خدمات، اطلاعاتی ٹکنالوجی، لیزنگ، وارہاؤس، آفس ایکیوپمنٹ، موٹر کار اور موٹر سائیکل اسمبلنگ یونٹ میں بڑے پیمانے پر موجود ہیں اور ان کے پاس ایک ایسی کمپنی بھی ہے جو بیٹریاں بناتی ہے. شیرازی اٹلس انویسٹمنٹ بینک کے بھی مالک ہیں. شاید 2004-05 کا وفاقی بجٹ ہی ملک کی تاریخ کا پہلا بجٹ ہے جس میں کار بنانے والوں کو بری طرح متاثر کیا ورنہ یوسف شیرازی جیسے لوگوں نے ہمیشہ اپنی ضرورت کے مطابق شرائط کو منیج کرلیا ہے. پاکستانی اسٹاک اکس چینج کے ساتھ رجسٹرڈ کم سے کم 7 کمپنیاں یوسف شیرازی کے نام ہیں. ایک اندازے کے مطابق اس گروپ کا سرمایہ 15 ملین روپئے کے قریب ہے اور اتنی ہی رقم کی فروخت بھی اس کے کھاتے میں ہے.
www.atlas.com.pk

28 عابد گروپ شیخ عابد حسین الیاس سیٹھ عابد کے ذریعہ چلایا جاتا ہے. وہ ملک کے سب سے زیادہ صاحب وسائل ڈیولپر / بلڈر تسلیم کئے جاتے ہیںجن کے پاس کئی بڑے شہروں میں وافر مقدار میں زمینیں دستیاب ہیں. ان زمینوں پر سیٹھ نے کئی بلین روپیوں کی لاگت سے متعدد رہائشی منصوبے برانڈ نیم “گرین فورٹ” کے نام سے تعمیر کئے ہیں. سیٹھ سرحد پار کی اسمگلنگ میں ایک اہم کڑی کے طور پر کئی دہائیوں کی بدنامی کے بعد اس کاروبار میں آئے. حالانکہ کئی لوگ سیٹھ کو ان کی ملزمانہ غیر قانونی تجارتوں کے حوالے سے یاد کرتے ہیں، لیکن کئی باخبر حلقوں کا اب بھی ماننا ہے کہ وہ ڈاکٹر قدیر اور سابق وزیر اعظم بھٹوکے ساتھ پاکستانی نیوکلیائی منصوبے کی کامیابی کے پیچھے اصل دماغ کی حیثیت رکھتے ہیں. سیٹھ کے تقریباً تین درجن انتہائی قریبی رشتہ دار، دوست اور بھتیجے ملک کے بورسوں میں رکنیت رکھتے ہیں اور ادھر کئی سالوں سے سیٹھ عابد گروپ کو ان اسٹاک اکسچنجوں کے سالانہ انتخابات میں شاہ کلید کی حیثیت سے تسلیم کیا جارہا ہے. وہ اسٹاک، دھاتوں اور کرنسیوں کے کلیدی سرمایہ کاروں میں سے ایک ہیں لیکن جو چیز انہیں نمایاں مقام عطا کرتی ہے وہ ان کا فلاحی ادارہ حمزہ فاونڈیشن ہے جسے وہ بہرے و گونگے بچوں کے لئے چلاتے ہیں. پاکستان میں کوئی ایسا حاکم، سیاست داں، بیوروکریٹ یا آرمی جنرل نہیں گذرا جو سیٹھ کو نہ جانتا ہو، جن کی شخصیت زیادہ تر افراد کے لئے اساطیر کی حیثیت رکھتی ہے. سیٹھ اپنی پوری زندگی مقبولیت سے پرہیز کرتے رہے اور یہ وہ حقیقت ہے جس سے زیادہ تر صحافی واقف رہے ہیں.
www.abidgroup.net

29 شیخانی فیملی: یہ لوگ ملک کے معروف ترین لینڈ ڈیولپرس میں سے ایک ہیں. شیخانی کی قیادت ابو بکر شیخانی کے ہاتھوں میں ہے جو کسی بھی اعتبار سے کوئی بڑا صنعتی ادارہ نہیں ہے. شیخانیوں کی مقبولیت ان کی تعمیراتی اور لینڈ ڈیولپمنٹ سے متعلق ان کی سرگرمیوں کے حوالے سے ہے. ابو بکر کو گوادر پورٹ میں ریئل سٹیٹ کے سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک مانا جاتا ہے. اس قسم کے کاروبار میں جس طرح کے روابط کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سب ان کے پاس موجود ہے. قومی سیاسی حلقوں میں اپنی شناخت رکھنے کے باوجود انہیں مارچ / اپریل 1991 کے اس واقعے کے لئے جانا جاتا ہے جب وہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کے ڈیبٹ ریٹائرمنٹ فنڈ میں 450 ملین روپیوں کا عطیہ دے کر واحد معاون بن گئے. آج ناموافق حالات نے انہیں ایک زمین مافیا بنا دیا، اور ان پر یہ الزام ہے کہ وہ گوادر کی اپنی زمین 4000 ڈالر فی ایکڑ کی شرح سے صرف سینئر آرمی افسران کو بیچ رہے ہیں جب کہ یہی زمین عام سرمایہ کاروں کو 2,40,000 ڈالر فی ایکڑ کی شرح سے فروخت کی جارہی تھیں. لیکن یہی وہ راستہ ہے جس سے شیخانی اپنا زمینی / تعمیراتی وسیع کاروبار چلاتے ہیں. شیخانی کو الزامات پریشان نہیں کرتے،جو کئی بڑے ڈیولیپرس کے مطابق ایسے شخص ہیں کہ انہوں نے زمین کے کاروبار میں اپنی شاندار چھاپ قائم کرلی ہے. زمینی تحویل کے مقصد سے ان کی کسی پاکستانی شہر میں آمد کی افواہیںسن کر ہی ریئل سٹیٹ کی قیمت راتوں رات اچانک آسمان چھونے لگتی ہیں.

30 دادابھائی گروپ کے عبدالغنی دادا بھائی اس گروپ کے موسس تھے جنہوں نے تجارت میں قدم رکھا تھا اور پھر تعمیرات کے کاروبار میں آئے تھے. اس گروپ کا جنوبی پاکستان کے سیمنٹ مارکیٹ میں کافی بڑا شیئر ہے. نسل کے اعتبار سے میمنی دادا بھائیوں کی باوانیوں کے ساتھ انتہائی نزدیکی رشتہ ہے. عبدالغنی دادابھائی کے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیںجن کے نام سلسلہ وار نور محمد دادابھائی، محمد فاروق دادابھائی، محمد حسین دادابھائی، عبد اللہ حسین دادا بھائی اور غلام محمد دادابھائی ہیں. بیٹیاں محترمہ مہر النساء جعفر اور محترمہ زیب النساء تنویر ہیں. اس گروپ کا سیمنٹ، اینرجی، کنسٹرکشن، لیزنگ، پولسٹر، بینکنگ اور بیمہ وغیرہ میں کافی سارا سرمایہ ہے. دادابھائی موسمی مہم جو ہیں اور شاید وہ حبیبوں کی طرح کسی قسم کے حساب کتاب میں آنا نہیں چاہتے. ایک مضبوط کاروباری اکائی ہونے کے باوجود یہ فیملی اپنی پوری تاریخ میں کافی انتشار اور تذبذب کا شکار رہی ہے، جب معاملہ خبروں کی سرخی میں آنے کا ہوتاہے، لیکن یہ بات بھی قابل تسلیم ہے کہ دادا بھائی اب بھی خبروں میں کافی اہمیت رکھتے ہیں. آپ کسی بھی دن انہیں کچھ نیا کرتے سن سکتے ہیں. سٹاک پنڈتوں کے پاس ملک کے بورسوں میں ان کے گذشتہ کاروبار کی کافی کچھ معلومات دستیاب ہیں.

31 بہریا ٹاون (پرائیوٹ) لمیٹیڈ کے ملک ریاض حسین اس شاندار منصوبے کی سربراہی انجام دے رہے ہیں جو لاہور اور راولپنڈی / اسلام آباد میں ان دنوں سٹیٹ آف دی آرٹ منصوبوں کو فروغ دے رہا ہے. چہ جائیکہ ملک ریاض کاروباری حلقوں میں کوئی بڑا نام نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی اندرون و بیرون پاکستان زمینوں کی ہولڈنگ کی قیمت کئی درجن بلین روپیوں میں ہے. کافی ناموافق حالات سے پنپنے والے اس ڈیولپر نے خبروں کے مطابق بہترین روابط قائم کئے ہیں جو پاکستان میں کافی اہمیت رکھتے ہیں. یہ ان اسباب میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے ان کے تعمیر کردہ منصوبے کسی رکاوٹ کے بغیر وقت کے اندر مکمل ہوجاتے ہیں. انہوں نے ملک کے بڑے لوگوں کو مفت بنگلے تحفے میں دیئے ہوں یا انہیں انتہائی رعایتی قیمتوں میں دستیاب کرایا ہو، ان سب کے پیچھے زمینی حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے اپنی فراخدلانہ خدمات کے ذریعہ سب کو مسحور کرلینے میں کامیابی حاصل کرلی ہے. کوئی قابل لحاظ اقتصادی پس منظر نہ رکھنے والے ملک ریاض کو سابق نیوی چیف ایڈمائرل سبکدوش منصور الحق کی مشفقانہ سرپرستی کا خوب فائدہ ہوا. دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ ملک اور ایڈمائرل دونوں نے 200,000 ڈالر کا سودا کیا تھا لیکن بہریا ٹاون کا خالق یہ شخص ہٹنے والا نہیں تھا اور قیادت کی منتقلی سے صرف نظر وہ ایک کے بعد ایک گھر بناتا چلا گیا اور اپنی دولت بڑھاتا چلاگیا. اس کے بعد وہ برسر اقتدار اشرافیہ کی سرپرستی میں سرگرم متعدد فلاحی پارٹیوں کے لئے ایک سپانسر کے طور پرخدمت انجام دے کر بالکل مطمئن ہے.
www.bahriatown.com

32 آدم جی گروپ: اس طاقتور آدم جی گروپ کا بیج حاجی داود نے 1896 میں ایک کموڈٹی ٹریڈنگ کمپنی کا قیام کرکے بویا تھا. ان کے بیٹے آدم جی حاجی داود نے ایک ماچس فیکٹری کی بنا ڈالی جو اس وقت 1923 میں رنگون (برما) کی اپنی نوعیت کی دوسری سب سے بڑی فیکٹری تھی. 1947 تک آدم جی گروپ کلکتہ میں جوٹ کا سب سے بڑا اکسپورٹر تھا. بھٹو کی نیشنلائزیشن تحریک کے دوران انہوں نے مسلم کمرشیل بینک اور محمدی سٹیم شپ کمپنی میں اپنا سٹیک کھو دیااور اس کے بعد ان کے پاس صرف آدم جی شوگر ملز اور آدم جی کاٹن ملز کراچی باقی بچیں. آج پیپر فلورنگ، ڈیزل انجینئرنگ، کنسٹرکشن سنٹر، گارمینٹ، جنرل ٹریڈنگ، انشورنس اور کمیکلس وغیرہ میں لگائی رقموں کے علاوہ ان کی ملکیت میں کے ایس بی پمپس بھی ہے. 1970 کے بڑے ناموں میں سے ایک آدم جی پاکستان کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی کا رتبہ برقرار رکھنے میں کسی طرح ناکام ہوگیا. آدم جی انشورنس کمپنی ان میں سے ایک ہے جن کے پاس اب بھی ملک کے کل بیمہ کاروبار کا تقریباً 70% حصہ موجود ہے اور یہ بین الاقوامی پیمانے پر سب سے مقبول اور اپنی نوعیت کی قابل اعتبار پاکستانی کمپنی ہے.
www.adamjees.net

33 جہانگیر صدیقی اینڈ کمپنی: اس گروپ نے ABAMCO نام کی کمپنی کھولی ہے جو شاید پاکستان کے کیپٹل مارکیٹ میں سب سے بڑی میوچئل فنڈ کی کمپنی ہے. یہ فرم سیکورٹی انڈسٹری میں مکمل مالیاتی خدمات فراہم کرتا ہے. ABAMCO کئی بڑے پاکستانی و غیر ملکی اداروں بشمول انٹرنیشنل فائنانشیل کارپوریشن (آئی ایف سی) صدر دفتر واشنگٹن کے مابین ایک مشترکہ محاذ ہے. اس میں مسلم کمرشیل بینک، سعودی پاک کمرشیل بینک اور میسرس AMVESCAP، جو INVESCO کی ایک سبسڈری میں اور اس کے ساتھ اے آئی ایم مینجمنٹ گروپ کو ضم کرکے تخلیق کردہ ایک برطانوی کمپنی ہے، انویسکو دنیا بھر کے سب سے بڑی ایسٹ منیجروں میں سے ایک ہے جس کے پاس تقریباً 348 بلین ڈالر کی قیمت کا براہ راست اس کے زیر انتظام اثاثہ موجودہے. حالانکہ اس ایپکس کیپٹل مارکیٹ آپریٹر کے چیئر مین منور عالم صدیقی ہیں لیکن جہانگیر صدیقی و کمپنی کے چیئر مین دفتر میں نجم علی بیٹھتے ہیں. پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی (پی سی آر اے) نے اس پلانٹ کو خوش آئند طویل و قلیل مدتی ریٹنگ سے سرفراز کیا ہے. آبامکو کا قیام 1995 میں کیا گیا تھا. آبامکو ایسٹ مینجمنٹ کے شعبہ میں ملک بھر کی پہلی پرائیوٹ سیکٹر کمپنی ہے. 182 بلین روپیوں سے زائد کے ڈپازٹ بیس کے ساتھ 257 آن لائن برانچوں کے نیٹ ورک کے ساتھ چلنے والی ایم سی بی نے بھی آبامکو کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے.
www.js.com

34 دین گروپ: اس گروپ کی سربراہی ایس ایم منیر سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور کراچی جم خانہ کے ہاتھوں میں ہے. وہ مسلم کمرشیل بینک کے وائس چیئر مین بھی ہیں. منیر کا دین گروپ بنیادی طور پر ٹکسٹائل اور لیدر کے کاروبار میں ہے، لیکن اس چینیوٹی خاندان نے ریئل سٹیٹ اور سٹاک کے کاروبار میں بھی شاندار سرمایہ کاری کی ہے. منیر کچھ سیاسی مدت کار میں بھی سرگرم رہ چکے ہیں جیسا کہ دو مرتبہ وزیر اعظم رہ چکیں بے نظیر بھٹو نے انہیں میاں حبیب اللہ، ایک اور چینوٹی جو ایف پی سی سی آئی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، کے ساتھ وزیر مملکت بنایا تھا. حالانکہ لوگ اب بھی یاد کرتے ہیں کہ حبیب اللہ نے بھٹو کے دور اقتدار میں ایکسپورٹ پرموشن بیورو کے چیئر مین کی حیثیت سے خدمات فراہم کی تھیںلیکن شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ ایک وقت تھا جب منیر بھی ای پی بی کے فیئر و اکزبیشن ڈویزن میں ان کے شریک کار تھے. منیر کے صاحبزادے ایس ایم تنویر اے پی ٹی ایم اے پنجاب حلقے کی ایک کلیدی شخصیت ہیں. وہ کاروباری تجارت میں بھی کافی مشغولیت رکھتے ہیں. انتہائی مصروف زندگی کے باوجود وہ اب بھی اپنے مشغلے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں اور اہم ترین کاروباری اکائیوں میں کسی نہ کسی طرح سرگرم کردار ادا کرتے ہیں. منیر جنون کے ساتھ اپنی ایک نمایاں شبیہہ رکھتے ہیں جس نے انہیں تمامتر بلندیوں پر پہنچایا ہے. دین ٹکسٹائلز میں تاجروں نے سوکھے کاٹن کو ملاکر تقریبا 1000 شیڈ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے.
www.dingroup.com.pk

35 عادل گروپ: میاں عادل محمود ،جن کی شادی میاں منشا کی بھتیجی سے ہوئی ہے، بنیادی طور پر ٹیکسٹائل کے کاروبار میںہیں، لیکنجس چیز نے انہیں حقیقت میں شہرت و احترام کی سیڑھی چڑھنے میں مدد کی ہے،وہ ہے گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے کے تحت بینک بقایہ داروں کے مسائل حل کرنے میں ان کی انتھک کوشش اور کڑی محنت ،یہ کام انہوں نے پاکستان کے ڈیولپمنٹ فینانشیل انٹی ٹیوشنس (DFIs) کے تعاون سے کیا جنہوں نے بیمار صنعتوں کے احیا میں بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ بقایہ دار اوربینک دونوں عادل کے شکر گذار ہیں، کیونکہ انہوں نے واضح طور ایک پارٹی کوممکنہ کارروئی جبکہ دوسری پارٹی کو قانونی چارہ جوئی پرہونے والے لاکھوں روپے کے ممکنہ خرچ سے بچا لیا۔ 2001 میں میاں عثمان کے ساتھ عادل کو ڈفالٹیڈ لون پر ایس بی پی کی ڈسپیوٹ رزالیوشن کمیٹی کا رکن گورنر نامزدکیا گیا اور تب سے وہ کراچی اور لاہور کے درمیان پرواز کرتے رہے تاکہ 700 سے زیادہ قرض ڈفالٹروں کو راحت دے سکیں۔ اسی طرح انہوں نے بینکو ں کو قرض کے طور پر پھنسے ہوئے ان کے اربوں روپے کی وصولی میں مدد کی۔ عادل APTMA پنجاب زون کے سینئر وائس چیئرمین بھی ہیں۔ اپنے اعزازی رتبوں کی بدولت یہ چینوٹی تاجر ممتاز ہونے کا نعرہ لگانے کے باوجود ملک کے مقبول ترین لوگوں میںشمار کئے جاتے ہیں۔ اپنے دیگر کمپٹیٹروں کی طرح وہ بھی رفاہی خدمات میں پیش پیش رہتے ہیں، آنکھوں کا مفت علاج ان کی رفاہی خدمات میں خاص ہے۔

36 چناب گروپ: میاں محمد لطیف اپنے بھا ئی میاں اشفاق جوکہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں، کے اس گروپ کی نگرانی کرتے ہیں۔ 1975 میں اس گروپ کا قیام عمل میں آیا، چناب لمیٹڈ نے اپنی پہلی فیشن آؤٹلیٹ “چین ون” اسی سال قائم کی۔ چین ون کی فی الحال پورے پاکستان میں سات آؤٹلیٹ ہیں۔ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں اپنے ریٹیل چین اسٹورز کے قیام کے بعد، گروپ اب بحرین، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور وسطی ایشیائی ریاستوں میں نئے خوردہ آؤٹلیٹ قائم کرنے کامنصوبہ بنا رہا ہے۔ ایک طرف جہاں چناب گروپ آٹھ مرتبہ اکسپورٹ ٹرافی کافاتح ہے،وہیں اس کے چیئر مین چار مختلف مواقع پر مختلف کاروباری اداروں کی جانب سے بزنس میں آف دی ایئر کا خطاب حاصل کر چکے ہیں۔ چناب بنیادی طور کپڑے، فرنیچر کے سامان بشمول نن آئرن سوٹ، کو اصولی طور پر غیر لوہے کی سوٹ، کوئلٹ کوراور پردے وغیرہ پیداوار اور مارکیٹنگ میں مصروف ہے۔ چناب ہر سال 50 ملین مربع میٹر کپڑا کی بنائی اور 75 ملین مربع میٹر کپڑے کی رنگائی کرتا ہے اور اس نے پانچ بر اعظموں پر مشتمل عالمی سیلس نٹورک قائم کیا ہے۔ چانب کے پاس ٹیکسٹائل کی اشیائ، کپڑے اور ٹیکسٹائل کی گھریلو اشیاءکی تیاری اور فروخت کے لئےسویڈش ٹیکسکوٹ ٹیکنالوجی کا لائسنس ہے۔ اگست 2003 میں چناب گروپ نے نیشنل بنک آف پاکستان کے ساتھ 900 ملین روپے قرض کی سہولت پر دستخط کیا۔ گروپ کی ٹیکسٹائل مصنوعات کو Oekotex 100 ایکریڈئیشن دیا گیا ہے۔
www.chenabgroup.com

37 ستارہ گروپ نے کپڑا بننے کا کام 1956 کے اوائل میں حاجی عبدالغفور اور حاجی بشیربرادران کی نگرانی میں شروع کیا۔ اب یہگروپ اپنی ٹیکسٹائل کلوتھ فنیشنگ وپروسیسنگ،کپڑے کی کتائی،کالر الکلی شعبوں کے علاوہ توانائی پیداوار میں بھی تجارت کر رہا ہے۔ اس ادارے کی زیر ملکیت یونٹوں میں ستارہ کیمیکل، ستارہ کیمیکلس (ٹیکسٹائل ڈویڑن1) اور ستارہ کیمیکل س(ٹیکسٹائل ڈویڑن 11)، ستارہٹیکسٹائل، ستارہ انرجی اور یاسر سپننگ شامل ہیں۔ ستارہ گروپ کے زیراہتمام چل رہے خیراتی اداروں میں عزیز فاطمہ ہسپتال، غفور بشیر بچوںکا ہسپتال اور عزیز فاطمہ گرلز اسکول شامل ہیں۔ فیصل آباد کا صنعتی شہر اور ستارہ کا نام مترادف ہیں۔ یہ کاروبار کی دنیا میں دہائیوں پرانے ادارے ہیں جو مسلسل ترقی کی راہ پرگامزن ہیں۔ستارہ کے مالکان اپنی یونٹوں میں جاپان، برطانیہ اور جرمنی سے درآمدٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں اور بیڈنگ و فیبرک کلیکشن کوجنوبی امریکہ، امریکہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور یورپ برآمد کرنے کے معاملہ میںرہنماکی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کےٹیکسٹائل ڈویژن ایک ساتھ 33984 تک کی طاقت پرکام کرتے ہیں۔ عام آدمی کے بیچ ستارہ گروپ اپنے لان برانڈ مثلاًستارہ اسپین اور مغل اعظم کے لئے زیادہ مشہور ہے۔ ستارہ کے افراد درجنوں اکائیاں قائم کرنے پر شاید ہی یقین رکھتے ہیں، حالانکہ وہ ایساکرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
www.sitara.com.pk

38 کالونی گروپ: میاں محمد اسماعیل شیخ نے اس گروپ کی بنیادڈالی۔ انہوں نے اپنی پہلی فیکٹری 1898 میں قائم کی، پہلی فلور میل 1908 میں قائم کی اور 1947 تککالونی گروپ کی اکائیوں کی مجموعی تعداد میں 14 گننگ فیکٹریاں اور 4 فلور ملیں شامل تھیں۔ گروپ کو ذوالفقار بھٹو کے نیشنلائزیشن کے دوران بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور اسے صرف چند ایک ٹیکسٹائل ملز، فلور ملز اور گننگ فیکٹریوں کے ساتھ ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔حلانکہ شیخ اسماعیلکے ورثاءکالونی کا نام بلندی تک نہیں پہنچا سکے لیکنان پرایک بہت ہی اچھا وقت بھی گذرا تھا۔ اپنی بدقسمتی کے باوجودکالونی گروپ کے مالکان ابھی بھی کچھ جوٹ ، ٹیکسٹائی اور مالی کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ آزاد پاکستان میں کالونی ٹیکسٹائی ملیں عمل کے اعتبارسے اپنی نوعیت کی پہلی ملیں تھیں۔ اسماعیل شیخ کے صاحبزادے عزیز، نصیر، فاروق اورمغیث سیاست میں بھی سرگرم رہے ہیں۔ایک مرتبہ ان کے پاس ایک اخبارکی ایکویٹیز کی ملکیت بھی تھی اورحتیٰ کہ ان میں سے کچھ 1970 ء میں انتخابات کی لڑائی سے کنارہ کش ہوگئے۔ ایسا خیال کیا جا سکتا ہے کہ کالونی کے یہ افرادکافی بلندی تک جاتے کیوں کہ تجارت میں جس قسم کی شروعات انہوں نے کی تھی، وہ انتہائی خوش قسمت افراد سے ہی متعلق ہوتی ہے۔
www.colonygroup.com

39 عارف حبیب سکیورٹیز: یہ کمپنی کراچی اسٹاک ایکسچینج (کے ایس ای) کے چیئرمین عارف حبیب کی ملکیت ہے۔ یہ بازارکا سب سے بڑا بروکریج انجام دینے والا ادارہ ہے۔ اس کے ماتحت اداروں میں سے ایک عارف حبیب انویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ میوچول فنڈ میں مہارت رکھتی ہے۔ 2001 تک یہ نام تینوں سٹاک ایکسچینجوں پر درج کرلیاگیا تھا۔ اپنے قیام کے آغاز سے ہی عارف حبیب سیکورٹیزملک سب سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی اور نفع بخش بروکریج کمپنی رہی ہے۔ اس کا خالص منافع 751.9 ملین یعنی تقریبا 200 فیصد رہا ہے، ساتھ ہی 2003 تک اس فرم کے مجموعی سرمائے کی اساس تقریبا 1415.1 ملین روپے یعنی دگنی تھی۔ حال ہی میں عارف نے کاروبار پر 0.1 فیصد کیپٹل ویلیو ٹیکس کے نفاذ کی کافی تنقید کی تھی اورحکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اسے کم کرالیا تھا۔ متعدد اعلیٰ قدرکے گاہکوں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے عارف حبیب نے اپنی ساتھ اور رابطے، جو انہوں نے1989 سے بنائے تھے، کے ذریعہ سب کچھ پانے میں کامیابی حاصل کی ۔ عارف کی کامیابی کا سہرا نقد ڈیویڈنڈ کی بڑھتی ہوئی فیصد اور بونس کے سر جاتا ہے جو کہ وہ باقاعدگی سے اعلان کرتے رہنے میں یقین رکھتے ہیں۔ کمپنی کے اثاثہ جات 1997-98 میں 73.54 ملین روپے سے بڑھ کر 2002-03 تک 2178.95 ملین روپے ہوگئے،جبکہ اسی مدت کے دوران فی شیئر آمدنی 3.72 سے بڑھ کر 12532 ہوگئی۔
www.arifhabib.com.pk

40 قاسم دادا: قاسم دادا انیسویں صدی کے معروف تجارتی گھرانہ میمن فیملی سے تعلق رکھتے تھے جوکہ بین الاوقوامی تجارت کا تصور دینے کے لئے مشہور ہے وہ بھی ایسی حالت میں جب اس کے زیادہ تر معاصرین اس معاملہ میں بالکل ناتجربہ کار تھے۔ 1940 سے پہلے اس خاندان کے وسیع دفاتربرما، جنوبی افریقہ اور مشرق بعید کے ممالک میںموجود تھے۔ داداز کراچی اسٹاک ایکسچینج میں فیصلہ کن مقام رکھتے تھے اوربغیر کسی شہرت کے مختلف پاکستانی اور غیر ملکی اداروںکے حصص کے مالک تھے۔ قاسم دادا فیملی متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں مثلاً گلیکسواسمتھ کلین، برک بانڈ اور برجر پینٹس اہم مقامی ایکوئٹی کے مالک کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہے، اس کے علاوہ قاسم دادا میسرز حیدرآباد الیکٹرانکس، آٹوموٹیو بیٹری لمیٹڈ اورانٹرفنڈ بینک وغیرہ کے اسپانسرنگ ڈائریکٹربھی تھے۔ قاسم دادا ایسے چند پاکستانی تاجروں میں سے ایک ہیںجو کراچی سے حیدرآبادواقع اپنے سیمنٹ پلانٹس جانے کے لئے نجی طیارے پر پرواز کرتے تھے۔ یہ دادافیملی ہی تھی جس نے جنوبی افریقہ میں ایک کاروباری کیس لڑنے کے لئے 1890 میں مہاتما گاندھی کی خدمات ایک وکیل کے طور پرحاصل کی تھی۔ دادا کبھی مال و دولت کی علامت تھے۔
www.dadex.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *