غیر متوازن تقسیم ثروت پر’’آکسفیم انٹرنیشنل‘‘ کی تشویشناک رپورٹ اور ہمارا معاشی نظام

سلمان غنی ،پٹنہ
سلمان غنی ،پٹنہ

سلمان غنی ،پٹنہ

موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اگر اسی تیزی سے فروغ پاتا رہا تو آئندہ دو برس میں دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد کے پاس دنیا کی نصف آبادی کے برابر سرمایہ ہوگا۔برطانیہ کے ایک ادارے ’’ـآکسفیم انٹرنیشنل ‘‘ (Oxfam International)نے گزشتہ دنوں یہ حیرت انگیز اور دلچسپانکشاف کیا ہے۔ اس کے مطابق دنیا کے 85امیر ترین لوگوںکی دولت دنیا کی نصف آبادی کی کل دولت کے برابر ہو رہی ہے۔یہ 85امیر ترین افراد دنیا کی اس 1فیصد قلیل آبادی کا حصہ ہیں جو مجموعی طور پر دنیا کی کل دولت کے46فیصد حصے پر قابض ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ آنے والے دو برسوں میں یہ ایک فیصد لوگ دنیا کی نصف آبادی کی کل دولت کے 65گنا حصے کے مالک ہوں گے۔ 3.5 ارب لوگوں پر مشتمل دنیا کی نصف آبادی کی اگربات کی جائے تو اس کے پاس مجموعی طور پر1.7کھرب امریکی ڈالرہیں جو دنیا کی کل دولت کا محض0.7فیصد ہے۔ دولت کی اس غیر متوازن تقسیم کے انکشاف نے ماہر معاشیات کے سنجیدہ حلقوں کے ہوش اڑا دئے ہیں۔ اور وہ اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ غیر متوازن ہوتی ہوئی تقسیم ثروت ہمارے معاشی نظام کوکہاںلے جار ہی ہے۔آکسفیم کی جانب سیـ”Wealth: Having it all and wanting more”کے عنوان سے شائع ایک رسرچ رپورٹ میں اس صورتحال کو انسانی ترقی کے لئے شدید خطرہ بتایا گیا ہے۔ رپورٹ کیمطابق (جسے آکسفیم کی ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے) عالمی سرمایہ بڑی تیزی کے ساتھ ایک چھوٹے سے امیر طبقے کے درمیان مرکوز ہو رہا ہے ۔ آکسفیم انٹرنیشنل کی اگز یکٹو ڈائرکٹر وینی بیانیما(Winnie Byanyima) نے بین الاقوامی برادری کے سنجیدہ حلقوں سے یہ سوال کیا ہے کہ’’ کیا ہم ایک ایسی دنیا میں رہنے کو تیار ہیں جہاں ایک فیصد آبادی کے پاس بقیہ 99فیصد آبادی سے زیادہ دولت ہو ؟‘‘
موجودہ معاشی نظام کی یہ صورتحال بالکل وہی ہے جس کی طرف آج سے تقریباً50برس قبل عظیم مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اشارہ کیا تھا۔’’دولت کی غیر متوازن تقسیم کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ معاشی دنیا کے جسم میں دوران خون بند ہو جاتا ہے، جسم کے اکثر حصے قلت خون کی وجہ سے سوکھ کر تباہ ہو جاتے ہیں اور اعضاء رئیسہ کو خون کا غیر معمولی اجتماع تباہ کر دیتا ہے۔‘‘ سرمایادارانہ نظام کی شیطانی قوتیں غریبوں کا گلا گھونٹ رہی ہیں اور ان کے خون سے امراء کو سیراب کیا جا رہاہے۔ ایک طرف ترقی اور خوشحالی کی ظاہری رمق دمق دکھا کر دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہم کتنے خوشحال ہیں وہیں دوسری طرف غریب غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ خود ہمارے ملک میں ارب پتیوں کی تعداد گزشتہ دہائی میں6سے بڑھ کر 61 ہو چکی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ترقی کس کی ہے کیا مجموعی طور پر پورے ملک کی ترقی ہوئی؟ کیا سماج کے تمام طبقات کو یکساں طور پر اس کا فائدہ پہنچا؟ یا پھر سماج کے ایک مخصوص طبقہ کو۔ یہ حقیقت اب پوری طرح آشکار ہو چکی ہے کہ حکومتی سطح پر غریبوں کے فائدے کے لئے بنائے گئے تمام منصوبوں کے در پردہ ان امراء اور ئوسا کا خزانہ بھرنا مقصود ہوتا ہے جن کی ماتحتی اور سرپرستی میں یہ حکومتیں چل رہی ہیں۔ غیر متوازنتقسیم ثروت کا واقعہ اتفاقی یا حادثاتی طور پر رونما نہیں ہو ا ہے بلکہ یہ انہیں پالیسیوں اور منصوبوں کا نتیجہ ہے جنہیں غریبوں اور محتاجوں کے نام پر نافذ کیا جاتا ہے۔
تقسیم ثروت کی جس سنگین صورتحال سے آکسفیم انٹرنیشنل نے دنیا کو آگاہ کرایا ہے اس کے تناظرمیںموجودہ معاشی نظام پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہحقیقت اب رفتہ رفتہ آشکار ہو رہی ہے کہ دنیا سے غربت و افلاس ختم کرنے کی کوششیں ناکام کیوں ہو رہی ہیں ۔دراصل دنیا اب موجودہ معاشی نظام کا متبادل چاہتی ہے۔ لیکن سرمایادارانا قوتوں نے باا قتدار اور فیصلہ کن طاقتوں کو اپنے چنگل میں لے رکھا ہے۔ یہ قوتیں بخوبی واقف ہیں کہ اس نظام کا محض ایک متبادل ہے اور وہ اس اسلام کے پاس ہے۔ اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان کا جو متوسط نظام اسلام نے پیش کیا ہے اس کو قائم کر دینے کا وقت آ چکا ہے۔’’ آکسفیم‘‘ کی رپورٹ کے قابل غور پہلووں میں یہ نکات بھی شامل ہیں کہ تقسیم ثروت کے اس غیر فطری طریقہ پر کیسے قابو پایا جائے اور دولت کے رخ کو کس طرح امیروں سے غریبوں کی جانب موڑ دیا جائے۔ ائے کاش کہ انہیں عہد اسلامی کا وہ زریں دور عملی طور پر دکھا دیا جاتا کہ جب لوگ زکوۃ کے مستحقین کو ڈھونڈھتے پھرتے تھے اور مشکل ہی سے کوئی ایسا شخص ملتا تھا جوخود صاحب نصاب نہ ہو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *