
بڑھ سکتا ہے مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا سالانہ بجٹ !
حالیہ دنوں مرکزی وزراء نے جس طرح اقلیتوں کی حمایت میں بیانات دئے ہیں وہ اس بات کا اشارہ ہیں کہ مرکزی حکومت اقلیتوں کے باب میں سنجیدہ ہے۔معیشت میڈیا کے ڈائرکٹر سید زاہد احمد علیگ کے مطابق آئندہ بجٹ اقلیتوں کی دل آزاری نہیں کرے گا۔پیش ہے تفصیلی رپورٹ
یوں تو اپنے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک ہر سال مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کا سالانہ بجٹ ہمیشہ بڑھتا رہا ہے، تاہم عام مسلمان کو شاید ہی کسی سال ایسا لگا ہوکہ ان کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بھی اقلیتوں کے لئے مجوزہ بجٹ کا تقابلی جائزہ ملک کے شیڈیول کاسٹ (ایس سی) اور شیڈیول ٹرائبس (ایس ٹی) کے لئے مجوزہ بجٹ سے کیا گیا، معلوم ہواکہ جہاں سرکار مرکزی عام بجٹ کا ۵۔۲ فیصد (2.5%) شیڈیول کاسٹ کے لئے اور ۵۔۱ فیصد(1.5%) شیڈیول ٹرائبس کے لئے مختص کرتی ہے وہیں اقلیتوں کے لئے کبھی بھی ۲۵۔۰ فیصد(0.25%) سے زیادہ رقم مختص نہیںکرتی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اقلیتوں کی کل آبادی لگ بھگ شیڈیول کاسٹ کے برابر ہے ۔ ہمیشہ ایسا معلوم ہوا کہ سرکار مسلمان (اقلیتی آبادی کا تین چوتھائی) کے متعلق ووٹ بینک کی سیاست کرتی ہے جب کہ ایس سی اور ایس ٹی کے لئے سنجیدہ کوششیں کرتی نظر آتی ہے .
ایس سی اور ایس ٹی کے مقابلہ اقلیتوں کے بجٹ میں کمی کی ایک وجہ تو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آزادی کے وقت سے ہی جہاں ایس سی اور ایس ٹی کی پسماندگی کو دور کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی اور ملک کے آئین میں اسکے لئے گنجائش نکال لی گئی تھی، وہیں مسلمانوں کی پسماندگی کے متعلق سال ۲۰۰۶ میں سچر کمیٹی کی رپورٹ شائع ہونے کے بعد ہی زارت اقلیتی امور کی طرف سے کوششیں شروع کی گئیں۔ اس ملک میں ایس سی اور ایس ٹی کو سامنے رکھ کر سیاسی پارٹیا ںاور دلت چیمبر اینڈ کامرس سرکاری بجٹ کو اثر انداز کرتے رہے ہیں۔ اس کے مقابلہ ملک کی آزادی کے وقت مذہب کے نام پر ملک کا بٹوارا اور مذہبی فسادات کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے کوئی سیاسی پارٹی سامنے نہیں آئی اور نہ ہی کوئی چیمبر آف کامرس مسلم مسائل میں دلچسپی رکھتا تھا۔ ملک میں مذہبی سیاست کی وجہ سے سرکار کے سامنے ہمیشہ یہ چیلنج بنارہا کہ مسلمانوں کی ترقی کے منصوبوں کو کس طرح پیش کیا جائے کہ عوام کو مذہبی سیاسی پارٹیاں ورغلانے نہ پائیں۔
مسلمانوں کے مسائل پر بات کرنے کے لئے مذہبی تنظیمیں سامنے آتی تھیں یا پھر بڑے تعلیمی اداروں کے سربراہ، جن کو کوئی خاص علم نہیں ہوتا تھا کہ کس طرح بجٹ میں مسلمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ گنجائش نکالی جائے اور کس طرح ملت کو شریعت کی پابندی کے ساتھ معاشی ترقی کی راہ پر ڈالا جا ئے۔ اس کام میں سابقہ سرکار وںسے بھی چوک ہوئی کیوں کہ ان کی نگاہ مسلم مسائل سے زیادہ مسلم ووٹ بینک پر ہوتی تھی۔ اس نے مسلمانوں کے لئے شریعت کی بنیاد پر مالی اور اقتصادی امور میںکام کرنے والی تنظیموں کو نظر انداز کیا اور اپنے سیاسی نمائندوں کے سہارے جمعیۃالعلماء جیسی تنظیموں کو خوش رکھ کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاشیات اور مالیات کے متعلق مسلم مسائل اپنی جگہ رہے اور سال در سال اقلیتوں کے بجٹ میں اضافے کے بعد بھی مسلمانوں میں غربت بڑھتی گئی۔ سرکاری بجٹ سے تعلیمی وظائف کے علاوہ مسلمانوں کو کچھ اور حاصل نہ ہو سکا۔ ۹۵ فیصد مسلمان جو غیر منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں، ان کی معاشی ترقی کے لئے مطلوبہ حلال سرمایہ داری کے لئے سفارش کو سرکار نے خوبی سے نظر انداز کر دیا اور حکومت کے آخری دو سالوں میں اقلیتوں کے لئے عام بجٹ میں اضافے کی شرح کو دھیما کرنے کے بعد کانگریس پارٹی سرکار بچانے میں بھی ناکام رہی۔
مندرجہ ذیل ٹیبل میں اب تک وزارت برائے اقلیتی امور کے لئے مختلف سالوں میں مجوزہ سالانہ بجٹ پر ایک نگاہ
مالی سال کل مجوزہ بجٹ نظر ثانی بجٹ کل اصل رقومات بجٹ میں اضافہ
……….. 132-03 143-52 2 2006-7
99.6 % 208-38 362-83 512-83 2007-8
49.4% 629-54 664-83 1013-83 2008-9
42.3% 1723-4 1755-5 1756-5 2009-10
32.8% 2020-3 2514-5 2615-37 2010-11
8-7% 2297-5 2766-5 2866 2011-12
9-2% 2174-3 2218-3 3154-7 2012-13
10-7% ?………… 3130-8 3530-98 2013-14
5-4% ……………….? ………..? 3734-10 2014-15
چوں کہ بر سر اقتدار سیاسی جماعت نے جب بھی مسلم مذہبی یا تعلیمی تنظیموں کی مدد سے مسلم مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی، ملت کی تعلیمی بیداری سب سے بڑی ضرورت بن کر سامنے آئی۔ اس لئے اقلیتوں کے لئے مجوزہ عام بجٹ میں زیادہ تر رقومات تعلیمی وظائف کے لئے مختص کئے گئے اور کبھی بھی معاشی ترقی کے لئے درکار شریعت کی بنیاد پر سرکار مالیاتی اسکیموں پر کچھ کام نہ ہو سکا۔ سال در سال مرکزی اقلیتی وزارت کے بجٹ کا بڑا حصہ تعلیمی وظائف پر مبنی رہا ہے، جس سے بچے تعلیم میں فائدہ اٹھا سکے مگر غریب کامگار کو کوئی سہولت نہ مل سکی۔ چاہے جلاہے بنکر ہوں یا ٹھیلے پر سامان فروخت کرنے والا ہو یا گیرج چلانے والا مکینک ہو یا غریب کسان ہو کبھی سرکاری اسکیم سے شریعت کی بنیاد پر کسی طرح کا کوئی مالی امداد حاصل نہ کر سکا۔
جس طرح موجودہ مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور نے اپنےپچھلے ممبئی دورہ پر مسلم تنظیموں کے نمائندوں کے سامنے حکومت کی جانب سے مختلف اسکیموں کی اطلاعت دینے کے بعد یہ اشارہ کیا تھا کہ طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف کو وہ مطالبہ کارفرما (Demand Driven) بنانا چاہتی ہیں، اس بات کی قوی امید ہے کہ اس سال مرکزی حکومت کے عام بجٹ میں وزارت اقلیتی امور کے سالانہ بجٹ کی رقم بڑھ سکتی ہے اور اس میں تعلیم اور تربیت حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے لئے اضافی رقومات فراہم کرائے جا سکتے ہیں۔
میرٹ کم میرٹ اسکالرشپ، پری میٹرک اسکالرشپ اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے لئے رقومات میں اضافے کے علاوہ اس بات کی امید ہے کہ موجودہ سرکار نے جن پرانی اسکیموں کو نیا نام دیا ہے اور جو نئی اسکیمیں تیار کی ہیں، ان کے لئے بھی رقومات میں اضافہ کیا جائیگا۔ موجودہ سرکار نے جہاں اقلیتوں کی خواتین کو لیڈر بنانے کے پروگرام کو نئی روشنی کا نام دیا ہے، وہیں ولایتی تعلیم کے قرضہ جات کے سود پر ریایتی امداد والی اسکیم کو پڑھو پردیس کا نام دے کر اپنا لیا ہے۔ اس کے علاوہ پرانی سرکار جو امداد فنی ترقی اقدامات کے لئے دیتی تھی، اسے مودی سرکار نے سیکھو اور کمائو اسکیم کا نام دیا ہے۔ پارسیوں کو اقلیتوں میں شامل کرنے کے بعد جیئو پارسی کی اسکیم تیار کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کے سہارے تعلیمی ترقی فراہم کرانے کے لئے مائنارٹی سائبر گرام کے نام سے اسکیم شروع کی گئی ہے۔ امید ہے کہ ان تمام نئی پرانی اسکیموں کو سامنے رکھتے ہوئے اگر تعلیمی وظائف کے لئے رقومات بڑھائی جائیں گی تو یقینا اقلیتوں کے لئے مرکرزی بجٹ کی مجموعی رقم بڑھ جائے گی۔ اب دیکھنا ہے کہ اس سال کے بجٹ میں اضافہ پچھلے سال کے مقابلہ کتنا فیصد رہتا ہے۔
ہم سب کو( چاہے سرکار ی مشینری سے جڑ کر بجٹ تیار کرنے والی ٹیم کا ممبر ہوں، یا ملی تنظیم کے ذریعہ قوم کی ترقی کا خواب دیکھنے والے ہوں یا پھر سیاسی اور سماجی تنظیم سے جڑ کر مسلمانوں کی ترقی کا سہرا اپنے سر لینا چاہتے ہوں)، اس پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ کیا صرف بجٹ میں تعلیمی وظائف یا پھر امدادی اسکیموں کے لئے رقومات میں اضافے سے ملک کے مسلمانوں کی غربت اور پسماندگی دور ہو سکتی ہے؟ کیا ہمیں اس کے بعد حکومت سے کوئی شکایت نہیں رہے گی؟ در اصل ہم جب بھی مشورہ سے ملی ترقی کا منصوبہ تیار کرنے بیٹھتے ہیں تو اس میں تعلیمی اداروں کے نمائندوں کی کثرت ہوتی ہے اور منصوبہ کا رجحان تعلیمی ترقی پر اس قدر ہوتا ہے کہ معاشی پسماندی دور کرنے کو مطلوبہ توجہ نہیں مل پاتی۔ موجودہ اسکیموں میں بھی سیکھو اور کمائو جیسی اسکیم جو کمانے کی ترغیب و تربیت دینے کی غرض سے تیار کی گئی ہے، اس میں بھی روزگار کے فروغ دینے کے لئے کوئی خاص گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ روزگار کے متعلق مالیاتی اسکیمیں سود پر مبنی ہونے کی وجہ سے شریعت کے خلاف ہو جاتی ہیں، جس کا فائدہ مسلمانوں کی بجائے دیگر اقلیتی قوموں کو ہوتا ہے۔ سرکار یہ کہتی ہے کہ مدرسوں کو مارڈرنائز کیا جانا چاہئے اور مودی یہ کہتے ہیں کہ مدرسوں کے طلبہ کے ایک ہاتھ میں قران ہو اور دوسرے ہاتھ میں کمپیوٹر ہو، وہی بتائیں کہ کیا مدرسوں کے فارغین سودی قرض کے سہارے اپنے لئے معاشی ترقی کا خواب دیکھیں گے۔ کیوں سرکار مسلمانوں کی غربت دور کرنے کے لئے ایکویٹی فائنانس کا تجربہ نہیں کرتی۔ کم از کم مائکرو ایکویٹی کا تجربہ تو کرنا چاہئے۔ کیا معلوم جس طرح بنگلہ دیش کے محمد یونس نے جس طرح تجربہ کے بعد یہ ثابت کر دیا کہ غریبوں کو بھی بغیر زمانت کے مائکرو فائنانس دیا جا سکتا ہے، ہندستان کے تجربہ سے یہ سامنے آئے کہ غریبوں کو مائکرو ایکویٹی دی جا سکتی ہے۔
اقلیتوں میں امدادی اسکیموں کے علاوہ سرکار مالی امداد کو فروغ دینے کے لئے جہاں این ایم ڈی ایف سی ( نیشنل مائنارٹی ڈیولپمنٹ فائنانس کارپوریشن) کے لئے رقومات گرانٹ کی شکل میں دے کر این ایم ڈی ایف سی کا کل سرمایہ ۱۵۰۰ کروڑ روپیہ تک کر دیا ہے ، اس ادارے سے اب تک کوئی بھی ایسی اسکیم نہیں چلائی گئی جو مسلمانوں کو ان کے مذہبی عقائد پر قائم رہتے ہوئے معاشی ترقی کے مواقع فراہم کرا سکے۔ کاش ایم ایم ڈی ایف سی کے زریعہ مائکرو ایکویٹی کی کسی اسکیم کا تجربہ کیا جاتا ۔ سرکار اگر مائکرو ایکویٹی کی اسکیم کے تجربہ کے لئے کوئی رقم مختص کر دے اور کامیا بی کے ساتھ عمل درآمد کرانے کی غرض سے کسی قابل مائکرو فائنانس ادارے کو سامنے لائے تو امید ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو یہ موقع مل سکے گا کہ وہ اپنے مذہبی عقاعد پر قائم رہتے ہوئے معاشی ترقی کے راہ پر گامزن ہوسکیں۔ کیا مودی سرکار اس طرح کے مشورہ کو سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نارے سے جوڑ کر دیکھ سکے گی ؟ یا پھر نئی اسلیموں کے سہارے گھر واپسی کے لئے راہ ہموار کرنے کا کام کرے گی؟ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مودی سرکار مسلم ووٹ بینک کو سامنے رکھ کر بجٹ تیار کرتی ہے یا ایمانداری سے مسلمانوں کی مجموعی ترقی کے لئے درکار مالی اقدامات کے لئے راہ ہموار کر کہ اپنی قابلیت کا لوہا منواتی ہے۔