اسرائیلی وزارت خارجہ کی جانب سے ایران کا مذاق اڑانے کی کوشش
فلسطین کے معصوم بچوں،عورتوں،نوجوانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنانے والے اسرائیلی صہیونی اپنے مخالفین کا ٹھٹھا اڑانے ،ان کی تضحیک یا ان پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن جب ان کے فلسطینیوں پر مظالم کی مذمت کی جائے تو پھر باؤلے ہوجاتے ہیں اور تو اور ان کی ‘وسیع الظرفی کا یہ عالم ہے کہ وہ جرمن مرد آہن آنجہانی ایڈولف ہٹلر کے ہاتھوں ہولو کاسٹ میں یہودیوں کی مبینہ ہلاکتوں کے اعدادوشمار سے متعلق کوئی بات سننے کے روادار نہیں اور بہت سے یورپی ممالک میں ہولو کاسٹ میں یہود کی مبینہ ہلاکتوں سے متعلق سوال اٹھانا باقاعدہ ایک جرم ہے۔
ایک جانب تو ان کا یہ رویہ ہے اور دوسری جانب صہیونی ریاست اسرائیل کی وزارت خارجہ نے آسکر ایوارڈز کے طرز پر اپنے فیس بُک صفحے پر خود ہی طنزیہ انداز میں ایوارڈ ‘تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس نے اپنے دشمن ملک ایران کو بہترین اداکار قرار دے دیا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابقصہیونی وزارت خارجہ نے اس کی وضاحت بھی کی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے۔فیس بُک پر پوسٹ کی گئی تحریر میں کہا گیا ہے کہ ‘ایران کی ایک امن پسند ملک بننے کے لیے اداکاری پر یہ ایوارڈ دیا جارہا ہے جبکہ وہ جوہری پروگرام پر کام بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔وہ ہولوکاسٹ سے انکار کرتا ہے اور اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی دھمکیاں دیتا ہے۔
فیس بُک پر اسرائیلی وزارت خارجہ کے صفحے کو لائیک کرنے والوں کی جمعرات تک تعداد 248184 ہوچکی ہے۔اس نے لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو آسکر ایوارڈ کے لیے ”بہترین معاون اداکارنامزد کیا ہے اور ایسا اس گروپ کی جانب سے شام کے صدر بشارالاسد کی غیر متزلزل حمایت کی بنا پر کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اسی پر بس نہیں کیا ہے بلکہ اس نے فلسطینی اتھارٹی کو بھی بہترین ایڈیٹنگ کے جعلی ایوارڈ سے نواز دیا ہے کیونکہ اس کے بہ قول فلسطینی اتھارٹی نئی تاریخ رقم کررہی ہے۔
صہیونی حکام کی جانب سے آسکر ایوارڈز کا مضحکہ اڑانے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے اور بعض لکھاریوں نے صہیونی ریاست کو خوب سنائی ہیں۔ایک صارف نے اسرائیل کا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘واہ کیا بات ہے معصوم اور بھولے بھالے اسرائیلیوں کی، جو ننھی منی کھلونا بندوق کو بھی چلانا نہیں جانتے ہیں۔
ایک اور نے لکھا ہے:امن پسند ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ کے پاس کوئی ہتھیار بھی نہیں ہونا چاہیے۔یہ ہر کسی کا حق ہے کہ وہ تاریخ کو اپنی نظر سے دیکھے اور وہ جس طرح اس کی تفہیم رکھتا ہے،وہ اسی انداز میں اس کو دیکھے۔
فیس بُک کے بعض صارفین نے آسکر ایوارڈز کے لیے اپنی نامزدگیاں بھی کی ہیں اور ایک صاحب نے اسرائیل کو بہترین ‘جارح پھڈے باز دشمن ایوارڈ کے لیے نامزد کیا ہے جو ان کے بہ قول سفارتی تعلقات کی بہتری کا تو دعوے دار ہے لیکن عملاً وہ اس سے خود ہی پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پڑوسی ممالک سے پھڈے مول لیتا ہے۔ان تحریروں سے یقیناً اب اسرائیلی حکام ناک بھوں چڑھا رہے ہوں گے اور سوچ رہے ہوں گے کہ انھوں نے بھڑوں کے کس چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔