مسلم پرسنل لا بورڈ پر سیاسی بچولیوں کا قبضہ ہوگیا ہے: ظفر سریش والا

ظفر سریش والا
ظفر سریش والا

پرسنل لاء بورڈ کےجے پور اجلاس میں موجود سریش والا کے خلاف اسد الدین اویسی کا ہنگامہ

جئے پور: آج جئے پور کے مسلم پرسنل لا بورڈ اجلاس میں پہنچے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا کو اس وقت بڑی ہزیمت اٹھانی پڑی جب انہیں اجلاس سے باہر جانے پر مجبور کردیاگیا۔حالانکہ طفر سریش والا نے پورے واقعہ کی تردید کرتے ہوئے کچھ دوسری ہی حقیقت بیان کی ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق اجلاس میں اس وقت بڑا عجیب سا ماحول ہوگیا جب سریش والا اچانک جلسہ گاہ میں پہنچے اور ممبر پارلیمنٹ وبورڈ رکن اسدالدین اویسی نے علی الاعلان ان کی آمد پر ناراضگی درج کرائی۔بتایا جاتا ہے کہ حالیہ دنوں علمائے کرام ، تنظیموں اور بورڈ کے ذمہ داروں کو بے وقوف بتانے کی ا نہیں سزا جھیلنی پڑی ہے ۔ اسٹیج تک پہنچنا تو درکنار سریش والا کو میٹنگ میں کسی بھی نشست پر بیٹھنا بھی اراکین کو گوارا نہیں ہوا۔

عینی شاہدین کے مطابق مسٹر اویسی کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اراکین نے بھی انتہائی ناگواری ظاہر کی ۔ حتی کہ پوزیشن کچھ اس طرح ہوگئی کہ کچھ اراکین نے کہنا شروع کردیا کہ اگر یہ اجلاس سے باہر نہیں جاتے تو ہم واک آؤٹ کرجائینگے۔ حالانکہ اس پورے واقعہ کے دوران ظفر سریش والا کا نام تو نہیں لیاگیا لیکن جب اراکین کی سخت ناراضگی دیکھی گئی تو ذمہ داراروں نے اسٹیج سے اعلان کردیا کہ بورڈ اراکین، ذمہ داروں اور استقبالیہ کمیٹی کے علاوہ جو بھی فرد یا لوگ یہاں میٹنگ میں موجود ہیں وہ فوری باہرچلے جائیں۔

اس کے بعد تو سریش والا کیلئے جلسہ گاہ میں رکنا محال ہوچکا تھا اس لئے وہ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے بھاگتے بنے۔ بورڈ کی جملہ کارروائی اور فیصلوں کی بابت میڈیا بیان کے دوران عبدالرحیم قریشی نے صاف کیا کہ وہ بن بلائے پہنچے تھے اس لئے انہیں اجلاس میں نہیں لیاگیا۔انہوں نے کہا کہ دراصل وہ بورڈ کے اراکین اور ذمہ داروں کی میٹنگ تھی جس میں بیرونی لوگو ں کی اجازت نہیں ہوتی۔ اس بابت سوالوں کے دوران عبدالرحیم قریشی کے منہ سے وہ اصلی بات نکل ہی گئی جب انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات کریں یا نہ کریں یہ بورڈ فیصلہ کرے گا کوئی بچولیہ نہیں۔دراصل ان سے گذشتہ دنوں کے حوالے سے دریافت کیاگیاتھا کہ ایا اگر وہ بورڈ اور پی ایم میں قربت بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو کیا بورڈ کو اعتراض ہے۔ مسٹر قریشی کے کہنے کا لب ولباب تھا کہ بورڈ کو کسی بچولیئے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بورڈ جب ضرورت محسوس کرے گا تو پی ایم سے ملاقات کا فیصلہ کیا جائے گا کیونکہ بورڈ کو پی ایم سے کوئی بیر نہیں ہے۔

مولانا آزاد نیشنل ارود یونیورسٹی کے چانسلر ظفر سریش والا معیشت سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘‘ مسلم پرسنل لاء بورڈ سے میرا رشتہ بچپن سے رہا ہے جبکہ میرے والد یونس سریش والا ۲۲دسمبر ۱۹۷۲کی میٹنگ میں شریک تھے۔۱۹۹۵میں جب احمد آباد میں پرسنل لاء بورڈ کا پروگرام ہوا تو اس کے انتظامی امور میں میں بھی شامل تھا لہذا میرا تعلق تو بچپن سے ہی پرسنل لاء بورڈ سے رہا ہے۔’’

انہوں نے آج کے واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ کسی کے بلائے بغیر اجلاس میں شرکت کے لئے چلا جائوں گا۔میں نے صبح کا ناشتہ بورڈ کے صدر مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کے ساتھ کیا تھا جبکہ اسی دوران کئی دوسرے علماء کرام سے بھی ملاقات ہوئی لیکن مولانا سلمان حسنی ندوی چونکہ ایک دوسرےہوٹل میں ٹھہرے تھے اسلئے ان سے ملاقات نہ ہوسکی تھی لہذا میں نے جب انہیں فون کیا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ اجلاس کی جگہ پر آجائیں وہیں ملاقات ہو جائے گی۔جب میں وہاں پہنچا تو مولانا نے مجھے آگےاسٹیج کے پاس بلا لیا، میں نے مولانا سے ملاقات کی اور جب باہر نکلنے لگا اس وقت اسٹیج سے اعلان سنا کہ جو لوگ مندوب نہیں ہیں وہ باہر چلے جائیں ۔لہذا اس میں عزت اور بے عزت کا سوال ہی نہیں اٹھتا،میں جب پروگرام میں ہی شریک نہیں ہوا اور ملاقات کرکے باہر ہی نکل گیا تھا تو پھر ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی،ہاں اس وجہ سے کچھ دوسرے لوگوں کو بھی باہر جانا پڑا جو ممبئی یا دور دراز علاقوں سے آئے تھے۔البتہ میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ پر کچھ سیاسی پارٹیوں کا قبضہ ہوگیا ہے جو اپنے مقاصد کے لئے اسے استعمال کر رہے ہیں۔’’ انہوں نے مولانا عبد الرحیم قریشی پر سوال کھڑا کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘آخر یہ کون ہیں،اکبر الدین اویسی نے جس اجلاس میں واہیات تقریر کی تھی کیا اس اجلاس کی صدارت یہ نہیں کر رہے تھے؟ طفر یاب جیلانی کیا سماج وادی پارٹی کے اشاروں پر کام نہیں کرتے؟ ’’ ظفر سریش والا کے مطابق ‘‘جو لوگ پرسنل لاء بورڈ کے سہارے اپنی سیاسی دکان چلا رہے ہیں انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کی دکان بند نہ ہوجائے۔’’ طفر مزید کہتے ہیں ‘‘المیہ تو اس بات کا ہے کہ بڑے بڑے علماء کو بورڈ کی میٹنگ میں نیچے بٹھایا گیا تھا جب کہ سیاسی آقائوں کے غلام خود اسٹیج پر براجمان تھے۔’’

ظفر کہتے ہیں ‘‘میں مودی کا حمایتی ہوں تو کیا مسلمان نہیں ہوں،کیا بطور مسلمان میری اپنی شناخت نہیں ہے؟ جب میں پنچ وقتہ نمازی ہوں حج و عمرہ کرتا ہوں تو پھر محض اس بات پر کہ میں ایک علحدہ موقف رکھتا ہوں کیا مجھے اپنی بات پیش کرنے کا حق نہیں ہے؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *