
تلنگانہ فرضی پولس انکائونٹر میں شہید ہوئے نوجوانوں کے حق میں مظاہرہ کے بعدحیدرآباد میں کشیدگی
پورے معاملے میںمجلس اتحاد المسلمین کا گھنائونا کردار،فارنسک ٹیم کا دورہ اور مختلف نکات کا جائزہ
حیدرآباد :آج بعد نماز جمعہ حیدر آباد کی مکہ مسجد کے باہر مشتعل ہجوم نے فرضی انکائونٹر کے خلاف مظاہرہ کیا اور اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔اس دوران تمام تجارتی مراکز بند کر دئے گئے جبکہ مشتعل ہجوم نے مختلف مقامات پر پتھر بازی بھی کی۔البتہ تمام جگہوں پر پولس فورس کو تعینات کردیا گیا ہے ۔حالات کشیدہ لیکن قابو میں ہے۔
اسی دوران چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو نے مسلم یونائیٹیڈ فورم کے وفد کو تیقن دیا کہ نلگنڈہ پولیس انکاونٹر میں پانچ مسلم نوجوانوں کی ہلاکت کی تحقیقات کے سلسلہ میں جلد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس واقعہ کا جائزہ لے رہی ہے اور دو یا تین دنوں میں تحقیقات اور کارروائی کے سلسلہ میں کسی نتیجہ پر پہنچ جائے گی۔ چیف منسٹر نے کہا کہ اگر پولیس عہدیدار قصور وار پائے جائیں گےتو حکومت اُن کے خلاف کارروائی کرے گی۔ مسلم یونائیٹڈ فورم کے وفد نے آج چیف منسٹر کے چندر شیکھر راو سے ملاقات کی اور مسلم نوجوانوں کی پولیس کی جانب سے فرضی انکاونٹر میں ہلاکت کے خلاف یادداشت پیش کی ۔ وفد نے پانچ زیر سماعت قیدیوں کی ہلاکت سے متعلق اس سنگین واقعہ کی سی بی آئی یا پھر ہائی کورٹ کے برسر خدمت جج کے ذریعہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یادداشت میں 7 اپریل کو پیش آئے اس واقعہ کے بارے میں تفصیلات پیش کی گئیں اور بتایا گیا کہ پولیس کی جانب سے جھوٹی کہانی گھڑی جارہی ہے تا کہ انکاونٹر کو درست قرار دیا جاسکے۔ اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے جناب عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ چیف منسٹر نے وفد کی جانب سے پیش کردہ امور کی بغور سماعت کی اور اندرون تین یوم فیصلہ کرنے کا تیقن دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نلگنڈہ کے آلیر میں مسلم نوجوانوں کو ہلاک کرنے کا واقعہ دراصل سفاکانہ قتل ہے اس سے انکاونٹر نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ نوجوان مسلح پولیس ٹیم کی موجودگی میں فرار ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ رحیم قریشی نے کہا کہ واقعہ کے مقام سے جو تفصیلات حاصل ہوئی ہے اور پولیس وین میں جس انداز سے نعشیں پائی گئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ منظم انداز میں ان نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔ یادداشت میں مسلم یونائیٹیڈ فورم نے 2 اپریل کو سوریا پیٹ میں پولیس عہدیداروں کی ہلاکت کے واقعہ کی مذمت کی اور مہلوک پولیس عہدیداروں کے افراد خاندان سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ فورم نے ورنگل میں پانچ زیر سماعت قیدیوں کو ہلاک کرنے کے طریقہ کار پر سخت احتجاج درج کرایا اور کہا کہ اس واقعہ سے کئی شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ وفد نے کہا کہ پانچ زیر سماعت قیدی ہتھکڑیوں سے بندھے ہوئے تھے اور انہیں منی بس کی سیٹ سے باندھا گیا تھا اس بس میں 17 مسلح پولیس اسکارٹ موجود تھا۔
واضح رہے کہ تلنگانہ میں ہوئے تصادم کو لوگ فرضی انکائونٹر سمجھ رہے ہیں اور اسے پولس کی وحشیانہ کارروائی قرار دیا جارہا ہے۔مقامی سیاست نیوزکے مطابق پولیس نے وقار احمد اور ان کے ساتھیوں کے انکاؤنٹر کے مقام کو اپنی تحویل میں لے لیاہے، جب کہ این آئی اے کی ٹیم مقام واردات کا دورہ کرنے والی ہے۔ واضح رہے کہ وقار احمد اور ان کے ساتھیوں کی پولیس گاڑی میں انکاؤنٹر کے بعد مسلمانوں میں پولیس کے خلاف برہمی پائی جاتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حیدرآباد۔ ہنمکنڈہ قومی شاہراہ پر انکاؤنٹر کے مقام کا فارنسک ماہرین کی ٹیم نے جائزہ لیا اور جنگاؤں کے ڈی ایس پی کے سریندر سے انکاؤنٹر کی تفصیلات حاصل کیں۔ ذرائع کے بموجب آلیر سے 5.6 کیلو میٹر دور انکاؤنٹر کے مقام کو پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے، یہاں تک کہ اس مقام سے گاڑیوں کو گزرنے نہیں دیا جا رہا ہے۔ باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ این آئی اے کے ریکارڈ میں وقار احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ملک کے مختلف مقامات پر تشدد کی شکایات درج ہیں، اس لئے این آئی اے کی ٹیم اس مقام کا دورہ کرے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ پولیس پر وقار احمد اور ان کے ساتھیوں کے فرضی انکاؤنٹر کا الزام ہے، جب کہ پولیس اپنے اس اقدام کو درست قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ہونے کے باوجود پولیس پر حملہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟، یہی وجہ ہے کہ لوگ اس انکاؤنٹر فرضی قرار دے رہے ہیں، تاہم چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ریاستی وزیر داخلہ این نرسمہا ریڈی نے اس واقعہ پر اب تک اپنا کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، جب کہ ڈی جی پی انوراگ شرما اس واقعہ کو ’’حفاظت خوداختیاری‘‘ قرار دے رہے ہیں۔جبکہ دوسری اطلاع کے مطابق نلگنڈہ کے علاقہ آلیر میں پولیس فرضی انکاؤنٹر میں ہلاک ہونے والے وقار احمد اور اس کے ساتھیوں کے خلاف درج کئے گئے کانسٹبل قتل کیس میں برات تقریباً یقینی تھی۔ 14 مئی سال 2010 کو شاہ علی بنڈہ علاقہ میں پولیس پکیٹ پر تعینات پولیس کانسٹبل یو رمیش کو مبینہ طور پر گولی مار کر ہلاک کرنے کے الزام میں گرفتار وقار احمد اور اس کے چھ ساتھیوں کے خلاف ساتویں ایڈیشنل میٹروپولیٹن سیشن جج کے اجلاس پر کیس کی سماعت جاری تھی اور اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم کی جانب سے تحقیقات کی کئی خامیوں کا انکشاف ہوا تھا۔ حسینی علم پولیس نے کانسٹبل رمیش قتل کیس کے سلسلہ میں قتل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے بعد ازاں اس کیس کی تحقیقات کو اسپیشل انوسٹگیشن ٹیم کے حوالے کردیا تھا اور وکیل دفاع کی جانب سے اس کیس کے گواہوں پر جرح کئے جانے اور ملزمین کی برات تقریباً یقینی ہونے کے پیش نظر تلنگانہ پولیس الجھن کا شکار ہوگئی تھی۔ آئے دن کیس کی سماعت کے دوران وقار کی عدالت میں موجودگی کے دوران نامپلی کریمنل کورٹ کے اطراف واکناف علاقوں میں بھاری پولیس فورس متعین کی جاتی تھی اور یہ باور کیا جاتا تھا کہ وہ پولیس تحویل سے فرار ہوسکتا ہے۔ جیل سے لیکر عدالت کو منتقلی تک اسکارٹ پارٹی اس کی ہر نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھتی تھی اور نومبر سال 2013میں پولیس نے جنگاؤں کے قریب پولیس پارٹی پر مبینہ طور پر حملہ کرنے کے الزام میں ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا اور انہیں سیکورٹی کی وجوہات پر ورنگل جیل منتقل کردیا گیا تھا اور کیس کی سماعت کے دوران روزانہ سخت سیکوریٹی کے درمیان اسے حیدرآباد لایا جاتا تھا۔وہیں اس پورےمعاملے میںلوگوں کا کہنا ہے کہ مجلس اتحاد المسلمین گھنائونا کردار ادا کر رہی ہے اور وہ خفیہ طور پر فرقہ پرست طاقتوں کا ساتھ دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ اور جنگی جرائم کے خلاف سرگرم بین الاقوامی ادارہ ’’ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘‘ نے بھی آلیر میں ہوئے 5 نوجوانوں کے سفاکانہ قتل کا سخت نوٹ لیتے ہوئے حکومت تلنگانہ سے آزادانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جاری کردہ بیان میں 5 زیر دریافت قیدیوں کی پولیس فائرنگ میں ہلاکت کو عدلیہ سے بالاتر اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں اس طرح کی ہلاکتیں ایک سنگین مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ تنظیم کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق تنظیم کو اب تک موصولہ مواد کے مطابق 5 نوجوانوں کی موت پولیس کی گاڑی میں ہوئی اور جو ویڈیو کلپس ہیں ان کے مطابق زیر سماعت یہ نوجوان ہتھکڑیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ مسٹر وی پی اوبھید سینئر جہد کار ایمنسٹی انٹرنیشنل نے آلیر انکاونٹر واقعہ پر فوری غیر جانبدارانہ تحقیقات کا آغاز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس مبینہ انکاونٹر حقائق سے آگہی کے اقدامات کا آغاز کرے اور فی الفور پولیس وین میں ان 5 نوجوانوں کے ہمراہ موجود 17 پولیس اہلکاروں پر مشتمل دستہ کی تحقیقات کروائی جائیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے بیان میں واقعہ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن نوجوانوں کو پولیس اور نیم فوجی دستوں پر حملوں کے الزام میں 2007 اور 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا ان کے ساتھ عدالتی تحویل میں اس طرح کا سلوک باعث حیرت ہے ۔ تنظیم نے انسانی حقوق کمیشن کے رہنمایانہ خطوط کا تدکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سال 2010 میں جاری کردہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے رہنمایانہ خطوط کے مطابق فرضی انکاونٹرس کی آزادانہ تحقیقات لازمی ہے اور 2014 میں جاری کردہ سپریم کورٹ کے احکام کے بموجب پولیس انکاونٹرس کی تحقیقات غیر جانبدار و آزاد تحقیقاتی ادارے سے کروائی جائیں ۔ علاوہ ازیں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کے قوانین و قرار دادوں کا تدکرہ کرتے ہوئے کہا کہ غیر فطری حراست میں اموات و غیرہ کے معاملات میں بھی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانا لازمی ہے ۔ مسٹر وی پی ابھیر کی جانب سے جاری کردہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اس بیان میں وقار الدین ‘ امجد علی‘ محمد حنیف‘ذاکر علی اور اظہار خان کی مبینہ انکاونٹر میں ہلاکت کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا حکومت تلنگانہ سے مطالبہ کیا گیا ہے ۔ اس واقعہ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی بین الاقوامی باوقار تنظیم کی جانب سے مطالبہ کے بعد یہ واقعہ عالمی سطح پر پہنچ چکا ہے اور اس واقعہ میں انصاف رسانی کی جدوجہد میں مزید شدت پیدا ہوسکتی ہے۔