اترپردیش میں اردو پر تماشہ

عالم نقوی
عالم نقوی

پرنسپل سکریٹری بھاشا حکومت اتر پردیش شیلیش کرشن نے ۲۱ اپریل ۲۰۱۵ کو ایک نوٹی فیکیشن جاری کر کے صوبے کے سبھی سرکاری محکموں کے سر براہوں کو ہدایت کی ہے کہ طے شدہ درج ذیل سات کاموں میںریاست کی دوسری سرکاری زبان اردو کا استعمال بھی کیا جائے کیونکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے مؤرخہء ۴ ستمبر ۲۰۱۴ میں اتر پردیش راج بھاشا ترمیمی قانون ۱۹۸۹ کو پوری طرح آئینی قرار دیا ہے (۱) اردو میں عرضیوں اور درخواستوں کی وصولی اور ان کا جواب دینا (۲) اردو میں تحریر شدہ دستاویز ات کو رجسٹری کے لیے رجسٹرار کے دفتر میں قبول کیا جانا (۳) اہم سرکاری ضابطوں ،قوانین اور نوٹی فیکیشن کی اردو میں بھی اشاعت (۴) عوامی اہمیت کے سرکاری احکامات اور دستاویزات کو اردو میں بھی جاری کیا جانا (۵) اہم سرکاری اشتہارات کی اردو میں بھی اشاعت (۶) سرکاری گزٹ کے اردو ترجمے کی اشاعت اور (۷) اہم نوٹس بورڈوں کو اردو میں بھی تحریر کرنا ۔
اس نو ٹی فیکیشن کی خبر پہلی بار اتوار ۲۶ اپریل کے اخبارات میں شایع ہوئی ۔ اسی دن سے تا حال غلامانہ ذہنیت کے حامل اردو والوں کے نام نہاد ستائشی اور خیر مقدمی بیانات اور مبارک بادی کے پیغامات کی باڑھ آئی ہوئی ہے ۔ایک شیخ چلی بزرگ نے فرمایا کہ ’’حکومت ۔۔نے اپنا فرض ادا کردیا اب اردو والوں کو اپنا کام کرنا ہے ‘‘ !سوال یہ ہے کہ اردو والوں کو اپنا کام کرنے سے روکا کس نے تھا ؟ کب اور کس نے اردو والوں کا گلا پکڑ کے یہ کہا کہ خبر دار جو خود اردو پڑھی یا اپنے بچوں کو پڑھائی ؟ !
ہم منافق اور ہر کس و نا کس کی (بشرطیکہ وہ برسر اقتدار ہو) غلامی پر تیار اردو والے خود اپنی زبان کے قاتل اور دشمن ہیں ۔اردو دشمنی کی عمر سو سوا سو سال سے زیادہ نہیں اور انہیں کامیابی ملے تو ابھی صرف ۶۷ سال ہوئے ہیں ۔ ہمیں اگر اپنی زبان سے ذرا بھی محبت ہوتی تو خود کو ’اردو والے ‘ کہنے والوں کی موجودہ نسل جو ابھی پرائمری اور سکنڈری اسکولوں میں پڑھ رہی ہے اردو پڑھنا اور لکھنا اسی طرح جانتی ہوتی جس طرح ہر یہودی خواہ وہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں پلا بڑھا ہو آج عبرانی جانتا ہے ۔
یورپ امریکہ ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں ہزاروں سال سے رہنے اور مقامی زبانیں بولنے والوں نے جب صرف۶۶ سال پہلے ارض مقدس فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر کے اسے ’اسرائیل ‘ کا نام دیا تو روز اول سے عبرانی HEBREWاس کی سرکاری زبان تھی اور اپنے گھروں اور زمینوں سے اجاڑے گئے فلسطینی عربوں کی جگہ پوری دنیا سے لا لا کر بسایا گیا ہر یہودی عبرانی بولنا ہی نہیں لکھنا اور پڑھنا بھی جانتا تھا ۔ اسے کہتے ہیں اپنی زبان سے محبت ۔ وہ سب جھوٹ منافقت ریاکاری اور غلامی ہے جس کا مظاہرہ وہ نام نہاد اردو والے آج کر رہے ہیں جو حکومت کے منافقانہ عمل کی خوشامدانہ تعریف میں رطب ا للسان ہیں ۔
جہاں تک اس نو ٹی فیکیشن پر عمل در آمد کا سوال ہے جو پہلے ۱۹۸۹ میں راج بھاشا ترمیمی قانون کی شکل میں اور دوبارہ ۲۱ اپریل ۲۰۱۵ کو موجودہ صورت میں جاری ہوا ، ان پچیس برسوں میں اُس پر کسی عدالت نے ، بلا استثناء کسی بھی عدالت نے کبھی کسی طرح کی روک نہیں لگائی نہ کوئی حکم امتناعی STAY ORDERکبھی اُس پر عمل در آمد کے خلاف جاری ہوا ۔ مطلب یہ کہ اِن پچیس برسوں کے دوران بھی ہر حکومت کسی نئے نوٹی فیکیشن کے اجراء کے بغیر بھی اگر چاہتی تو اُس پر لفظاً اور معناً عمل در آمد کر سکتی تھی ۔ لیکن مسئلہ تو یہی ہے جسے یہ شیخ چلیان کرام سمجھنا نہیں چاہتے کہ حکومتوں کو پتہ ہے کہ ، یہ تو اتنے بے وقوف بے غیرت اور بے حمیت ہیں کہ انہیں تو گھٹیا کھلونے دے کے بہلایا جا سکتا ہے اور محض وعدوں ہی پر ٹرخایا جا سکتا ہے تو پھر خواہ مخواہ کسی ’عمل وَمل ‘کے چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے ؟
ہم نے اسے تماشہ اس لیے کہا کہ مذکورہ بالا ساتوں سرکاری کاموں کے لیے متعلقہ سرکاری دفتروں میں اردو جاننے یعنی اردو لکھنے اور پڑھنے و الے سرکاری ملازمین سرے سے ناپید ہیں اس لیے کہ ان کی تقرری ہی نہیں ہوئی ۔ اور تقرری کا کوئی نوٹس ابھی تک تو جاری ہوا نہیںہے ۔ ۲۰۱۷ کے الکشن سے قبل ہو سکتا ہے کہ ووٹ بینک کو بھنانے کے لیے اردو مترجمین کی چند اسامیوں کا اشتہارجاری ہو جائے ! جن حکومتوں کو محض نوٹی فیکیشن کے اجراء میں ۲۵ سال لگ جاتے ہوں انہیں حقیقی عمل در آمد کے لیے کتنے ۲۵ برس اور درکار ہوں گے ،اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی علم ا لحساب یا شماریات کے علم کی ضرورت نہیں ۔ اتر پردیش سمیت سبھی شمال وسطی صوبوں کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہاں اردو جاننے یعنی لکھنے اور پڑھنے والے ختم ہو چکے ہیں ۔ نئی نسل صرف ’گالب ‘ یا ’اکبال ‘ کو جانتی ہے یا ’مسائیروں ‘میں تالیاں بجانے کا ’پھن ‘ ، اور کچھ نہیں ۔
لہذا کوئی حکومت ناٹکوں اور تماشوں کے بجائے اگرواقعی کچھ کرنا چاہتی ہے تو بنیادی کام وہی ہے جس کا مطالبہ اردو میڈیا گلڈ نے کوئی سال بھر قبل کیا تھا کہ آٹھویں کلاس تک سب کے لیے اردو کی تعلیم لازمی کر دی جائے اور ابتدائی تعلیم کا میڈیم لازماً اور قانوناً صرف مادری زبان میں ہو ۔ ستائش اور مبارکباد کا خالی ڈھول پیٹنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ خوشامد اور چاپلوسی کے بجائے اپنے ووٹوں کی قیمت پر ’مادری زبان کی ‘ اور ’مادری زبان میں ‘ تعلیم کا حق خرید سکتے ہوں تو فبہا ۔ ورنہ خاموش رہیں ۔ اور اردو والوں سے التماس ہے کہ اپنی زبان سے محبت کرنا سیکھیں اور خود اردو لکھنا پڑھناسیکھ کر ، اپنے بچوں کو ، گھر ہی پر اردو لکھنا اور پڑھنا سکھانے کا انتظام کریں ۔ ورنہ وہ بھی اردو کا نام لینا چھوڑ دیں ۔
اس محل پر کوئی صاحب ہمیں سنجیو صراف اور انکے ’نام نہاد جشن ریختہ ‘ کا تماشہ یاد دلانے کی کوشش نہ فر مائیں ۔ من خوب می شناسم پیران پارسا را !
یہ اردو کو دیو ناگری لیپی کے چکر ویوہ میں قید کرنے کی سازش کے سوا اور کچھ نہ تھا ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *