Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors
Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

کامیابی کا سفر مختصر نہیں ہوتا

by | May 17, 2015

John Tyson

انعام اللہ

امریکا کے اس نوجوان کے لیے جنوری کی ایک عام رات تھی، سرد، اداس اور اجنبیت لیے ہوئے۔ وہ ایک سائنس کا طالب علم تھا، مگر اسے بزنس پڑھنے کا جنون تھا۔ کاروبار سے اسے بے حد دلچسپی تھی، مگر کبھی اس نے تجارت کے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ وہ دنیا کے معروف کامیاب تاجروں کی داستانیں پڑھتا اور لطف اٹھاتا… اور بس۔ ایک دو بار کسی دوست نے اسے کہا کہ تم بزنس کے بارے میں اتنا پڑھتے ہو اور اٹھتے بیٹھتے اس کا تذکرہ کرتے رہتے ہو، کبھی خود بھی کوئی کاروبار کرو، نوجوان یہ سن کر ہنس دیا۔ اس نے کہا یہ میرے بس کی بات نہیں۔ پھر اس کی زندگی میں ایک ایسی رات اتری، جس نے اس کی زندگی اور تقدیر بدل ڈالی۔
ایک رات اس کے دوست نے بزنس کی ایک کتاب پڑھنے کو دی۔ نصف شب کو اپنے خستہ حال بستر پر لیٹ کر اس نے کتاب پڑھنا شروع کی۔ اس میں بیسویں صدی کے ہنری فورڈ جو فورڈ کمپنی کا بانی تھا، کے ابتدائی ایام اور حالات ذکر کیے گئے تھے کہ وہ ایک کسان کا بیٹا ہو کر کس طرح کمپنی بنانے میں کامیاب ہوا۔ یہ پڑھ کر نوجوان کے جوش اور ولولے نے انگڑائی لی۔ اس نے سوچا، اچھا تو بزنس یوں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگلی صبح اس نے فیصلہ کیا کہ سائنس دان بننے کے بجائے اس نے بزنس مین بننا ہے۔ اس کے لیے تقریباً دو سال بزنس کے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کو پڑھتا رہا اور مختلف تاجروں سے ملتا رہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ بزنس کس طرح شروع کرے، حالانکہ وہ تو سائنس کا طالب علم ہے۔ تعلیم اور بزنس ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں؟ یہ دو باتیں اس کے لیے بزنس کا سفر طے کرنے میں رکاوٹ بن جاتی تھیں،لیکن اس نے بڑے بڑے تاجروں کے بارے میں پڑھ اور سُن رکھا تھا۔ یہ بھی بڑا تاجر بننا چاہتا تھا۔ آخر کار یہ جذبہ اور جوش و خروش رکاوٹوں کے پہاڑ کاٹنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس نے دنیا کے مشہور اور معروف تاجروں کے ابتدائی حالات پڑھے تو اسے اندازہ ہوا کہ بڑا بزنس کرنے کےلیے اس کی ابتدا چھوٹے پیمانے سے کرنی پڑتی ہے۔ اب اس نے مرغیوں کے انڈے بیچنے شروع کر دیے۔ اس کی توقع سے کہیں زیادہ یہ کام نفع بخش ثابت ہوا۔ کچھ عرصے اس کام کو کرتا رہا۔ اس کے سود مند ہونے کو دیکھ کر ایک اور قدم اٹھایا کہ مرغیوں کے انڈوں کے ساتھ اب مرغیوں کی خرید و فروخت بھی کرنے لگا۔ اپنے اس بزنس کے لیے اس کی کوششیں مزید تیز ہو گئیں۔ وہ اسکول سے واپسی پر مختلف ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس کے چکر لگاتا۔ ان سے کاروباری تعلق استوار کرتا اور پھر اس کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مستقل محنت کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ کسی کو گاہک بنانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ جب یہ کاروباری تعلق بن جائے اور پھر ٹوٹ جائے، یہ کسی بھی بزنس اور بزنس مین کے لیے ایک جانکاہ حادثہ ہوتا ہے۔
اس کا اگلا پڑاؤ امریکا کے شمالی علاقے تھے، جن کے بارے میں اس نے سنا کہ یہاں مرغیوں کا بزنس عروج پر ہے۔ اس نے اپنی قسمت چمکانے کے لیے ادھر کا رُخ کیا۔ یہاں اس کے لیے بزنس کے دَر کھلتے چلے گئے۔ روز بروز کاروبار ترقی کا سفر طے کرنے لگا۔ چھوٹے سے بڑے پیمانے پر کاروبار لانے کے لیے یہ مختلف طریقے اور کاوشیں کرتا۔ سارا دن کام کرتا۔ جسم تھکن سے چور ہو جاتا۔ رات کو نیند کی اشد ضرورت ہوتی تھی، لیکن یہ کچھ تاجروں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سنتا۔ وہ تجارت کے موضوع پر بحث مباحثہ کرتے۔ ہر ایک اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کرتا۔ اس طرح رات کا اکثر حصہ بیت جاتا۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ باتوں باتوں میں صبح طلوع ہو جاتی اور انہیں وقت گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا۔ یہ اس کی زندگی کا معمول بن گیا۔ اسے یہاں سیکھنے کے لیے وہ انوکھی باتیں مل رہی تھیں جو کئی کتابیں پڑھنے سے نہ مل پاتیں۔
اس نے اپنے تجارتی سفر کو رُکنے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ جاری رکھا۔ اس سفر میں رکاوٹیں بھی تھیں۔ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کبھی حالات کے تھپیڑے بزنس پر اثر انداز ہوتے، اس کی تیز رفتاری کو سست روی کا شکار بنا دیتے، لیکن یہ ان سے گھبرا کر پیچھے ہٹنے والا نہ تھا۔ قدرت بھی اس پر مہربان ہوتی رہی۔
1940ء میںاس نے مرغیوں کا ایک فارم خریدا۔ مرغیوں کی فارمنگ انڈسٹری کا میدان ابھی تک خالی پڑا تھا۔ کسی بزنس مین نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ اس نے اکھاڑے میں اُترنے میں دیر نہ کی اور یہ بھی اس کے لیے کار آمد ثابت ہوا۔ اس طرح ایک نئی انڈسٹری کی داغ بیل اس کے ہاتھوں پڑ گئی۔
1947 ء میں اس نے ’’Tyson‘‘ نامی کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس کے ایک حصے میں چکن فارمنگ تھی۔ دوسرے میں دیگر فارموں کو مرغیاں اور ان کی غذا وغیرہ سپلائی کرنے کا سیٹ اپ موجود تھا۔ ہر آنے والا دن اس کے لیے ترقی کی نویدلے کر طلوع ہوتا۔ 1950 ء میں اس کی کمپنی سے سالانہ 5 لاکھ مرغیوں کی پیداوار ہوئی۔ اس کا کاروباری سفر امریکا کے شہر آرکنساس سے ہوتا ہوا دنیا بھر میں بڑھتا چلا گیا۔ اس سفر ’’Tyson‘‘ نے اسے امریکا ایک بڑا بزنس مین بنا دیا۔ آج دنیا اسے جوہن ٹائی سن کے نام سے جانتی ہے۔
ٹائی سن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ لوگ مجھے کامیاب بزنس مین سمجھتے ہیں۔ یہ درست ہے، مگر اس کامیابی کے پیچھے ایک طویل مدت… برسوں کی محنت شاقہ کار فرما ہے۔ ان سب کا پھل میری کمپنی ’’Tyson‘‘ میں ملا۔ کامیابی کا راستہ کبھی مختصر نہیں ہوتا۔

Recent Posts

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ہندوستان میں گارمنٹس صنعت میں ترقی کے مواقع

ممبئی (معیشت نیوز ڈیسک )ہندوستان میں گارمنٹس (کپڑوں کی) صنعت معیشت کا ایک اہم ستون ہے، جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، برآمدات کو فروغ دینے اور عالمی مارکیٹ میں ہندوستان کی شناخت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ صنعت نہ صرف معاشی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے بلکہ...

بجٹ ۲۰۲۳ : ٹیکس سے استثناء آمدنی کی حد ۳؍ لاکھ تک بڑھی ، ٹیکس ’ری بیٹ‘ کی حد ۷؍لاکھ

بجٹ ۲۰۲۳ : ٹیکس سے استثناء آمدنی کی حد ۳؍ لاکھ تک بڑھی ، ٹیکس ’ری بیٹ‘ کی حد ۷؍لاکھ

نئی دہلی : یکم فروری ۲۰۲۳ء کو بجٹ پیش کرتے ہئوے ، وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے متوسط طبقے کو معمولی سی راحت دینے کے لیے سلیب کو تبدیل کیا ہے۔ سیتارامن نے کہا کہ "نئی حکومت کے تحت، چھوٹ میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاکہ وہ ٹیکس ادا نہ کریں ۔ نئی مجوزہ ٹیکس پالیسی...

مسلسل ۳؍ دن کی گراوٹ کے بعد جمعہ کو اسٹاک مارکیٹ سنبھلا

مسلسل ۳؍ دن کی گراوٹ کے بعد جمعہ کو اسٹاک مارکیٹ سنبھلا

انڈیکس ۳۰۳؍پوائنٹس چڑھ کر ۶۰؍ہزار ۲۶۷؍پر بند، نفٹی بھی ۹۸؍پوائنٹ چڑھا تین دن کی کمی کے بعد آج ہفتہ کے آخر ی دن جمعہ کو اسٹاک مارکیٹ میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کچھ سنبھلا ۔بامبے اسٹاک ایکس چینج انڈیکس ۳۰۳؍ پوائنٹس چڑ ھ کر ۶۰؍ہزار ۲۶۱؍پر بند، نفٹی بھی...

اخلاص ٹورس کے مالکان پر جعلساز ی کا الزام بے بنیاد: قاری محمد زبیر

سوشیل میڈیا پر گشت کررہے تمام الزامات کواخلاص انٹرنیشنل ٹورس کے مالک شاہ رخ سلطان نے مسترد کیا اورثبوت کے طور پر میڈیا کے سامنے تمام شواہد پیش کیے۔ ممبئی : کرلا میں واقع اخلاص انٹر نیشنل ٹورس نامی کمپنی جو گزشتہ دس سالوں سے حج عمرہ کی خدمات مہیا کررہی ہے ، حال ہی...