ہندوستان میں خیرات و صدقات کابزنس بڑھتا جارہا ہے
غریبوں کا مال ہڑپ کرنے اور خلیجی ممالک سے زیادہ سے زیادہ چندہ وصولنے کے طریقے میں تیزی آتی جارہی ہے

ممبئی: (معیشت نیوز)رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جہاں نیکیوں کا موسم بہار امت مسلمہ پر سایہ فگن ہے وہیںخیرات و صدقات کی آڑ میں کاروبار کرنے والے لوگ بھی مصروف نظر آرہے ہیں۔گذشتہ چند برسوں سےجہاں افطار کٹ بانٹنے کا چلن عام ہوا ہے وہیں بعض نام نہاد تنظیمیں سحری کے انتظامات کے نام پر بھی چندہ وصولنے کا کام کر رہی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ تنظیمیں کٹ تقسیم کرتے وقت نہ صرف فوٹو سیشن کا اہتمام کرتی ہیں بلکہ بعض جگہوں پر تو محض دکھاواہی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگ اسے باقاعدہ بزنس پلیٹ فارم بھی سمجھتے ہیں۔گذشتہ روز جب پٹنہ میں جماعت اسلامی ہند اور ہیومن ویلفیئر فائونڈیشن کی جانب سے بھی اسی رویہ کو اختیار کیا گیا تو پٹنہ کے مشہور سماجی کارکن نیر فاطمی نے اپنی ناراضگی درج کرائی اور کہا کہ ’’جب مجھے افطار پارٹی کٹ تقسیم پروگرام میں جانے کا موقع ملا تو دیکھا کہ جماعت کی آفس میں عورتوں اور مردوں کی بھیڑ جمع ہے ۔یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ لوگ اپنی حاجت بیان نہیں کرسکتے(یعنی مسکین)کے زمرے میں آتے ہیں لہذا ان کو یہاں بلا کر افطار کٹ تقسیم کیا جا رہا ہے‘‘۔نیر کہتے ہیں’’اگر تقسیم کرنا ہی تھا تو خاموشی سے ان کے گھر پر پہنچا کربھی کیا جاسکتا تھا لیکن جماعت اور ہیومن ویلفیئر بھی ان این جی اوز کی طرح ہوگئی ہے جو دکھاوے پر یقین رکھتے ہیں۔حالانکہ علماء نے خیرات و صدقات کا جو طریقہ بتایا ہے وہ خاموشی والا ہی ہے۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ ذمہ داران کو اس کا جواب دینا چاہئے‘‘۔واضح رہے کہ جس کے جواب میں جماعت اسلامی سے وابستہ محمد صلاح الدین خان کہتے ہیں’’نیّر فاطمی صاحب کی نگاہ صرف ایک پہلو پر ہے یعنی انفاق چھپا کر کرنے کی اہمیت۔ اس سلسلے میں دو باتیں کہنی ہیں۔ اوّل یہ کہ اس اجلاس میں اگر یہ کہا گیا کہ کچھ لوگ زیادہ خود دار ہیں اس لئے ان کے گھر یہ رمضان کٹ پہنچادی جائے گی تو ایک غلط بات کی ہے۔ کیا وہاں آکر لینے والوں کو غیر خوددار سمجھ لیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ بے شک انفرادی مدد کرتے ہوئے اخفاء بہتر ہے لیکن اگر کسی اجتماعی نظم یا بیت المال سے دیا جا رہا ہے تو اس کا اعلان بہتر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے جب بیت المال سے مد د کی تو بالاعلان کی۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی اچھے کام کے لئے لوگوں کو ابھارنا مقصود ہو تو اس کو خفیہ دینے کے بجائے اعلان کرکے دینا بہتر ہے۔ رہ گیا معاملہ طریق کار کا تو اس سلسلے میں جو بہتر سے بہتر تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے جس سے کسی لینے والے کی عزت نفس پر ضرب نہ پڑے اسے اختیار کرنا چاہئے‘‘۔
یہ تو اس تنظیم کی بات تھی جس کی ملک میں ایک ساکھ ہے اور جس کے کیڈر کی تعداد بھی بڑی ہے جو صدق دلی سے اپنے رہنمائوں کے فرمان کو بجا لاتے ہیں۔حیرت تو ان تنظیموں پر ہے جنہوں نے اپنے اباء واجداد کی خدمات کے آڑ میں اسےبزنس بنا رکھا ہے۔غالباً گذشتہ برس کی بات ہے جب مشہور عالم دین مولانا محمد سالم قاسمی صاحب کے خانوادے سے وابستہ محمد عاصم قاسمی نے اپنی بہن عظمیٰ ناہید صاحبہ کے توسط سےممبئی کے غریبوںمیں ’’فوڈکٹ‘‘ تقسیم کرنے کا پلان ممبئی کے اہل خیر حضرات کو سمجھایا تھا۔بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیرون ملک سے ڈگریاں لے کر لوٹے عاصم قاسمی احمد زکریا ہال میں اہل خیر کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگےکہ ’’ہم تمام چیزیں دہلی میں پیک کروائیں گے اور اسے ممبئی میں تقسیم کریں گے‘‘اہل خیر میں سے کسی نے یہ کہا کہ ’’آپ کو اگر ممبئی میں ہی اس سے سستے میں تمام چیزیں فراہم کردی جائیں تو کیا پھر بھی آپ دہلی میں ہی تمام سامان خریدنا چاہتے ہیں؟‘‘جس کے جواب میں بھی عاصم قاسمی نے یہی کہا تھا کہ ’’چونکہ ہمیں سہولت دہلی میں حاصل ہے اسلئے آپ کام ہم پر چھوڑ دیں‘‘۔واضح رہے کہ پروگرام کے خاتمے کے بعد لوگ یہ کہتے ہوئے باہر کا رخ کرنے لگے تھےکہ یہ صاحب بھی اپنا بزنس ماڈل ہی لے کر ممبئی آئے ہیںاور ہم سے صرف چندہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چندہ ’’حلال‘‘بھی ہوجائے اور آئندہ اس میں اضافہ بھی ہو اس کے لئے نام نہاد تیظیموں کے ذمہ داران فوٹو سیشن کروانا نہیں بھولتے جبکہ عوام میں بینر پوسٹر لگا کر اس کی تشہیر کرتے ہیں اور ان بینر پوسٹر کی تصویر بطور ریکارڈ رکھتےہیں تاکہ آئندہ اس کا بہتر استعمال کیا جاسکے۔