کہیں آپ کی زکوٰۃ غلط ہاتھوں میں تو نہیں جارہی ہے !!!

Zakat

مرزاعبدالقیوم ندوی

سکریٹری تنظیم فارغین جامعات

جس طرح بچے اسکول کی گھنٹی کی آہٹ سن کر ہی کلاس سے باہرنکل جاتے ہیں،اسی طرح آپ کو امام صاحب کے لفظ رحمۃ اللہ کہنے سے قبل سفراء حضرات یہ اعلان کرتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ ’’فلاں دارالعلوم یاجامعہ ،مدرسہ عربیہ میں غریب ،نادار،مسکین،فقراء ویتیم بچے زیر تعلیم ہیں جن کے طعام و قیام ،تعلیم و تربیت کے تمام اخراجات مدرسہ کے ذمہ ہیں، سالانہ خرچ لاکھوں میںہے ،مزید جدید عمارتیں زیر تعمیرہیں،ان کے لیے بھی لاکھوں روپیے درکار ہیں۔یہ سب آپ جیسے اہل خیر حضرات کے تعاون سے چلتا ہے …….
اس طرح کے اعلانات تقریباََ ہر مسجد میں سنائی دیتے ہیں ۔ہم یہ بات واضح کردیناچاہتے ہیں کہ ہم مدرسہ کے نمک خوارہیں، نہ صرف نمک خوار ہیں بلکہ وفادار بھی ہیں ۔اس تحریر کوکسی ادارے یا ادارہ والوںکی توہین وتذلیل پر محمول نہ کیا جائے بلکہ اس کا مقصد خالص اللہ او ر اس کے رسول ﷺکے نام پر ملت اسلامیہ کی حلال وجائز کمائی سے نکالی جانے والی اربوں روپیوں کی زکوۃ کوصحیح مصرف میں جٹانامقصود ہے۔ مذہب کی آڑمیںجو جرائم ہمارے اندر پیداہوگئے ہیںیا دین کے نام پر جو گورکھ دھندے لوگوں اپنالیے ہیں،ان کے کرتوتوں ،دین کی خواہشات کے مطابق تشریح و تعبیر کرنے والوں،منبر ومحراب کے قریب کھڑے ہوکر جھوٹ بولنے والوں کی پرفریب باتوں اور لچھے دار اعلانات کے فریب میں نہ آکر ملت اسلامیہ کے مجبور،غریب ،فقراء ،مساکین اور گلی گلی میں بیٹھے سودخوروں کے جال میں پھنسے ہوئے مقروض و مجبو ر ولاچارلوگوں کو ان کا حق دلانا مقصود ہے۔ ہمیں سفراء اور فقراء میںفرق کرنا مشکل ہوگیا ہے ۔(وہ مدارس قابل تعریف و قابل تقلید ہیں جو مدرسہ میں آنے والی ہر ہر پائی کا حساب رکھتے ہیں ۔جن کے یہاں خردبردکا تصور ہی نہیں ،جو خاموشی کے ساتھ دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں،جن کے اساتذہ خوف خدااور عذاب آخرت ،یتیموں کا مال کھانے والو ں کے سلسلہ میںجو وعیدیں وارد ہوئی ہیں ان سے کانپ جاتے ہیں،جن کا مقصدصرف رضائے الہی ہے ۔جودنیا کی زندگی پر آخرت کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ۔جن کا ظاہر و باطن لوگوںپر واضح ہے جن کے قول وفعل میں تضاد نہیں ،جو سرمایہ کاروں دولتمندوں کے دروں پرپڑے ہوئے نظر نہیں آتے ہیں ،بلکہ سرمایہ کار ومالدار ان کے درپرمسجدو مدرسوں کی چٹائیوں پر ان کے سامنے دوزانو ہوکر اپنے مال کو صاف وپاک کرانے کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ایسے تمام لوگوں کااجر اللہ کے پاس محفوظ ہے اور وہی اس کی جزاء بھی دے گا)ہم ذیل میں کچھ باتیں و حقائق اہل خیر حضرات کے خدمت میں بڑے ادب احترام کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کررہے ہیںاوران لوگوں سے معذرت خواہ ہیں جو مذکورہ بالا کاموں وکارناموںسے اپنے آپ کو بچانے میں ناکام نظر آتے ہیں اور ذاتی منفعت اور خواہشات سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں ۔
ایک مدرسہ ہے جس میں صرف دودرجن طلباء زیر تعلیم ہیںاور ان کی تعلیم و تربیت پر آٹھ معلمین مامورہیں۔ دوسرا ایک مدرسہ ہے جس میں پڑھنے والے طلبا کی تعداد 40 جبکہ پڑھانے والے 25ہیں جس کا سالانہ خرچ 15لاکھ ہے جس کی عالیشان عمارت بھی ہے ۔ مدرسے مرثیہ خواہ ہیں کہ طلباء نہ رہے۔اور اساتذہ خوش ہیں کہ ہم کو مفت کی تنخواہ مل رہی ہے کوئی پڑھنے پڑھانے کی ضرورت نہیں۔بس صرف چندہ کرنا ہے اور عیش کے ساتھ زندگی گزارنا ہے۔ایک صاحب میرے پاس آئے انہوںنے کہا کہ ’’ایک مدرسہ ایساہے ،جہاںطلباء سے زیادہ سفیر ہیں اور یہ مدرسہ بہت دور نہیں اورنگ آباد ضلع ہی میں ہے۔ایک مفتی نے تو کمال ہی کردیا مدرسہ کی زمین اپنے نام کرالیا،جب لوگوںنے اس سے باز پرس کی تو کہنے لگا کہ میں بہت جلد مدرسہ کی زمین مدرسہ کے نام کردوں گا ،یہ وعدہ یقین دہانی و ہ ایک ہزار مرتبہ سے زائد بار کراچکا ہے۔(عنقریب ہم اس مفتی کے کارنامے عوام ا لناس کے سامنے پیش کرنے والے ہیں،لاکھوںکا حساب بھی اس کے ذمہ باقی ہے۔یتیموں غریب نادارطلباء کے لاکھوں روپیہ اس شخص نے ہڑپ کرلیے ہیں،جعلی رسیدیں،اسٹمپ،جعلی بل سب کے ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہیں۔مراہٹواڑہ کے تمام مفتیان کے سمجھانے کے باوجود وہ شخص مدرسہ کو نقصان پہنچانے سے باز نہیں آرہا ہے۔)
زکوۃ میں تملیک شرط ہے یعنی مالک بنانا شرط ہے،اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ذمہ داران مدارس کس طرح سے تملیک کراتے ہیں۔جو زکوۃ ادا کرتے ہیں ان پر لازمی ہے کہ وہ مستحق کے ہاتھ میں رقم دیں۔اس کو مالک بنائیں۔ورنہ آپ کی زکوۃ ادا نہیںہوگی۔اس پر تمام لوگوںکا اتفاق ہے۔ ہم جو زکوۃ ادا کرتے ہیں کیااس میں تملیک پائی جاتی ہے ؟
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ:مسجد و مکتب میں پڑھنے والے طلباء کی تصویر یں اورمسجدواس سے متصل کمروں کی تصویر یں یہ حضرات ساتھ لے کر چلتے ہیںاور عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ ’’صاحب ہمارے مدرسہ میںاتنے طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں ،یہ ان کی تصو یر یں ہیں۔عام طورسے مسلمان زکوۃ ان مدارس کودیتے ہیں جہاں طلباء دارالاقامہ میں رہتے ہیں۔جن کے طعام وقیام اور تمام اخراجات ان کے ذمہ ہوتے ہیں۔مگریہ بازیگر مسجدوں میں چلنے والوں مکتبوں کو مدرسہ بتلاکر عوام سے صدقہ ،خیرات و زکوۃوصول کرتے ہیں ،جو کسی بھی شکل وصورت میں جواز کے دائرے میں نہیں آتا ۔ایسا بھی ہورہا ہے کہ مختلف شہروں میں گھروں پر مکاتیب چلائے جارہے ہیں ،بچوں سے فیس بھی لی جارہی ہے اور رمضان میں زکوۃ کامد بھی وصول کیاجارہاہے اور عیدالاضحی میں چمڑے بھی جمع کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گھروں میں لڑکیوں کے مدرسہ چلائے جارہے ہیں میاں بیوی اور بچے جملہ اسٹاف ہے،وہ بھی دھڑلے سے چندہ جمع کررہے ہیں ،انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ عوام اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے زمین وقف کرتے ہیں کہ اس پرمسجدو مدرسہ تعمیر ہوسکے یہ حضرات اس کی رجسٹری اپنے نام کر لیتے ہیں(ان دعوؤںو باتوں کے ثبوت ہمارے پاس موجودہیں۔) ایک اور طریقہ یہ کہ چندہ کی رقم رمضان میں جمع ہوتی ہے،چندہ کرنے والے اسے اپنے استعمال میں لیتے ہیں اور حسب ضرورت مدرسہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ بعض مرتبہ تو ان میں آپس ہی میں جھگڑاہوجاتاہے ۔مدرسہ کی جو رجسٹرڈباڈی ہوتی ہیں وہ اکثر اہل خانہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔ میاں صدر ،بیوی سیکریٹری،بیٹا و برادرنسبتی ممبرہوتے ہیں ۔ کئی دھوکہ بازوں نے مدرسوںکی زمینیں اپنے نام کرا رکھی ہے ،جب ان سے انتظامیہ کہتا ہے کہ بھا ئی، لوگوں نے یہ زمین آپ کو نہیں دی بلکہ مدرسہ کے لیے وقف کی ہوئی ہے آپ نے اس کوکیوں اپنے نام کرلیا ہے ،یہ اللہ واور اس کے رسول بلکہ دین کے دشمن جواب دیتے ہیں کہ’’ جاؤ جو کرنا ہے کرلو ‘‘کچھ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو چندے کی رقم کو ذاتی مکان خریدنے ،زمین پلاٹ خریدنے ،بلکہ بچوں کی شادیوں میں تک استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہوئے بھی نہیں شرماتے کہ ’’ہم بھی تو مستحق زکوۃ ہیں ،کیا ہوا جو ہم نے استعمال کرلیا‘‘۔ایسا بھی دیکھنے میںآرہا ہے کہ مدارس والے سفراء کو کمیشن پر مامور کررہے ہیں اس کا فیصد50-60سے تجاوز کرچکاہے ۔ یہ کمیشن خور حضرات بھی مدارس کو رقم یکمشت ادانہیں کرتے وہ اپنے تصرف میں لاتے رہتے ہیںاور حسب ضرورت و فرمائش مدارس کو اداکرتے رہتے ہیں،ایسے بے شمار سفراء ہیں جن کی طرف مدرسے والوں کے لاکھوں روپیے چندے کے باقی ہے۔ ایک مولوی صاحب سے برسو ں بعد ملاقات ہوئی محترم پہلے کے مقابلہ کافی صحت مند نظر آئے ،ہم نے کہابھائی کونسی چکی کا آٹا کھا رہے ہو کچھ ہمیںبھی تو بتاؤاوریہ بھی بتاؤکے آج کل مصروفیت کیا ہے ؟انہوںنے کہا کہ یار ’’میںفلاں مدرسہ کا چندہ کررہا ہوں ‘‘اچھا !تو ہم نے برجستہ کہا یعنی کہ آج کل چندہ کھارہے ہیں۔
بے شک دینی مدارس کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مسلم ہے ،اس سے کوئی بھی ذی عقل مسلمان انکا رنہیں کرسکتا ہے۔مداراس کا ماضی واقعی شاندار تھا اور آج بھی تابناک ہے ،مستقبل کے بارے میں البتہ اندیشے ہیں کہ کہیں لوگ اس کو اپنی ذاتی ہواو ہوس کا ذریعہ نہ بنالیں ۔علماء حق وملی نتظیموں کو اس سلسلہ فوری توجہ کی ضرورت ہے ،بلکہ کے ہر شہر کے صاحب سمجھ حضرات علماء کرام کے صلاح ومشورہ سے یہ بات طئے کریں کہ مدرسے کی اصل ضرورت کہا ں ہے ،وہ کون لوگ کھول سکتے ہیں ،کیا وہ مدرسے چلانے کے اہل ہے ،ان کا ماضی کیا ہے ،اخلاق و کردار،معاملا ت و معاشرت وہ کہا ں تک کھرا اترتا ہے ۔
قرآن کریم میںزکوٰۃکا ذکرمتعددبار آیا ہے اوراس نے مصارف زکوٰۃ کو بڑی تفصیل ووضاحت سے بیا ن کردیا ہے تاکہ زکوٰۃ کی تقسیم حاکم وقت کی اپنی مرضی پرموقوف نہ رہے اور اس پرحکمرانوں کا تعصب اورانکے اپنے مفادات راہ نہ پاسکے۔اور اسی طرح ان لالچی لوگوںکوبھی ان کی حدود میںرکھا جائے جوایسے مال کو حاصل کرنے سے خدا سے نہیںڈرتے جسکا حصول ان کے لیے روا نہیںہے اورجومعاشرتی زندگی میںاپنے زور بازو سے اہل حاجت اورتنگدست لوگوں کے حقوق غصب کرنے سے گریز نہیںکرتے ۔
عہدنبویﷺ میںکچھ لالچی لوگوں نے صدقات میںحصہ لینے کی خواہش ظاہرکی مگرجب آپﷺنے ان کی خواہش کورد کردیا تو انہوں نے سرورکائناتﷺ کوالزامات لگانے شروع کیے تواس پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ترجمہ(اے نبی ان میںسے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میںتم پر اعتراضات کرتے ہیں ۔اگراس مال میںسے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہوجائیں اور نہ دیاجائے تو بگڑنے لگتے ہیں ۔ کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اوررسول نے جو کچھ بھی انہیںدیا تھا اس پر وہ راضی رہتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے ۔ ……..سورۃ توبہ 58تا60۔مکمل آیت کی تفیسر وتشریح اپنے پسند کی تفسیر میںپڑھ لیجئے ۔ مذکوربالاآیت کی روشنی میں وہ لوگ اپنا جائزہ لیں جو زکوٰۃ وصدقات کوغلط طریقے سے اورمصارف زکوٰۃکی غلط توضیح و تشریح کرکے جمع کرتے ہیں اور فقراء ومساکین اور دیگرمستحقین کا حق مارتے ہیںاوراسی کودین سمجھے ہوئے ہیں ۔ کل قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا کہ اصل حقیقت کیا تھی۔
ہم نے درج بالا سطور میں یہ بات بتانے کی کوشش کی ہے کہ مدارس کے نام پر کس طرح کچھ غلط لوگ ملت اسلامیہ کا قیمتی سرمایہ’’زکوٰۃ ‘‘کا استعمال اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے کررہے ہیں۔اخبار میں مضمون شائع ہونے کے بعد بے شمار لوگوں نے مضمون نگار سے کئی جعلی مدارس کی نشاندہی کی اور ایسی ایسی باتیںبتلائیں کہ سرپکڑکر رہ گیا ۔سرے سے مدرسہ کا وجودہی نہیںاورحضرت والا چندہ جمع کررہے ہیں۔ایک مدرسہ والے نے تو غضب کردیا کہ طلباء کی تعدادکوسوگنا زیادہ بتادیایعنی 17طلباء کو بتایا170۔ایک صاحب گھر میںلڑکیوں کا مکتب چلاتے ہیںبمشکل 10طالبات وقتاََوفوقتاََپڑھنے کے لیے آجاتی ہیں،موصوف دیڑھ سو کی تعدادبتلاکرزکوٰۃصدقہ فطرہ اور حدتو یہ ہے کہ قربانی کے چرم تک جمع کرلیتے ہیں۔ایک عجیب انکشاف ہواکہ مدرسہ کے ناظم صاحب سفراء کو5000ہزارمیں رسید بک بیچ دیتے ہیں،اب سفراء اس کے مالک ہوگئے ،جتنا چاہئے جمع کریں اس کو مدرسہ والوں کو کچھ لینا دینانہیں۔ باوثوق ذرائع سے یہ باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ہمارے علاقے کے وہ مدرسے جوصرف گھروںکی شکل میںہیںاندر سے غیر آباد باہرسے آبادنظرآتے ہیں، اب تو وہ لوگ بھی انٹرنیشنل سطح پر چندہ وصول کرنے لگے ہیں ،اسمیںانہیں دنیاوی فائدہ تونظرآتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ وہ دینی عینک لگاکر دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیںکہ عمرہ کی سعادت بھی نصیب ہوتی ہے اورپھرجتنا چندہ جمع ہوگیا اشیاء مایحتاج ومالا یحتاج ،سب خریدکربھارت نہایت ہی کامیاب وکامران لوٹا جاتا ہے۔ ہمیںیہ عرض کرنا ہے کہ ع کعبہ کس منھ سے جاؤگے……….
ملت اسلامیہ کا سرمایہ جہاں غیر اہم اوربے ضرورت قسم کے لوگ مدرسوں کے نام پر وصول کررہے ہیں واقعۃ اگروہ خود مستحق زکوٰۃ ہے توپھرعاملین بن کرمکمل ہضم کرنے کی اجازت نہیںہے اورعاملین مصرف زکوٰۃ میںخودمختارہرگز نہیںہیں،بلکہ امیرملت اور خلیفہ وقت اس کا مجاز ہے کہ وہ عاملین پراس مدسے خرچ کرے نہ کہ عاملین خود ہی زکوٰۃ اپنے لیے حلال کرلے۔
کیاصرف مدرسے والے ہی زکوٰۃجمع کرتے ہیں ؟؟؟
قرآن کریم میںمستحقین زکوٰۃکا تذکرہ بہت صاف وواضـح الفاظ میں کیاگیا ہے ۔ مسلمانوںمیں،نماز،روزہ ، حج کے تمام واجبات ومستحبات پر عمل پیرا ہونے پر زبردست جوش و جذبہ پایا جاتاہے بلکہ ان ارکان کے جزئیات،فرائض ،واجبات ،سنن اور نوافل پر بہت زوردیا جاتاہے۔بلکہ مسائل نماز،واجبات ،سنن ونوافل کی وجہ سے مسلمانوںمیںزبردست مسلکی جھگڑے پائے جاتے ہیں،ان مسائل کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی اپنی مسجدیں الگ بنالی ہیں۔ حیرت انگیزدطوریہ بات سامنے آتی ہے کہ زکوٰۃ کے جوآٹھ مصارف بیان کیے گئے ہیں ان پرعمل آوری پرکوئی بحث ومباحثہ،کوئی کامیاب کوشش ہوتی ہوئی نظرنہیںآتی۔ زکوۃ کے جوآٹھ مصارف ہیں ان میں ایک ’’فی سبیل اللہ ‘‘ بھی ہیں ،یعنی اللہ کے راستے میںکام کرنا،فقہاء اور علماء متقدمین نے اس کوصرف غزوہ اورجہاد عسکری کے ہی معنی میںلیا ہے ۔ لیکن آج وہ تما م کام جس کا تھوڑا بہت بھی تعلق دینی کاموں میںشمارہوتا ہے،اس کے لیے بھی زکوٰۃ جمع کی جارہی ہے۔ مسلمانوں میںتقریباََجماعتیں وتنظیمیں،فاؤنڈیشن اوراسلام کے نام پرجگہ جگہ جاری ریسرچ سینٹروہ بھی’’فی سبیل اللہ ‘‘کے مصرف میں مسلمانوں سے اربوں کی زکوٰۃ جمع کررہے ہیں ۔جن میںبہت سی تنظیمیں و جماعتیں تو ایسی ہیں نماز کے معاملہ میںصرف قرآن وحدیث پر ہی عمل کرنے کوفرض سمجھتی ہیں، آئمہ اربعہ فقہاء کرام کی تشریحات و توضیحات کونہیں مانتی وہ بھی زکوٰۃ کے وصول کرنے اور خرچ کرنے کے معاملہ میںفقہاء و آئمہ اربعہ کے دلائل کا سہارا لیتے ہوئے نظرآتی ہیں۔جس طرح ایک ہی شہرمیںکئی مدرسے ہوتے ہیں اسی طرح ایک ہی شہرمیں کئی تنظیمیں و جماعتیںہوتی ہیں جوزکوٰۃ کا مال جمع کرتی ہیں،مسلمانوںکا بھی عجیب دوہرامعیار ہے کہ وہ اہل مدارس کوتو نام رکھتے ہیںمگر ان جماعتوںوتنظیموںسے کوئی بازپرس نہیںکرتے۔کیا واقعی یہ لوگ قرآن و حدیث میں جن مصارف زکوٰۃ کا ذکرہے اسی نہج پر خرچ کرتے ہیں؟۔یہ لوگ عید الاضحی کے موقعہ پرچمڑے بھی جمع کرلیتے ہیں ۔بہت سے شہروں میں بیت المال قائم ہیں ان میںبے اعتدالیاںاور کوتاہیاںہوتی ہوئی نظرآتی ہیں۔ مدارس کے علاوہ اداروںمیںجب مستحقین پہنچتے ہیں تو ان سے دنیا بھر کی سفارشات ،پہچان طلب کی جاتی ہے،اسمیں کوئی شک نہیں کہ تحقیق ضرور ی ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیںہے کہ دوسرے کے مال پر وہ بھی مستحق ہی کواپنی چودہراٹ کے خاطراپنے آفس کے چکر کاٹنے پرمجبورکیاجائے۔ارے جب اللہ نے ان کو مستحق قرار دیا ہے توہم کون ہوتے ہیں،ان سے بازپرس کرنے والے،ضرورت مند وحاجت مند اگرگھوڑے پرسوار ہوکر بھی آرہا ہے تو اسے دینے کا حکم ہے۔فی سبیل اللہ کی تعریف میں مدارس کے طلباء کے داخل ہونے کی بہت حدتک گنجائش موجود ہے ،لیکن کانفرنسوںکے انعقا د،ان کے اشتہارات ودیگر کتب کی طباعت اورمسلکوںو جماعتوںوتنظیموںکے تعارف واشتہارپرخرچ کرنے کی کسی بھی مجتہدوفقہی اورمتاخرین و متقدمین کی کتب میں ذرہ برابرگنجائش نظر نہیںآتی ۔ ہمارے علم میںاضافہ ہوگا کہ فلاںمقام وشہرمیںمیںفقراء ومساکین،مسافر، مقروض اورغلاموں کوآزادکرانے یعنی فی سبیل اللہ کے علاوہ مصارف پر کام ہوتاہے،فلاںجماعت یاتنظیم اس کا اہتمام ونظم کرتی ہے۔بس جوکچھ کام مصارف زکوٰۃ میںسے ہوتا ہوا نظرآرہاہے وہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کے مد ہی میںملت کی تقریباََ زکوٰۃ خرچ ہوتی ہوئی نظرآتی ہے۔ بہت سے افراد اسلام سے زیادہ اپنے خود ساختہ نظریات ،مجہول ومبہم خیالات اور غیر مانوس و شاذ روایتوں کا سہارالے کر اسلام کے نام پر الگ الگ دکانیںسجائے بیٹھے ہیں۔آج کل موبائل اور انٹرنیٹ پرای میل وپیغامات کی بھرمار ہے۔ہماری یہ سمجھ میں نہیںآتا کہ جب قرآن نے مصارف زکوٰۃ میںترجیح و فوقیت فقراء ومساکین کودی ہے تو یہ زکوٰۃ جمع کرنے والے لوگ ان کے لیے کیوں نہیں کوئی ٹھوس و مستقل حل تلاش کرتے ہیں۔؟ہم سمجھتے ہیںکہ زکوٰۃ کے مال سے دین کی نشر و اشاعت ،تبلیغ وترویج کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ غریب و مجبور،مقروض ومفلوک مسلمانوں کو معاشی طورپرمستحکم بنانے کی ہے ۔ان کے روزگار ،صحت وتعلیم ، مطلقہ و بیوہ عورتوں کے مسائل ،جیلوںمیںبند ہزاروں مسلمانوں کی رہائی ومقدمہ کی پیروی ،ان کے اہل وعیال کی کفالت و اعانت کی ضرورت ہے اتنی کسی بھی جماعتی وتنظیمی کاموں کی نہیںجوصرف دین کی نشرو اشاعت کو ہی زکوٰۃ کے مال سے چلانا چاہتے ہیں۔
آج لاکھوں مسلمان گلی گلی میں بیٹھے سود خوروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیںجن کی سود اور قرض کی رقم ادا کرتے کرتے مقروضوں کے بال بچے سڑکوں پرآگئے ہیں۔ پورے ملک میںہمیںکوئی ایسی تنظیم،جماعت ،ٹرسٹ ،فاؤنڈیشن یاریسرچ سینٹر ایسا بتایا جائے کہ جو زکوٰۃ کے اس مصرف ’’الغارمین‘‘ ضروت مندمقروض لوگوں کے لیے کام کرتے ہوں۔ یا زکوٰۃ کے اس مصرف’’ابن ا لسبیل‘‘مسافروںکا توتذکرہ ہی مت کیجئے، اس مد کو تو یہ زکوٰۃ کے مال سے دینی کام کرنے والے شاہد ہی جانتے ہوں؟ ۔ ’’فی الرقاب ‘‘غلاموں کی آزادی ،اب انسانوںکو غلام بناناان کی خرید وفروخت کرنا کہیں پایانہیںجاتا،اس لیے عصر حاضر کے تناظر میں علماء کرام نے اس مد کوجیلوں میں بند مسلمانوں کی رہائی اور ان کے مقدمہ کی پیروی کے لیے استعمال کی اجازت دی ہے۔ اس وقت پورے ملک میں جمعیۃ العلماء ہند ،مسلمان قیدوں کوجیلوں سے رہائی اور ان کے مقدمہ کی پیروی کی لیے کوشاں ہے(اللہ ان کی نصرت واعانت کرے اوران وکلاء کی حفاظت فرمائے جو ان کے لیے کام کررہے ہیں)اس جماعت کے خاطرخواہ نتائج بھی دیکھنے کومل رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ملک میںجب بھی کبھی کوئی آسمانی آفت یا ملک میںآئے دن ہونے والے فسادات ،(آسام ،گجرات،برما )کے موقعوںپر جماعت اسلامی ہند،جمعیۃ علماء ہند،ملی کونسل ودیگر جماعتیں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلموںکی بھی اعانت کرتی ہیں۔ہمیںان مدرسوں،جماعتوں و تنظیموں،ٹرسٹوں کی خدمات اعتراف ہے جوصحیح اسلامی نہج پرزکوٰۃ مال خرچ کرتے ہیں،اللہ کام کرنے والوں کواجر عظیم سے نوازیں۔
ملت اسلامیہ اگر زکوٰۃ کے ثمرات و اثرات کودیکھناچاہتی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن وحدیث میںزکوٰۃ کے تقسیم و وصول کے جوطریقے بتائے گئے ہیں ،اس پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تو انشاء اللہ زکوٰۃ سے مسلمانوں کی سماجی ومعاشی ،دینی ومذہبی صورتحال پر انقلابی و نمایاں تبدیلی محسوس کی جاسکتی ہے۔ (انشاء اللہ)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *