
اسلامی فلسفہ معاش ہی انسانیت کا آئینہ دار ہے
عمرفاروق راشد
بزنس آپ بھی کرتے ہیں اور ایک غیرمسلم بھی۔ آپ بھی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے تگ و دو کرتے ہیں اور ایک کافر بھی یہی سوچ رکھتا ہے۔ آپ بھی ایک آئیڈیل زندگی گزارنے کے لیے خواب تراشتے اور جسم کو گھلاتے ہیں اور وہ شخص بھی جو اللہ کا منکر ہے۔ آپ بھی بزنس کی دنیا میں کاروباری حریفوں اور مارکیٹ کا خوب مقابلہ کررہے ہیں اور اسلام بیزار بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ہمیں خود سے سوال کرنا ہے، ہم میں اور غیرمسلم میں کیا فرق ہے؟ کوئی فرق ہے؟ یا کسب معاش کی اس دنیا میں، ’’پیٹ پوجا‘‘ کی اس فکر میں اور اسٹیٹس کی اس دوڑ میں وہ اور ہم برابر ہیں؟سوال بہت آسان اور جواب آسان تر ہے۔
ہم میں اور ان میں فرق صرف سوچ کا ہے۔ مگر وہ سوچ دو ملکوں کے درمیان ایک سرحد کی مانند کی ہے۔ وہ سوچ سیاہ اور سفید کی طرح جدا کر کے رکھ دیتی ہے۔ وہ سوچ بہت سے نتائج پر اثر انداز ہوتی ہے۔
معیشت یا معاش دراصل دو قسم کی ہے: ایک حیوانی معیشت، دوسری انسانی معیشت۔ حیوانی معیشت کے مطابق زندگی کھانے پینے کے واسطے ہے، جبکہ انسانی معیشت کی رو سے کھانا پینا زندگی گزارنے کے لیے ہے اور زندگی کسی خاص مقصد کے لیے ہے۔ فارسی میں اسے یوں تعبیر کرتے ہیں: زیستن برائے خوردن یا خوردن برائے زیستن۔ اسی سے حیوانی اور انسانی معیشت کا فلسفہ بھی واضح ہو گیا۔ سارے حیوان پہلے فلسفے کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں۔ گدھے اور بھیڑیے کی زندگی کا مقصد بس کھانا پینا ہے۔ اپنا کھائے یا کسی کا۔ حلال یا حرام کی کوئی تقسیم نہیں۔ وہ خود کو کسی قانون کا پابند نہیں سمجھتا۔ دوسری جانب انسانی معیشت ہے۔ جہاں کھانا ہی زندگی کا مقصد وحید نہیں۔ بلکہ عظیم تر مقاصد کے حصول کے لیے وہ بس ایک ذریعہ ہے۔
یہ انسانی فلسفہ معیشت ہی اسلامی فلسفہ معیشت ہے۔ یہاں زندگی حیوانوں کی مانند نہیں گزاری جائے گی۔ یہاں زندگی کا ایک مقصد پوری وضاحت کے ساتھ سب کے سامنے ہے۔ کچھ اصول وقوانین کی پابندی موجود ہے۔ سب جائز نہیں، کچھ ناجائز بھی ہے۔ سارے انسان آخرت کے سفر کی طرف گامزن ہیں۔ اور اس آخرت کی کامیابی کا انحصار اسی فلسفہ معیشت پر ہے جو اسلام ایک انسان کو دیتا ہے۔
اب دونوں طرح کے فلسفہ معیشت میں موازنہ کیجیے۔ مغرب ہمیں جو کچھ سکھاتا، بتاتا اور دکھاتا ہے، وہ در اصل حیوانی فلسفہ معیشت ہے۔ جہاں ساری دنیا اور لوگوں کو صرف اپنی ذات کے محور کے گرد گھمانے کا تصور ہے۔ جہاں حلال و حرام کی یوں ہی تمیز نہیں جیسے ایک حیوا ن کے نزدیک نہیں۔ جہاں خواہشات کی کوئی حد نہیں۔ جہاں اپنے فائدے کے لیے دوسرے کا نقصان بالکل روا ہے۔ جہاں شہوت پوری کرنے کا وہی طریقہ ہے جو گدھے کا ہے۔ جہاں ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کی صدائے احمقانہ ہے۔
اسلام نے دین فطرت ہونے کے ناتے انسانی فطرت کے عین مطابق طرز زندگی عطا کیا ہے۔ وہ ہماری کسی خواہش کو دباتا نہیں، مگر بے لگام بھی نہیں چھوڑتا۔ اس نے حدود و قیود کے ایسے زائچے ترتیب دے دیے ہیں، جن کی رعایت کرنے سے انسان زندگی کے کسی موڑ پر بھی بند گلی میں نہیں پہنچتا۔ وہ مسلسل ترقی کے مدارج طے کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ جسمانی اور روحانی دونوں طرح کے سکون اور چین سے مالا مال ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اگر مغرب کے طرز زندگی میں مثالیت تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو نرا خسارے کا سودا ہو گا۔ حیوانیت کی طرف بڑھنے کے مترادف ہو گا۔ اللہ کے قانون سے بغاوت شمار ہو گی۔
سو، اب ہمیں فیصلہ کرنا ہے، حیوانی نظام معیشت اور اسلامی نظام معیشت میں کسے اختیار کرنا ہے۔ہمیں پورے طور پر دین میں داخل ہونے کا عزم کرنا ہے۔ شریعت کے احکام کی روشنی میں چیزیں تین قسم کی ہیں: واضح حرام، مشتبہ (جن کے حرام ہونے میں شبہ ہے) اور مباح (جن کے حلال ہونے میں کوئی شبہ نہیں)۔ ان میں سے پہلی دو طرح کی چیزوں سے مکمل اجتناب ضروری ہے۔ حدیث پاک میں ہے: جو جسم حرام مال سے پلا، وہ جنت میں جانے کے قابل نہیں۔ ایک اور حدیث پاک میں ہے:حرام واضح ہے، حلال واضح ہے اور ان کے درمیان مشتبہات ہیں۔ فرمایا: حرام کی طرح مشتبہات کو بھی چھوڑ دو۔
آپ مغرب طرز زندگی کو اس کی ظاہری چکا چوند سے ہٹ کر ذرا حقیقت کی نگاہ سے دیکھیے اور پھر دین اور دینداری کو مضبوطی سے لازم پکڑیے۔ آپ ایک مثالی زندگی کے مالک بنیں گے۔جو انسانیت، فطرت ، مذہب، ترقی اور سکون کا ایک عظیم سنگم ہو گی۔