
پیرس کا سانحہ سب کے لئے سبق آموز ہے

ڈاکٹر سید ظفر محمود
جنوری 2015 میں فرانس کے چارلی ہبڈو میگزین پر حملے نے ایک ایسے طوفان کے خطرے کو سامنے لا کھڑا کیا ہے جو دنیا میں دو دہائیوں سے زیادہ سے پنپ رہا ہے حالانکہ یہ مختلف مذہبی فرقوں کے مابین وہ توازن برقرار رکھنے کے لئے تباہ کن ہے جو انسانیت اور کائنات میں دیگر عناصر کے بامقصد وجود کے لئے ضروری ہے۔اس مصیبت کے لئے ذمہ دار لوگ تنگ نظری‘ خود پسندی اور حرص و حوس کے مریض ہیں۔ فسلطین کی خود مختاری پر مستقل وار‘ افغانستان کی سرحد پر طالبان کو فروغ‘ 9/11 کے بعد عراق اور افغانستان پر تباہ کن حملے‘ شیعہ اور سنیوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینا ‘ اپنے لئے کم قیمت پر عربی تیل کی سپلائی کو یقینی بنانا‘ خلیجی ممالک کی تابع فرمان سلطنتوں کی پذیرائی ‘ عراق اور لیبیا کے حکمرانوں کی معزولی کیونکہ ان میں سر اٹھانے کی جرات تھی اور وہاں جمہوریت قائم کرنے کی ڈرامہ بازی ‘ مصر کی جمہوری حکومت کو اکھاڑ پھیکنا کیونکہ انھیں وطن کے مفاد کی خلاف ورزی منظور نہیں تھی‘ شام میں قتل و غارت گری‘ اور پیغمبر اسلام ؐ کی توہین پر اصرار ! ان تمام سازشوں نے بین الاقوامی سطح پر سیاسی گفتگو کے موضوع فراہم کئے اور ان کے ذریعہ قومی انتخابات میں مباحثہ کے لئے بنے بنائے مواد بھی سیاست دانوں کو ملتے رہے ہیں ۔ دوسری جانب اس آفت کا الزام مسلمانوں پر بھی عائد ہوتا ہے گو کہ کچھ مختلف زاویہ سے۔ ان مثائل کے تئیں ملت کی اندرونی لا پرواہی اور خود احتسابی سے انکار حالانکہ قرآن کریم میں اس کی تعلیم دی گئی ہے‘ خود کو نشانہ بنائے جانے کا حد سے زیادہ ملی احساس‘ ترقی میں پیچھے رہ جانے کا کل الزام صرف دوسروں پر دھرنے کا رویہ‘ مثبت ثابت قدمی کا فقدان‘ ملی فلاح کے لئے انفرادی ذمہ داری ادا کرنے سے گریز‘ قرآن کریم کی بنیادی تعلیمات پر بے عملی مثلاً یہ کہ تخلیق حیات کا مقصد ہے اﷲکے ذریعہ ہمارا امتحان کہ ہم میں سے کون زیادہ بہتر طریقہ سے دوسروں کی زندگی آسان بنانے میں لگا ہوا ہے (11.7) ‘ مجھے جو کچھ اﷲ نے بخشا ہے اس میں سے میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے لئے خرچ کروں اور باقی سب دیگر ضرورت مندوں کی فلاح پر لگائوں (2.219) ‘ مال کو پورے معاشرہ میں گردش کرنا چاہئے اور چند ہاتھوں میں ہی محدود نہیں رہنا چاہئے (59.7)‘ اپنے اعزا و اقربا اور پڑوسیوں کے دینی حقوق ادا کرنا میرا فرض ہے (4.1&36)‘ مجھے اﷲ کے متعدد پیغمبروں اور کتابوں کے مابیں تفریق نہیں کرنا ہے (2.285)‘ وغیرہ۔
پھر بھی دنیا میں زیادہ تر لوگ اچھے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اپنے ایک تازہ سرکولر کے ذریعہ اپنے مصنفین کو کتابوں میں ایسی کوئی بھی بات شائع کرنے سے منع کر دیا ہے جو سور یا اس سے مربوط کسی شئے سے منسلک ہو ۔ اس کا مقصد مسلمانوں اور یہودیوں کو کسی بھی طرح کی دلشکنی سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں ثقافتی و تہذیبی اختلافات اور احساسات کا لخاظ کرنا ہے۔ دنیا کی خاموش اکثریت آکسفورڈ کی اس اعلیٰ روایت کو سلام کرتی ہے۔لیکن دوسری سمت فرانسیسی وزیر اعظم نے پیرس کی سڑکوں پر حفاظت کے لئے 10,000 اضافی افراد تعینات کئے ہیںاور متنبہ کیا ہے کہ ’ہم حالت جنگ میں ہیں‘۔انگلش چینل کے دونوں طرف کی سکیورٹی فورسز کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ مزید حملوں کا اندیشہ ہے۔ یہودی اسکولوں کی حفاظت پر پولیس معمور کر دی گئی ہے۔ امیڈی کولیبالی (Amedi Coulibaly) کی موت ایک خاتون اور 4 یہودی یرغمالیوں کو قتل کرنے کے بعد ہوی اور مرنے سے قبل امیڈی نے یہ جتا دیا تھا کہ یہودی کی دوکان کو اس نے قصداً نشانہ بنایا کیونکہ اسے فلسطین میں مسلمانوں کے قتل کا بدلہ لینا تھا۔ ان نشانہ بند ہلاکتوں کے بعد لندن کے شمال مغربی علاقہ میں یہودیوں کی نجی حفاظتی گاڑیاں بھی گشت پر ہیں‘ جنھیں ’شامرم‘ کہا جاتا ہے۔ اس سنگین صورت حال میں ہمیں ٹھنڈے دل و دماغ سے بیٹھ کر غور کرنا چاہئے کہ میڈیا کے ایک گروہ کے ذریعہ ایک مخصوص مذہب کو بدنام کرنے کی حرکتوں کی حمایت میں اتنا بڑا خطرہ مول لینا اور اس کے لئے ملک و قوم کے قیمتی وسائل کو دائوں پر لگانا کہاں کی عقلمندی ہے ؟
اسی دوران چارلی ہبڈو نے اپنے تازہ شمارہ میں ’’میں چارلی ہوں‘‘ کی عبارت کے ساتھ پیغمبر اسلام ؐ کا ایک مزید خاکہ شائع کر دیا ہے۔ برطانوی مبلغ انعم چودھری نے اسے کھلی اشتعال انگیزی کہاہے۔ لیبر پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ خالد محمود نے برطانوی میڈیا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس کارٹون کو نہ شائع کریں۔ ’مسلم ایسوسیشن آف برٹین ‘ کے صدر عمر الحمدون بھی اس پر برہم ہیں۔ انعام یافتہ کالم نگار میتھیو نارمن (Matthew Norman) نے 14 جنوری 2015 کو مشہور برتطانوی اخبار ’دی انڈپنڈنٹ‘ (The Independent) میں لکھا کہ ’ہم سبھی چارلی نہیں ہیں‘۔ انھوں نے ٹی وی پروگرام ’ٹوڈے‘ کے بورس جانس کا جملہ نقل کیا کہ ’’چارلی ہبڈو کی ادارتی ٹیم نے جو کچھ کیا اس سے آپ کو چوٹ لگی ہو گی لیکن آپ کو یہ کارٹون شائع کرنے کے ان کے حق کی بہر حال مدافعت کرنی چاہئے‘‘۔ میتھیو نے اس کا جواب یوں دیا ہے: ’’ اشو یہ نہیں ہے کہ پیرس میں مرنے والوں کے ساتھ لفظی ہمدردی جتائی جائے۔ ہم ہوں یا آپ‘ نمایاں انداز میں پیغمبر کی تضحیک شائع کر کے ہم ایسے لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں جس طرح گذشتہ ہفتہ پیرس میں AK47 لے کر اپنے شکار کو تلاش کر رہے تھے۔ کیا بورس جانس خود گستاخانہ کاٹون شائع کر کے جارحیت کے مرتکب ہوں گے ؟‘‘۔ میتھیو نے آگے لکھا’’وہ صحافی جن کی زندگی اتنی خطرہ میں تھی کی انھیں برسہا برس سے پولیں کی حفاظت درکار تھی ‘ وہ یقیناًکوئی سنت نہیں تھے۔ تکلف بر طرف‘ میں قائل نہیں ہوں کہ وہ لوگ کسی مشن کی لڑائی لڑ رہے تھے۔چھیڑ خانی کرنا صرف ایک بے بس فرد کے خلاف ہی ہتھیار ہو سکتا ہے‘ عالمی عوامی تحریک کے مقابلہ یہ لاحاصل ہے۔جب حالیہ سانحہ کے اثرات کم ہو جائیں گے ‘ جب اس طرح کے قاتلانہ حملے آئندہ پھر ہوں گے‘ تب ہم یہ سمجھ لیںگے کہ چارلی ہبڈو اور اس کے ساتھیوں کی موتیں بے نتیجہ تھیں۔تاہم ‘ ہم یہ نہیں کر سکتے کہ خود کو فریب دیں کہ ہم چارلی ہیں‘‘۔
چارلی ہبڈو کے ایک بانی رکن 80 سالہ ہنری روسل نے میگزین کے مدیر پر الزام لگایا ہے کہ وہ لگاتار اشتعال انگیز کارٹون شائع کر کے اپنی ٹیم کو موت کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ Nouvel Obsm نامی میگزین میں چارلی ہبڈو کے مقتول مدیر کو ’مسخرہ‘ قرار دیتے ہوے ہنری نے لکھا ہے کہ وہ ایک ڈھیٹ شخص تھا۔یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس سے قبل چارلی ہبڈو کے سابق مدیر فلپ وائی نے میگزین کے ایک قابل کارٹون داں مورس سائن کو نوکری سے برخواست کر دیا تھا کیونکہ اس نے نکولس سرکوزی کے بیٹے کی ایک یہودی لڑکی سے شادی پر کارٹون شائع کیا تھا جسے اس نے یہودیت کے مخالف (Anti-Semetic)حرکت گردانا تھا۔ہندوستان کے قانون میں چارلی ہبڈو کی اڈیٹوریل ٹیم کی طرح کے لوگوں کے لئے سزا واضح کی گئی ہے۔ دستور ہند کے دفعہ 151A میں آپسی مذہبی بھائی چارہ اور خیر سگالی کو فروغ دینے کو شہریوں کا بنیادی فریضہ قرار دیا گیا ہے جس کی پامالی پر تعزیرات ہند (IPC)کے تحت قید اور جرمانہ عائد کرنے کا بندوبست ہے۔
عالمی سماج ایک دوسرے سے بندھا اور گتھا ہوا ہے۔ دنیا میں30% عیسائی‘ 25%مسلمان‘ 15% ہندو ‘ 7% بودھ مذہب کے ماننے والے اوردیگر متعدد فرقے ہیں جن میں سے 0.2% یہودی ہیں۔کسی بھی عقیدہ کے پیروکاروں کو نظر انداز کرنا حماقت ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے‘ کجا یہ کہ ان کی توہین کی جائے۔ ہر ایک کو ہر جگہ مشترکہ بنیاد ی پابندیوں کا لحاظ کرنا ہی ہو گا۔ لیکن چارلی ہبڈو اور دنیا میں کچھ سیاست داں لمبے عرصہ سے مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل و برہم کر کے امن عالم کے کوششوں کو کمزور کرتے رہے ہیں۔ دنیا میںسیاستدانوں کی پشتیں بدلتی رہتی ہیں‘ کچھ مذکورہ بالا قسم کی صورت حال سے ذاتی استفادہ کر تے ہیں‘ کچھ انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ سیاست گمراہ ہو گئی ہے ۔لیکن عوام گمراہ نہیں ہیںبلکہ وہ عادتاً خاموش تماشائی بن کر اپنی اور آنے والی نسلوں کی زندگی دشوار ضرورکر رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا’’بھیڑ میں کھڑے ہونا آسان ہے‘ لیکن اکیلے کھڑے رہنے کے لئے ہمت چاہئے‘‘ ۔ آئے ہم میں سے کچھ لوگ ہی بین المذاہب ہم آہنگی کا بیڑا اٹھا کر منفرد رہیں۔
(انگریزی میں یہ مضمونPost Paris – Let some of us stand apart کے عنوان سے آن لائن پڑھا جا سکتا ہے)