بہار پر وزیر اعظم کی نظرعنایت یا انتخابی فریب

Prime Minister, Narendra Modi waving to the people after addressing the Nation on the occasion of 69th Independence Day from the ramparts of Red Fort, in Delhi on August 15, 2015.

احسان احمد ندوی
راقم السطور نے بھی سنا اورپڑھابھی ابھی حال میں ہی اپنے وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی طرف سے کی گئی وہ تقریر جو انہوںنے بہار کے سہرسہ میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی جس میں کچھ نئی بات تو نہیں دکھی سوائے اس کے کہ ان کا وہی پرانا انداز جو 2014 کی انتخابی جلسوں میں ہوا کرتا تھا یعنی دوسرے لفظوںمیں’’ وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی وہ اب بھی ہے‘‘ لیکن فرق یہ تھاکہ وہ اس وقت بی جے پی کی جانب سے وزیر اعظم کی کرسی کے امیدوار تھے لیکن اب وہ اس کرسی پر قابض ہیں۔ اس وقت تو کانگریس کے خلاف ان کے تیور اور ان کے حملے تھوڑے اچھے بھی لگتے تھے کیوںکہ ان کی مد مقابل پارٹی یعنی کانگریس ایک ملکی پارٹی تھی اس لئے اس کے خلاف لڑِائی میں اس طرح سے تال ٹھوکنا تو ٹھیک تھا۔ جو انہوں نے کیا اور انہوںنے خوب مقابلہ کرکے کانگریس جیسی پارٹی کو جو ایک عرصہ سے اقتدار پرقابض تھی اسے اقتدار سے بے دخل کردیا جس کا کریڈٹ میںاپنے وزیراعظم اوران کی پارٹی کے تمام کارکنان کو دیتا ہوں کہ انہوںنے ملک کو کانگریس اور اس کی غلط پالیسیوں سے نجات دلا دی اور پورے ملک کو یہ احساس دلا دیا کہ آج بھی اس ملک کے باشندوںمیں اپنے نفع وضرر کا احساس باقی ہے ۔کیوںکہ اگر لوگوںمیں یہ احساس نہیں ہوتا تو پھر اس ملک کی عوام بی جے پی کو اتنا زبردست طریقے سے اکثریت نہیں دلاتی جس سے کہ بڑے بڑے سیاسی مبصر بھی بھونچکے رہ گئے تھے اور کسی کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ کانگریس کی شکست اتنی بری طرح سے ہوگی یا اس کو اس طرح سے منھ کی کھانی پڑے گی کہ وہ اپوزیشن بننے کے بھی لائق نہیں رہے گی۔
الغرض لوگوںنے اور بالخصوص اس ملک کی سمجھ بوجھ رکھنے والی عوام نے کیا وزیراعظم اور ان کی پارٹی کو یوںہی بے فائدہ اور بے مقصد اس ملک کی زمام اقتدار سونپ دی ہوگی کہ بلکہ اس کے پس منظر اور بیک گراؤنڈ میںان کے بھی کچھ اردارے اورعزائم کار فرما رہے ہوںگے اورزیادہ صحیح لفظوںمیں وزیراعظم اوران کی پارٹی سے کچھ ا میدیں وابستہ رہی ہوں گی اس لئے لوگوںنے اتنی بڑی تبدیلی کی۔ کہ شاید وہ آکر مہنگائی کے نا قابل برداشت درد سے کراہتی ہوئی عوام پر ترس کھا کر اسے کچھ راحت وسکون کی دوا فراہم کریں اوران کی تکلیفوںکا فوراً ازالہ کریں کیوںکہ مہنگائی بد عنوانی نے اس ملک کا جوبرا حال کیاہے اس سے ہر کوئی باشعور اچھی طرح واقف ہے کیوںکہ مہنگائی کے دور میں آج ایک چھوٹی سے چھوٹی فیملی کو چلانا بھی کوئی آسان کام نہیں رہ گیاہے ۔ لیکن ہوا ،اس کے بر خلاف اور مہنگائی دن بدن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور لوگوںکو کوئی راحت نہیںمل سکی اب سنا ہے کہ کانگریس کے دور میں ارہر کی وہ دال جو 70یا80روپئے فروخت ہوتی تھی اب 150 روپئے میں فروخت ہورہی ہے اسی طریقہ سے پیاز کی قیمت بھی 100 روپیہ تک پہنچ چکی ہے۔
لیکن ان سب امیدوں کے باوجود وزیر اعظم کی آمد سے ملک کی عوام کو جوامیدیں وابستہ تھیںکہ مہنگائی کم ہوگی، بے روزگاری ختم ہوگی، لوگوںکے جسم وجان کا تحفظ ہوگا، بیرون ملک سے کالا دھن واپس لایا جائے گااور ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں15-15لاکھ روپیہ جمع کرایا جائے گا وہ سب وعدے ملکی عوام کے ساتھ کھلوناثابت ہوئے اور لوگوںنے یہ سمجھا کہ ہمارے محترم وزیراعظم کے اندر بھی ان سب وعدوںکو پورا کرنے کی صلاحیت اورلیاقت نہیں ہے ۔وہ اس ملک کی عوام کے ساتھ ایک انتخابی دھوکہ ہی تھا جس کے فریب میں لوگ پھنس گئے اور بی جے پی کو اتنی زبردست کامیابی دلا دی۔
لیکن اس کے کچھ ہی دنوںکے بعد لوگوںپر حقیقت عیاں ہوگئی اوردہلی کی عوام نے اپنے فیصلہ سے یہ ثابت کردیاکہ انہیں جھوٹے وعدے کرنے والا اورلوگوںکوگمراہ کرنے کرنے والی حکومت نہیں چاہئے۔جس کا ہم تمام لوگوںنے یہ مشاہدہ کیا کہ کس طرح سے دلی کی عوام نے بی جے کو شکست فاش دیا بلکہ اپوزیشن میں بیٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا یعنی پارلیمنٹ کا حساب دہلی اسمبلی میںچکتا کردیا۔جس سے وزیراعظم اوران کی پارٹی کوخاصی خفت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جو بی جے پی کیلئے ایک کڑوا ترین گھونٹ تھا جسے ا س کو مجبوراً ہی پیناپڑا۔ اورکیجروال جیسے نئے سیاسی بازی گر کے سامنے بھی اس نے گھٹنے ٹیک دیئے ۔
لیکن اس بار باری اس بہار کی ہے جس کو انقلابی سرزمین کہا جاتاہے اورجہاں کی عوام بھی نہایت ہی بیدار مغز ہے جسے اپنے نفع ونقصان کا پورا پورا احسا س ہے یہ وہی سرزمین بہار سے جہاں سے ڈاکٹر راجندر پرساد جیسے لوگ پیدا ہوئے اورجس نے اس ملک کو ایک سے بڑا ایک سیاسی لیڈر دیا لیکن یہ بھی حقیقت ہیکہ یہ ریاست ترقی کے اعتبار سے کچھ پیچھے رہ گئی جس کیلئے حکومتوںکی عدم توجہ یا پھر قدرتی آفات بھی ہوسکتے ہیں جیسے کہ برسات میں سیلاب کا قہر وغیرہ لیکن میرے ناقص علم اور مشاہدے کے مطابق جب سے بہار کی اقتدار میں موجودہ وزیراعلیٰ نتیش کمار کی آمدہوئی ہے اس وقت سے بہار میں ترقی کے کافی کام ہوئے ہیں اب چاہے وہ ریاستی حکومت کے فنڈ سے ہو یا مرکزی حکومت سے لیکن اس کا کریڈٹ تو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کوتو ہر حال میں جائے گا۔ انہوںنے محدود وسائل کے باوجود ریاست کو ترقی کے ٹریک پر گامزن کردیا ۔ریاست کی سڑکوں کو بری حالت سے نکال کر چلنے کے قا بل بنوایا ،ریاست کے ہر گاؤں اور پنچایت میں اسکوں کا نظام بہتر ہوا بہت سارے مسلم وغیر مسلم نوجوان مردوعورتوں کو روزگار سے جوڑا یعنی انہیں ا سکولوںمیں نوکری دی لوگوںمیں تعلیم کے تعلق سے بیداری آئی، بجلی میں اصلاح ہوئی، گاؤں میں راشن کی تقسیم کا نظام بنایاگیا۔ اسکولوںمیں پڑھنے والی طالبات کو وظیفے تقسیم کئے گئے گویا کہ انہوںنے اس طرح سے ایک اچھی حکمرانی کی جس کو لوگوںکو یاد رکھنا ہوگا۔
اس کے باوجود ایسے وزیراعلیٰ کے خلاف نریندر مودی نے اس طرح سے بیان بازی کی ہے جس کا نتیش کمارشاید تصور بھی نہیں کرتے ہوں گے اور بہار کی عوام کو پھروعدوںکے اتھاہ سمندر میں ڈبکی لگوانے کی کوشش کی ہے اوربہار کی پسماندگی کو دور کرنے کیلئے انہوںنے سوا سو کروڑ روپئے کے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جس کو مخالف سیاسی جماعت، آرجے ڈی، کانگریس، اور جے ڈی یو نے انتخابی فریب قراردیا اتنی بڑی رقم دینا شاید مشکل ہی نہیں بلکہ مشکل ترین بات ہو وہ صرف اس لئے کہ بہار سے نتیش کمار کو اکھاڑ پھینکا جائے اوربی جے پی کی حکمرانی قائم ہو لیکن نتیش کماربھی سیاسی میدان کے کوئی چھوٹے کھلاڑی نہیں ہے ان کو بھی کافی تجربہ ہے اوران کے ساتھ سابق و وزیرا علیـ لالویادو کا بھی تیز ذہن ہے اورکانگریس کی بھی اعلیٰ قیادت ہے جوکہ شاید بی جے پی کیلئے اتنا تر نوالہ نہ ہوجتنا کہ وہ سمجھ رہی ہے اب آنے والے وقت کا ہمیں انتظار کرنا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے اور بہار کی عوام کس کو اقتدارکی کنجی سونپتی ہے آگے آگے دیکھئے ہوتاہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *