
پٹیل برادری متحد، مسلمان کیوں نہیں؟
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی حیدرآباد۔ فون:9395381226

25؍اگست 2015ء احمدآباد میں پٹیل برادری کی تاریخ ساز ریالی نے نہ صرف گجرات بلکہ قومی سیاست کو دہلاکر رکھ دیا۔ 22سالہ نوجوان ہاردک پٹیل کی قیادت میں جس طرح سے گجرات کی پٹیل برادری اپنے صدیوں سے جاری اختلافات کو دفن کرکے متحد ہوئی ہے اس نے ایک نئے انقلاب کی جھلک دکھائی ہے۔ اگر کسی طرح سے حکومت پٹیل برادری کے اتحاد کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اس کے بہت سارے مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ ورنہ یہ اتحاد ریاستی اور مرکزی حکومت کے لئے ایک مستقبل درد سر ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا خیال سیاسی پنڈتوں کا ہے۔ پٹیل برادری جسے پاٹیدار بھی کہا جاتا ہے‘ او بی سی میں شمولیت کا مطالبہ کررہی ہے تاکہ تحفظات کے ثمرات سے فیضیاب ہوسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں تحفظات نہ ہونے کی وجہ سے پٹیل برادری کو کالجس میں داخلہ نہیں ملتا اور وہ کئی سہولتوں سے محروم ہیں۔ گجرات کی چیف منسٹر آنندی پٹیل جو خود بھی پٹیل برادری سے تعلق رکھتی ہیں یہ واضح کرچکی ہیں کہ پاٹیداروں کو او بی سی میں شامل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ انہیں کوٹہ الاٹ نہیں کیا جاسکتا۔ او بی سی میں 146 ذاتوں اور طبقات شامل ہیں جن میں بعض مسلم طبقات سماجی اور تعلیمی پسماندگی کی بناء پر شامل کئے گئے ہیں اور انہیں تحفظات حاصل ہیں۔ جبکہ او بی سی کو 27فیصد درج فہرست طبقات یا دلتوں کو 7فیصد اور درج فہرست قبائل کو 15فیصد تحفظات ہیں۔
تحفظات کے نام پر 1984-85ء میں بھی زبردست احتجاج ہوا تھا جسے حکومت وقت نے فرقہ وارانہ فسادات میں بدلتے ہوئے کمزور کردیا تھا۔ اندیشہ ہے کہ اس مرتبہ پٹیل برادری کا احتجاج کسی طرح سے فسادات میں بدلا جاسکتا ہے۔ ان اندیشوں کے تحت گجرات کے مسلمانوں بالخصوص علمائے کرام نے متحدہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ پٹیل برادری کے احتجاج سے خود کو لاتعلق رکھیں اور کسی قسم کی بیان بازی نہ کریں۔
ہاردک پٹیل جو منیرل واٹر کا بیوپاری ہے‘ اتنی کم عمری میں سردار پٹیل کے نام سے موسوم ایک تنظیم ایک پرچم تلے قومی سطح پر چھاگیا ہے۔ اس کی آواز پر پورا گجرات ہی نہیں ہندوستان اور بیرون ہند پٹیل برادری ایک ہوگئی ہے۔ ہاردک پٹیل نے ایک کامیاب سیاستدان کی طرح اپنے برادری کے جذبات کے تار چھیڑ دیئے ہیں۔ انہوں نے یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ مودی کا اقتدار یا مرکزی حکومت اگر آج ہے تو پٹیل برادری کے تعاون کی بدولت۔ پاٹیداروں نے ہر دور میں ہندوستانی سیاست میں اہم رول ادا کیا۔ ایک پٹیل (سردار پٹیل) نے ہندوستانی قوم کو ایک کیا مگر سردار پٹیل کے قد کو چھوٹا کردیا گیا۔ اس وقت بھی پٹیل ہر شعبہ حیات میں نظر آتے ہیں۔ چیف منسٹر آنندی بین پٹیل ہوں کہ کیشو بھائی پٹیل یا نتن پٹیل ان سب نے گجرات کی سیاست میں اہم رول ادا کیا۔ کیشو بھائی نے پٹیل برادری کو بی جے پی سے قریب لانے میں اہم کردار نبھایا۔ یوں تو پٹیل برادری میں بھی اختلافات رہے ہیں‘ 2002ء کے بدترین فسادات کے بعد گجرات میں ذات پات برادری کو ختم کرکے سب ہی ہندو ہوگئے تھے۔ اب آہستہ آہستہ ذات پات کی سیاست کا دور واپس آرہاہے جسے گجرات کے مسلمان بھی ریاست کے لئے خطرناک قرار دیتے ہیں۔ پٹیل برادری کڑوا اور لیوا برادری پر مشتمل ہے جو ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف رہے ہیں تاہم ہاردک پٹیل کی پاٹیدار انمت آندولن سمیتی (PAAS) نے انہیں اختلافات کے خول سے باہر نکالا اور ایک مشترکہ کاز کے لئے متحد کردیا۔ 25؍اگست کی تاریخ ساز ریالی سے قبل سمیتی نے گجرات کے مختلف مقامات پر ریالیاں منظم کیں۔ سورت کی ریالی میں سات لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے اور 25اگست کی ریالی میں میڈیا کی خبر کے مطابق 16لاکھ سے 20لاکھ افراد نے شرکت کی۔ ہاردک پٹیل نے باقاعدہ نریندر مودی کو چیالنج کیا ہے کہ اگر ان کی برادری کو تحفظات نہ ملے تو 2017 کے الیکشن میں کنول کو کھلنے نہیں دیا جائے گا۔ وہ اگرچہ کہ گاندھی اور پٹیل کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں‘ تاہم ضرورت پڑنے پر بھگت سنگھ کا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مطالبات قبول نہ کرنے کی صورت میں اکتوبر میں منعقد ہونے والے بلدی اور مجالس مقامی کے انتخابات میں بی جے پی کی مخالفت کی جائے گی۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ نتیش کمار، چندرا بابو نائیڈو ان کے اپنے نمائندے ہیں۔
ہاردک پٹیل کی قیادت میں نوجوانوں کی یہ تحریک اچانک اس قدر کامیاب کیسے ہوئی؟ اس پر ارباب اقتدار اور سیاسی پنڈت غور کررہے ہیں۔ سمجھا جاتا ہے کہ گجرات کابینہ میں دوسرے مقام کے حامل نیتن پٹیل اس احتجاجی تحریک کے پیچھے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ بی جے پی کے صدر امیت شاہ پس پردہ نوجوانوں کی انقلابی تحریک کی پشت پناہی کررہے ہیں تاکہ آنندی پٹیل کو کرسی سے بیدخل کیا جاسکے۔ امیت شاہ اور آنندی پٹیل کی باہمی رقابت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے جبکہ ایک گجراتی اخبار نے انٹلیجنس ایجنسیوں کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس تحریک کو نریندر مودی کی حمایت حاصل ہے جو تحفظات کی ذات پات پر مبنی پالیسی کو اقتصادی حالت پر مبنی پالیسی سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
پٹیل گجرات کی آبادی کا 14تا 15فیصد ہے۔ تاہم سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں وہ چھائے ہوئے ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں سے عنان اقتدار انہی کے ہاتھ میں ہے۔ آنندی بین پٹیل سے پہلے کیشو بھائی پٹیل اور اس سے پہلے چمن بھائی پٹیل کا راج رہا۔ ان کا اثر و رسوخ اس لئے بھی بڑھتا گیا کہ نریندر مودی نے منظم طریقہ سے سینئر برہمن قائدین اور وزراء کی اہمیت کو آہستہ آہستہ ختم کردیا۔ آنندی بین پٹیل کی وزارت میں بھی اکثریت کاتعلق پٹیل برادری سے ہے۔معاشی طور پر بیشتر پٹیل مستحکم ہیں۔ ڈائمنڈ انڈسٹری، ریئل اسٹیٹ، تعلیمی اداروں اور مونگ پھلی کے کاروبار میں پٹیل برادری کا غلبہ ہے۔
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اپنے حقوق کے لئے مختلف طبقات نے کامیاب احتجاجی تحریکات چلائی ہیں۔ جاٹ برادری، گوجر برادری کے احتجاج کامیاب رہے انہوں نے اپنے حقوق کو منوایا۔ اسی طرح ہندوستان کی ہر چھوٹی اور بڑی ذات اور طبقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے اپنے آپسی اختلافات کو فراموش کیا۔ اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک ہوئے۔
مسلمان اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت جس کی آبادی کے اعداد و شمار سرکاری الگ ہیں‘ غیر سرکاری الگ۔ جو کچھ بھی ہو‘ اگر 25کروڑ بھی ہیں تو کیا اپنے مفاد کے لئے اپنے حقوق کے لئے کبھی ہم نے ایسا کوئی تاریخ ساز قدم اٹھایا کہ جس سے حکومت کے ایوان لرز جائیں۔ جس کے بعد ارباب اقتدار سنجیدگی سے ہمارے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کیلئے مجبور ہوسکیں۔ برسوں پہلے شاہ بانو معاملے پر چند تنظیموں کی کوششوں سے ہم نے ریالیاں نکالیں‘ احتجاج کیا اور اس وقت کی حکومت کے شکر گذار اور احسان مند ہوئے جس نے خود غیر ضروری مسائل میں الجھایا، احتجاج کروایا اور پھر خود ہی مسئلہ کو حل کرکے مسلمانوں سے داد تحسین وصول کی۔
جس طرح گجرات میں 2002ء کے بعد ذات پات طبقہ واریت کی حد بندیوں کو مٹاکر ہندو ایک قوم بن گئے جس طرح 2014ء کے انتخابات میں رائے دہی کے دن صرف ایک دن کے لئے بی جے پی کو ووٹ دینے کے لئے ہندوئوں نے اپنے اختلافات کی دیوار گرادی کیا ہندوستانی مسلمان کبھی اپنے ہی فائدے کے لئے اپنے ہی حقوق کے لئے ایک ہوسکتے ہیں‘ ہم سب تو ایک ہی خدا کو مانتے ہیں‘ ایک ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی ہیں‘ فرقے تو قیامت تک رہیںگے‘ نظریاتی اختلافات بھی ہوںگے مگر مشترکہ مفاد کے لئے تو ہمیں کبھی تو ایک پرچم تلے متحد ہونا چاہئے۔ ہم جس طرح سے سینکڑوں خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اس کی وجہ سے ہر شعبہ حیات میں ہماری اہمیت کم ہورہی ہے، وزن گھٹتا جارہا ہے اب تو ہمیں ووٹ بینک بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میںکیا علمائے کرام، اکابرین قوم، سیاسی قائدین کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ قوم کو متحد کرنے کے لئے اپنے اپنے طور پر کوشش کریں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے دین اور دستور بچائو تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔پرسنل لا بورڈ کو ملی اتحاد کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو ان کی اہمیت کی برقراری کے ساتھ اپنے دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلم قائدین متحد اس لئے نہیں ہوتے کہ اس سے ان کے اپنے ذاتی مفادات متاثر ہوتے ہیں مگر ایک لمحہ کے لئے ان قائدین کو یہ سوچنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قوم کی قیادت کی ذمہ داری عطا کی ہے۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے انہیں قوم کی اجتماعی مفاد کی خاطر کبھی کبھی اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو جس نے سب کچھ عطا کیا اس سے محروم بھی کرسکتا ہے۔
22سالہ ہاردک پٹیل تو ایک مہرہ ہے۔ اس کے پیچھے اس کی قوم کی طاقت ہے۔ بہترین دماغ ہے۔ کمیونٹی کا پیسہ ہے۔ کوئی بڑا لیڈر اس لئے سامنے نہیں آتا کہ انہیں کام لینا ہے۔ کچھ حاصل کرنا ہے۔ بھلے ہی پٹیل برادری کے بعض بڑے نام ہاردک پٹیل کے سامنے پھیکے پڑجائیں تاہم ایک عظیم مقصد کے لئے ان کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کم از کم ہمارے قوم کے اکابرین اور قائدین اس سے سبق لے سکتے ہیں۔