
حیدر آباد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں دائیں سے بائیں ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی،مولانا ولی رحمانی،عبدالرحیم قریشی ،مولانا سجاد نعمانی اوراکبر الدین اویسی کو بھی دیکھا جاسکتا ہے
مسلمانوں کے معتبر ادارے کو اسد الدین اویسی نے ہائی جیک کرلیا،سطحی سیاست کے لئے بورڈ کے پلیٹ فارم کا استعمال
ممبئی: (معیشت نیوز)ہندوستان میں مسلمانوں کا قابل اعتبار متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اب خطرات کے گھیرےمیں ہے۔بورڈ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی کو جہاں عملی طور پر خاموش کردیا گیا ہے وہیں مسلمانوں کے نام پر سطحی سیاست کرنے والےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے اپنی سیاست کے لیے مذکورہ ادارے کو ہائی جیک کر لیا ہے۔جن لوگوں کے دل میں مذکورہ ادارے کا احترام باقی ہے وہ بھی اس بات کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ گذشتہ دوتین برس سے اسد الدین اویسی اور اکبر الدین اویسی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذکورہ ادارے کا استعمال کر رہے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ متحدہ پلیٹ فارم اب خطرات کے گھیرے میں ہے۔

حیدر آباد میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس سے قبل ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی،مولانا ولی رحمانی ،مولانا سجاد نعمانی ایم آئی ایم فلور لیڈراکبر الدین اویسی سے گفتگو کرتےہوئے دیکھے جاسکتے ہیں
آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سکریٹری ، ممبئی کے متحرک سماجی خدمت گار مولانا محمود خان دریا بادی معیشت ڈاٹ ان سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ،مسلم مجلس مشاورت یا علماء کونسل ،ان تمام کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر شخص اپنی شناخت کے ساتھ مذکورہ ادارےکا بھی ممبر ہے۔جس کی وجہ سے جب جس کو موقع ملتا ہے وہ ان پلیٹ فارم کا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا استعمال اگر اویسی برادران اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کر رہے ہیں تو یہ تشویشناک ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’رویت ہلال جیسے مسئلے پر،جس میں بورڈ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، دیکھا یہ گیا ہے کہ کچھ لوگ بورڈ کا نام لے کر اعلان کرتے ہیں ۔حالانکہ مسلمانوں کے سرکردہ افراد کے ساتھ بورڈ کے اراکین کو بھی چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ وہ کسی کا آلہ کار تو نہیں بن رہے ہیں،میں ذاتی طور پر لوگوں سے گفتگو کروں گا اور اس تشویشناک معاملے پر لوگوں کی توجہ مبذول کرائوں گا۔‘‘
مولانا محمود دریابادی کی طرح شیعہ اسکالر آل انڈیا شیعہ پرسنل لاء بورڈ کے سکریٹری مولانا ظہیر عباس رضوی کہتے ہیں کہ’’مسلم پرسنل لاء بورڈ ایک غیر سیاسی مذہبی ادارہ ہے جو مسلمانوں کے دینی و ملّی مسائل سے متعلق تشکیل دیا گیا ہے، جس میں تمام مکتبہ فکر کے لوگ متحدہ طور پر شامل ہیں لہذا اسے سیاسی بچولیوں سے بچاکر رکھنا مسلمانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔اویسی برادران کی طرح لکھنو میں مولانا کلب جواد بھی مذکورہ پلیٹ فارم کا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔لہذا جس طرح راجستھان کے اجلاس میں بی جے پی کے حمایتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دست راست ظفر سریش والا کو پروگرام میں شریک نہیں ہونے دیا گیا تھا ،جس کا میں خیر مقدم کرتا ہوں،اسی طرح اویسی برادران کو بھی مذکورہ پلیٹ فارم کو استعمال نہیں کرنے دینا چاہئے۔‘‘مولانا معیشت ڈاٹ اِن سےکہتے ہیں ’’بورڈ مسلمانو ںکے پرسنل لاء کے لئے بنایا گیا ہے لہذا اسے اپنے دائرہ کار تک محدود رکھنا چاہیے اور کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بنانا چاہئے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہر حیدر آباد جہاں مجلس اتحاد المسلمین کے ووٹروں کی بڑی تعداد آباد ہے وہ بھی اویسی برادران کے مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔سماجی خدمت گار روزنامہ سیاست حیدر آبادکے مدیر ظہیر احمد خاں معیشت سے کہتے ہیں ’’حکومت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے جبکہ اسی پلیٹ فارم کو وہ مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم بھی سمجھتی ہے لیکن یہ المیہ ہے کہ حیدر آباد میں تلنگانہ کے فلور لیڈر اکبر الدین اویسی نے جب اپنی سیاسی کانفرنس رکھی اور انتہائی زہریلی تقریر کی تو اس پروگرام کی صدارت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری عبد الرحیم قریشی کر رہے تھے۔جس میںعوام الناس کو انتہائی خاموشی کے ساتھ یہ پیغام دیا گیا کہ اویسی کو پرسنل لاء بورڈ کی حمایت حاصل ہے۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’حیدر آباد میں عبد الرحیم قریشی جہاں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے لئے کام کرتے ہیں وہیں وہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (ایم آئی ایم) کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور اس طرح مجلس کے صدر نے پرسنل لاء بورڈ کو اپنی ملکیت بنا رکھا ہے۔‘‘ظہیر احمد خان کہتے ہیں’’میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ دھیرے دھیرے اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے اور وہ ملت کاترجمان نہ بن کر سیاسی کھلاڑیوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’جو مہم شروع کی گئی ہے اگر پہلے اسے بورڈ کے ارکان اپنے گھروں پر نافذ کر لیں تو بہت سارے مسئلے خود ہی حل ہوجائیں،اگر ان کے گھر سدھر گئے تو ملت کے دوسرےافراد بھی اسے اختیار کرنے میں تساہلی سے کام نہیں لیں گے۔‘‘
ممبئی کے مشہور سماجی کارکن اقرا گیان فائونڈیشن کے ذمہ دار خالدمخدومی کا کہنا ہے کہ ’’گذشتہ کئی ماہ قبل جب راجستھان میں پرسنل لاء بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا تھا تو وہاں بھی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی ہی ہر جگہ پیش پیش نظر آرہے تھے اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مذکورہ اجلاس پرسنل لاء بورڈ کا نہیں بلکہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کا ہے۔لوگوں کو چاہئے کہ ان امور پر وہ گفتگو کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوسکے،اگر ہم لوگوں کو بے نقاب نہیں کریں گے تو کالی بھیڑیں ہماری صفوں میں شامل رہیں گی اور ہم کہیں اور ڈھنڈورا پیٹتے رہیں گے۔‘‘
البتہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سیدقاسم رسول الیاس معیشت سےمختلف الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ’’ملی وسیاسی ایشوز پر بورڈ میں دو رائے رہی ہے۔ایک رائے تو یہ ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اپنے دائرہ کار تک محدود رہنا چاہئے جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ بورڈ کو مسلمانوں کے ہر مسئلہ پر آواز اٹھانی چاہئے۔لہذا خواہ وہ ہندو تہذیب کے غلبہ کا مسئلہ ہو،گائے کے ذبیحہ کا یاپھر بابری مسجد کا مسئلہ،ہر جگہ اسے نمائندگی کرنی چاہئے۔میں ذاتی طور پر اول الذکر رائے کو بہتر سمجھتا ہوں کہ پرسنل لاء بورڈ کو اپنا دائرہ محدود رکھنا چاہئےاور دینی جماعتوں کو ان کا اپنا کام کرنے دینا چاہئے۔‘‘البتہ وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ اویسی برادران نے بورڈ پر قبضہ جمالیا ہے،اور بورڈ ان کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہا ہے ۔وہ معیشت سے کہتے ہیں’’ حیدر آباد میں جب کوئی اجلاس ہوتا ہے تو وہاں مجلس اتحاد المسلمین کے افراد دکھائی دے سکتے ہیں لیکن حیدر آباد کے باہر ایسا ممکن نہیں ہے لہذا یہ کہنا کہ بورڈ پر اویسی برادران قابض ہیں درست نہیں ہے۔‘‘آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خاتون رکن پروفیسرمونسہ بشری ٰ عابدی بھی بورڈ کے ترجمان کی تائید کرتے ہوئے کہتی ہیں’’اسد الدین اویسی بورڈ کے عاملہ کے رکن ہیںلہذا اس وجہ سے وہ ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں، یہ کہنا کہ بورڈ پر ان کا قبضہ ہے کسی طور مناسبنہیں ہے کیونکہ بورڈ پر ان کی کوئی گرفت نہیں ہے۔ہاں وہ ہر جگہ پیش پیش اسلئے رہتے ہیں کیونکہ وہ ملت کے لیے کمیٹڈ سمجھے جاتے ہیں‘‘۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ان دنوں عوام کو بورڈکے تعلق سے فکر لاحق ہے ۔اویسی برادران بورڈ کا استعمال کر رہے ہیں یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اویسی برادران کی جابجا دخل اندازی نے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ اب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ سیاسی بچولیوں کے چنگل سے آزاد نہیں ہے۔