ڈاکٹرسید ظفر محمود
قرآنی پیغام کا اصل مقصد ہے انسانی شعور کو بیدار کرنا تا کہ انسان پروردگار سے اور کائنات سے اپنے متعدد رشتوں کو بھلی بھانت پہچان سکے۔ اس کا یہی ایک طریقہ ہے کہ انسان اپنی روح کو جسم کے مقابلہ میں اونچائی پر رکھتے ہوے مادیت کے اثر کوقابو میں رکھے اور اسی طرح اپنی زندگی کا ڈھرّا بنائے ۔خدا نے صاف کہا ہے کہ اس نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کھلواڑ میں نہیں بنائے ہیں بلکہ اس نے انھیں بہت سنجیدہ مقصد سے بنایا ہے لیکن زیادہ تر لوگ اسے نہیں سمجھتے ہیں(44.38)۔ یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اپنی تخلیق میں اضافہ بھی کرتا رہتا ہے(35.1)۔جا کے دیکھو کہ اس نے کیسے سب کچھ پیدا کیا ہے اور وہ تخلیق مکرر بھی کرے گا(29.19)۔ دن اور رات کا لگاتار ایک دوسرے کے بعد آنے میں اہل بصیرت کے لئے سبق ہے(24.44)۔جب فرشتے مختلف اشیا کے نام نہیں بتا پائے تھے تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان کے نام بتا دئے تھے لہٰذا انسان کا علم فہم پر مبنی ہے جس کا استعمال کر کے وہ تخلیق الٰہی کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔اس طرح کائنات کی تیزی سے بدلتی ہوی تصویر کے مطابق انسانی تصورات و موجودات میں بھی تبدیلی لازمی ہے۔ انسان سے اﷲامید کرتا ہے کہ وہ کائنات اور الٰہیات کو سمجھنے کے لئے کوشاں رہے۔ قرآن ہماری آنکھیں کھولتا ہے کہ ہم حیاتیاتی تبدیلیوں کو پرکھتے رہیں اور ان کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی کثر نہ چھوڑیں اسی طرح اعلیٰ اقدار کی بنیاد پر نیا معاشرہ اور نئے تہذیب تمدن کا جنم مناسب ہو گا۔ دنیا میں قرآنی مقصد حیات کا بہتر چلن تب ہی ممکن ہو گا جب انسان اس کا اپنے زمانہ کے دنیاوی ظہور کے ساتھ تال میل بٹھاتا رہے‘ اسی طور پر دنیا میںروحانیت کے درجوں میں بھی بہتری آتی رہے گی۔ورنہ ہم دنیا و دین کی مشرکانہ تفریق کے گنہگار ہی رہ جائیں گے۔ اس کے لئے ہمیں اپنے دل سے دیکھنے کا کام لینا ہو گا‘دل کی اس قوت بصیرت کا بھی اﷲنے ذکر کر دیا ہے۔
لہٰذا ضرورت نہیں رہ جاتی ہے کہ اﷲانسان سے سیدھے بات کرے بلکہ اس کے بجائے اﷲ پس پردہ انسان کو تخیل سے نواز دیتا ہے ۔ معراج کے دوران حضور اکرم ؐ کو جو مشاہدہ ہوا اس کے لئے بھی اﷲنے کہا کہ اس کے حبیب ؐ نے جو کچھ دیکھا اسے ان کے دل نے صحیح بتایا۔ پروردگار اپنے بیش بہا خزانہ میںسے تھوڑاتھوڑا زمین پر اتارتے رہتے ہیں(15.21)۔ اس کا ذکر مسلم فلسفیوں نے دسویں اور گیارہویں صدی میں کیا اور بعد ازاں تیرہویں صدی میں اسپین کی اسلامی یونیورسٹیوں سے سند یافتہ ایک فلسفی نے اپنی کتاب ’پریشان ذہنوں کے لئے رہنمائی‘ میں باقاعدہ کیا ‘فرانس اور امریکہ میں اس کتاب کے ترجمے ہوے ہیں۔ ان ترجمانیوں کے مطابق اﷲ کے نزدیک اس کے احکامات اور ان کا نفاذ ایک ہی ہیں۔ادھر انسان میں اﷲ نے اپنی روح پھوک رکھی ہے (15.29)‘ لہٰذا انسان کو بھی اپنا ذہن لگانے اور اپنے ہاتھ چلا کر کچھ بنانے کی استطاعت تو ملی ہوی ہے ہی۔ قرآن میں انسان کے لئے حکم ہے کہ وہ تبدیل ہوتی ہوی کائنات کو پہچانے اور انسان سے امید کی گئی ہے کہ وہ برائی پر قابو پا لے گا۔ یہ سبق دینے کے لئے قرآن میں متعلقہ انسانوں اور اشیا کے نام لینے سے گریز کیا گیا جس سے ان سبقوں کی عالم گیریت میں اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً دنیاوی تخلیق سے قبل قرآن میں سانپ اور پسلی کے الفاظ استعمال نہیں ہوے ہیں‘ آدم اور حوا کے الفاظ متعلقہ انسانو ںکے نام کے طور پر استعمال نہیں ہوے ہیں‘صرف آدم کا لفظ وہ بھی انسان کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کی ہجرت کی وجہ اخلاقیاتی محرومی کے بجائے اس کو انسان کے سادہ لوح شعور کی خود وثوقی میں تبدیلی مانا گیا ہے۔ اس واقعہ کوآدمی کے ذریعہ اولین خود ساختگی مانا گیا ہے اور اسی لئے اﷲنے تاویل حکم کومعاف بھی کر دیا۔
اسلام انسانی زندگی کو بنیادی طور پر روحانی مانتا ہے اور خونی رشتوں کے محدود اندرونی مدار کو دنیاوی رکھ رکھائو کی اولین بنیاد نہیں مانتا ہے۔ اس کے بجائے توحید کو دنیاوی استحکام کاسنگ بنیاد ماناگیا ہے۔ انسانی زندگی قوانین کائنات میں مستقل تبدیلیوں کے لئے پابند ہونی چاہئے جو اﷲ کی نشانیاں ہیں اور جن کا ذکر قرآن کریم میں خوب آیا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں کسی حد تک درج ہے۔ اگر قوانین انسانیت میں تبدیلی کے فطری تقاضوں کو روکنے کی کوشش کی جائے گی تو سماج میں بیجا جمود پیدا ہو جائے گا۔ اسلام میں اسی ممکنہ جمود کو روکنے کے لئے اجتہاد کا متبادل دیا گیا ہے۔ اس اصطلاح کے لفظی معنی ہیں آزاد خیالی کی بنیاد پر خود وثوقی۔ جب حضرت معاذ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو حضور ؐ کے دریافت کرنے پر انھوں نے کہا تھا کہ معاملات کا فیصلہ کرنے کے لئے اگر قرآن و حدیث سے روشنی نہیں ملے گی تو وہ اجتہاد سے کام لیں گے۔ توحید کی اجزائے ترکیبی ہیں مساوات(Equality)‘ سا لمیت (Solidarity) اور آزادی(Liberty)۔قطعی حقیقت( Ultimate reality) تو روحانیت ہے لیکن اس کا وجود جسمانی حرکت پر منحصر ہے۔ فطرت‘ مادیت اور دنیاویت میں ہی روحانیت کو اپنے ظہور کے مواقع ملتے ہیںلہٰذا دنیاویت کی جڑ یںمتبرک ہیں۔ غلیظ دنیا بذات خود کوئی شئے نہیں ہے۔ حرکت انسانی کے لئے زمین تو پاک صاف ہے۔ اسی لئے ارشاد رسالت ہوا کہ پوری زمین مسجد ہے۔ ہاں حوادس تاریخ سے ٹکرا کے ملی اقدار میں کہیں کہیں کچھ غیر اسلامی مقامی آلودگی نے جنم لے لیا ہے۔ ہمارے پاس یہی ایک متبادل ہے کہ زندگی کے پر تحریک نظریات کو اوجھل و منجمدکر دینے والے اوپری سخت چھلکے کو ہٹا دیا جائے اور مساوات‘ سا لمیت اور آزادی کی اصلی اشکال کی بنیاد پر اور تازہ ترین تجربات کی روشنی میں ہم اپنے اخلاقی‘ سماجی اور سیاسی معیاروں کی تعمیر نو کریں ۔
بہر حال دین در اصل ایک مثبت سائنس ہے جس کا مقصد ہے قلب انسانی کو روحانی تقویت پہنچانا ۔ روحانیت تبھی اثر کرتی ہے جب اس کے تصورات مادری زبان میں سمجھائے جائیں۔ یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ طلوع اسلام سے خلافت عباسیہ کی شروعات تک قرآن کریم اور احادیث نبوی ؐ کے علاوہ اور کوئی اسلامی قوانین نہیں تھے۔ پہلی صدی ہجری کے وسط سے چوتھی صدی کی شروعات تک 19اقسام کے قوانین بن گئے تھے۔ یہ بھی نوٹ کر لینا ضروری ہے کہ اسلام کا تعلق جغرافیائی حدود سے نہیں ہے ‘اس کا مقصد ہے مختلف النوع انسانی گروپوں کا ایک ایسا آپسی الحاق بنانا ہے جہاںچاہت اور شعور متحد ہوںاور سب کو مرکزگذیر قوت حاصل ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دنیا کے تمام مسلم ممالک اور اسلامی سماجوں کے نمائندے مل کر ایک عالمی اسلامی اسمبلی قائم کریں جس کی باگ ڈور کسی ایک ملک یا گروپ کے پاس نہ ہو۔ انسانیت کی آج تین ضروریات ہیں: کائنات کی روحانی تفسیر‘ انفرادی روحانی آزادی اور انسانی سماج کی روحانی نشوونما کو بنانے سنوارنے کے لئے ایسے رہنما اصولوں کی تشکیل جو پورے عالم سے جمع کی گئی اطلاعات کو جوڑ کے بنائے گئے ہوں۔ آج پوری دنیا میں قوانین کا استعمال ضرورتمندوں کا استحصال کر کے صاحب حیثیت لوگوں کے سرمایہ میں اضافہ کے لئے کیا جا رہا ہے جس پر قابو پانا اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا اس وقت سائبر جرائم سے دو چار ہے جس کی وجہ سے عالمی اقتصادیات پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔چین نے امریکہ کی فرموں کے خلاف سائبر جاسوسی کی غرض سے ان پر سائبر حملے کر دئے ہیں اور اس کی سزا کے طور پرامریکہ چینی کمپنیوں کے کاروبار پر پابندیاں لگا رہا ہے۔ان حملوں کی وجہ سے گذشتہ جولائی میں نیو یورک میں بازار کا پیمانہ 3 گھنٹے تک ٹھپ ہو گیا تھا۔ ان سائبر حملوں اور نتیجتاً بازار میں اچانک ضرب کی وجہ سے کم از کم 5,000 ارب ڈالر کی مالیت کی اقتصادی سرگرمی کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے‘ اس سے عام انسانی زندگی بیجا خسارہ میں پڑ سکتی ہے۔ اگر یہ جرم عالمی سطح پر ہو سکتا ہے تو مقامی سطح پر بھی کیا جا سکتا ہے‘ ظاہر ہے کہ اس سے کوئی اسلامی ملک یا اسلامی سماج بھی مستثنیٰ نہیں رہ سکتا۔اکیسویں صدی کے سماج میں اس طرح کے چیلنجز سے نپٹنے کے لئے اسلامی شریعت میں خلا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پوری دنیا بھی مانے کہ اسلامی شریعت ایک مکمل دستور حیات ہے اور وہ ہمیشہ کے لئے ہے۔لہٰذامسلمانوں کو قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنے قوانین میں کشادگی کے لئے مل جل کے بیٹھنا ہو گا۔ اس مضمون کے لئے میں نے علامہ اقبال کے خطبات سے تلقین حاصل کی ہے‘ اﷲان کے درجات بلند کرے‘ آمیں۔