بہار انتخاب اور مسلمانوں کے موسمی ہمدرد

شرد یادو اور ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کی ہمدردی کے دعویدار
شرد یادو اور ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کی ہمدردی کے دعویدار

جلال الدین اسلم، نئی دہلی

ہندوستانی مسلمان اس اعتبار سے بہرحال انتہائی خوش نصیب ہیں کہ ان کی خوشی میں، ان کے غم میں برابر شریک رہنے والوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ جب بھی کوئی خاص موقع رونما ہوتا ہے تو یہ لوگ جوق درجوق میدان میں اُتر آتے ہیں۔ اسی طرح جب کبھی ملک کے کسی حصے میں انتخابی دنگل کا اعلان ہوتا ہے تو انہیں اوروں سے کہیں زیادہ مسلمان ہی یاد آتے ہیں۔ گویا غم ہو یا خوشی ہرحال میں یہ لوگ مسلمانوں کو یاد رکھتے ہیں، ظاہر ہے اس سے بڑی خوش نصیبی مسلمانوں کے لیے اور کیا ہوسکتی ہے۔
اس وقت صوبہ بہار کے اسمبلی الیکشن میں شریک ہونے والے سیاسی گھوڑوں نے گاؤں کی گلی کوچوں سے لے کر شہروں کے کوچہ و بازار تک روند ڈالا ہے۔ ہر طرف دھول ہی دھول ہے، سیاسی مطلع ہر روز گرد آلود ہوتا جارہا ہے، ایسے میں کسی ایک کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے اور پھر ان حالات میں کوئی مسلم تنظیم بھی اپنی انفرادیت کے ساتھ قسمت آزما ہو تو ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے کیونکہ ملک کا ایک خاص طبقہ سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن مسلمانوں کے نام پر ابھرنے والی کسی بھی تنظیم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس وقت بہار میں کچھ اسی طرح کی صورت حال بنی ہوئی ہے۔ حیدرآباد میں جنم لینے والی تنظیم مجلس اتحادالمسلمین اپنے قدم بڑھاتے ہوئے بہار کے مسلم علاقے سیمانچل میں قدم جمانے کی کوشش میں ہے تو صوبہ کی تمام سیاسی جماعتیں چاہے وہ سیکولر کہلاتی ہوں یا کمیونل، سبھی میں ایک خاص قسم کی ہلچل ہے اور مجلس کے پاؤں اکھاڑ پھینکنے میں سبھی ایک ہوتی نظر آرہی ہیں۔ بھانت بھانت کے لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے سنائی دے رہے ہیں۔ حالانکہ ملک میں ایسی بہت سی سیاسی تنظیمیں موجود ہیں جو مذہب اور ذات برادری کے نام پر سرگرم عمل ہیں اور ان پر کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر مسلمانوں کے نام پر تشکیل ہونے والی کسی تنظیم پر اس قدر واویلا کیوں؟ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ’سیکولر‘ صرف انہیں تنظیموں کو مانتے ہیں جن کی باگ ڈور کسی ہندو کے ہاتھ میں ہو۔ علاوہ ازیں مسلمانوں میں کچھ آئین کی دہائی دیتے ہیں تو کچھ جدوجہد آزادی کے حوالے سے علما کی سیاسی رہنمائی کو ہندوستانی مسلمانوں کے مؤثر سیاسی کردار کی لازمی شرط قرار دے رہے ہیں اور کچھ لوگ تو کمال عیاری سے اپنے آپ کو اس طرح پیش کر رہے ہیں گویا ملت کی فلاح و بہبود کی بات ان کے سوا کوئی دوسرا سوچ ہی نہیں سکتا۔ یہ سارے لوگ جن کی اپنی الگ الگ دکانیں تھیں، الیکشن سے پہلے گاہکوں کو ترس رہی تھیں اب نئے سرے سے انہیں سجانے اور خریداروں کو ملتفت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ جناب اسدالدین اویسی صاحب کی تنظیم اور ان کے عزائم ان حالات میں کس حد تک پورے ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ ہمارے نام نہاد قائدین کے بیانات اور سرگرمیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ عام مسلمان خاص طور پر ملت کے سوچنے سمجھنے والے لوگ حیران و پریشان سب کی باتیں سن رہے ہیں اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کسے اپنا کہیں اور کس کے ساتھ جائیں۔ یہ پریشانی اس لیے ہے کہ وہ انہیں بار بار آزما چکے ہیں اور ان کے اصل چہرے ان کی نظروں سے پوشیدہ بھی نہیں رہے۔
یہ صورت حال کچھ نئی نہیں ہے۔ 1947 کے بعد سے اب تک ہندوستانی مسلمانوں کو کچھ اسی طرح کے حالات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔ آزادی کے سورج کے طلوع ہوتے ہی مولانا آزاد نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے آپ کو کانگریس کے ساتھ وابستہ کرلیں اور مسلمانوں نے ان کی یہ بات مان بھی لی اور اس کے سوا غالباً ان کے سامنے کوئی راستہ بھی نہ تھا کیونکہ مسلم لیگ عملاً مدراس تک (اس وقت کیرالہ موجودہ ریاست صوبہ مدراس کا حصہ تھی) سمٹ کر رہ گئی تھی اور جمعیۃ العلماء ہند نے جو بزعم خود مسلمانوں کی دینی و سیاسی قیادت کے منصب بلند پر فائز تھی اچانک اپنے آپ کو غیر سیاسی جماعت قرار دے دیا اور عملاً کانگریس کی ذیلی ٹیم بن کر رہ گئی۔
سیاسی قوت سے محروم سیاسی بے وزنی کے بھنور میں گرفتار مسلمانوں کا کانگریس نے جی بھر کر استحصال کیا۔ اردو کے گلے پر چھری پھیر دی گئی۔ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اور سرکاری ملازمتوں سے بے دخل کرنے کی خاموش مہم چلائی گئی اور ساتھ ہی ساتھ انہیں یہ باور بھی کرایا جاتا رہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے وہ عناصر ذمہ دار ہیں جو سیکولرزم اور ہندو مسلم اتحاد کے دشمن ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو کانگریس کے کھونٹے سے باندھے رکھنے کی اس مہم میں پیش پیش وہی لوگ تھے جو ان کی دینی اور سیاسی رہنمائی کے دعوے دار تھے۔
1967 کے آتے آتے کانگریسی حکومتوں کے ظلم و ستم کی بھی انتہا ہوگئی اور مسلمانوں کا پیمانہ صبر بھی لبریز ہوگیا۔ رانچی، بٹیا اور جمشیدپور کے ہولناک فسادات کے بعد مسلمانوں کے کچھ سربراہ مل بیٹھے اور مسلمانوں کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا جنم ہوا، لیکن تمام تر کوشش کے جمعیۃ علماء ہند اس میں شامل نہیں ہوئی۔
مسلم مجلس مشاورت کی شکل میں آزادی کے بعد پہلی بار ایک مشترکہ پلیٹ فارم وجود میں آیا تھا اور توقع کے عین مطابق پورے ملک کے مسلمانوں نے اس کی آواز پر لبیک کہا اور کچھ برسوں تک کچھ ایسا لگا کہ بے سمتی کی دہشت کے شکار اور غیروں سے کہیں زیادہ اپنوں کی سازشوں کے جال میں اسیر مسلمانوں نے اپنے آپ کو اپنی سیاسی اہمیت اور اپنے سیاسی وزن کو پہچان لیا ہے لیکن افسوس کہ ایک وقت ایسا بھی آگیا جب یہ ساری اُمیدیں نقشِ برآب ثابت ہوئیں اور مسلمان اپنے آپ کو ایک بار ٹھگا محسوس کرنے لگے۔
بعد ازاں شاہ بانو کیس نے ایک بار پھر مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا اور مسلم پرسنل لا بورڈ کی قیادت میں انہوں نے اتحاد و یگانگت کا بے مثال ثبوت بھی دیا لیکن علما کا وہ گروہ جو پرسنل لا بورڈ پر حاوی تھا، اس نے دوربینی، پامردی اور استقامت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے دربار شاہی میں گھٹنوں کے بل حاضری دینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اور مطلقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق ایک ایسے قانون کو قبول کرلیا جو دوسری چیزو ں کے علاوہ قانون شریعت کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نہیں تھا، اس کی پہلی دفعہ میں ہی خلع حاصل کرنے والی عورت اور ایسی عورت کو ہر اعتبار سے یکساں سطح پر رکھا گیا تھا جس کے شوہر نے خود اسے طلاق دی ہو۔
پھر بابری مسجد کی شہادت کا حادثہ رونما ہوا، ملک کے طول و عرض میں فسادات ہوئے، ٹاڈا کے وحشی قانون کا بے دریغ استعمال ہوا اور وہ تمام لوگ جو اپنے آپ کو مسلمانوں کا ہمدرد و غم گسار کہتے تھے، جو ان کی قیادت کے دعوے دار تھے اور جو یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے تھے کہ دین و دنیا دونوں کی فلاح ان کی پیروی کرنے میں ہی مضمر ہے یا تو اپنے عافیت کدوں میں محدود رہے یا پھر ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آئے جو مسلمانوں کے مسائل و مصائب کے اصل ذمہ دار رہے ہیں۔
آج بھی صورت حال کم و بیش کل جیسی ہی ہے۔ مسائل کے انبار میں اغیار کی سازشوں کے جال دن بہ دن کستے چلے جارہے ہیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی فتنہ کھڑا ہوجاتا ہے اور مسلمان وقتی طور پر جوش و خروش کا مظاہرہ کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ دنوں مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے ’دین و دستور‘ بچاؤ مہم ہے جو ایک دو روز ہی سرگرم رہی۔ عام مسلمانوں میں جب حرارت پیدا ہوئی تو قائدین نے اپنی مصلحتوں سے سمجھوتہ کرلیا اور ایک بار پھر عام مسلمان ہار گئے اور قیادت جیت گئی، لیکن دین و دستور بچاؤ مہم اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گئی ہے جسے آپ بہار کے اسمبلی انتخابات میں تلاش کرسکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *