
سعودی حکومت کے خلاف احتجاج کی سزا قتل
ریاض :(ایجنسی ) انسانی حقوق کے کارکن سعودی عرب میں سزائے موت کے مجرم ایک نوجوان کی رہائی کے لیے آن لائن مہم چلا رہے ہیں لیکن سعودی عرب کے اندر اس حوالے سے بحث فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم ہو گئی ہے۔
علی محمد باقر النمر کا سر کسی بھی وقت قلم کیا جا سکتا ہے۔ اب انسانی حقوق کے کارکن اس مقدمے کے چیدہ چیدہ نکات کو آن لائن شیئر کر رہے ہیں۔
ان کے خلاف ریاست کے خلاف جرائم کے مختلف الزامات ہیں۔ یہ سب سعودی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شرکت کے باعث عائد کیے گئے۔ سزائے موت کے خلاف ان کی اپیلیس خارج کر دی گئی ہیں۔
النمر پر الزام ہے کہ انھوں نے ملک کے مشرقی حصے میں سنہ 2012 میں ہونے والے حکو مت مخالف مظاہروں میں حصہ لیا تھا۔ ان کا تعلق شیعہ اقلیت سے ہے اور انھیں اسی برس گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کی عمر 17 برس تھی۔
سرکاری میڈیا کے مطابق بعدازاں انھیں کئی جرائم کا مرتکب پایا گیا جن میں بغاوت، شاہ سے وفاداری توڑنا، سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف پٹرول بم کا استعمال، ڈاکہ زنی سمیت کئی دیگر الزامات شامل ہیں۔
بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن جس پر سعودی عرب نے دستخط کر رکھے ہیں 18 سال سے کم عم بچوں کو سزائے موست سے مستثنٰی قرار دیتا ہے۔
علی محمد النمر کے والد محمد النمر نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شاہ سلمان ان کے بیٹے کی سزائے موت پر عملدرآمد کے حکمنامے پر دستخط نہیں کریں گے۔
تاہم انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر ان کے بیٹے کی سزا پر عملدرآمد کردیا جاتا ہے تو ملک میں شیعہ برادری کی جانب سے پرتشدد ردعمل ہو گا۔ ’ہم یہ نہیں چاہتے۔ ہم خون کا ایک قطرہ بھی بہانہ نہیں چاہتے۔‘
محمد النمر نے اعتراف کیا کہ ان کے بیٹے نے ہزاروں افراد کے ساتھ مظاہرے میں حصہ لیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ علی النمر چوری، پولیس پر حملے اور آتشزنی میں ملوث نہیں تھا۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ النمر پر تشدد کیا گیا اور اس کے خلاف شفاف مقدمہ بھی نہیں چلایا گیا۔
دوسری جانب فرانس کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے ’فرانس کو علی محمد النمر کے معاملے پر بے حد تشویش ہے جن کو سزائے موت سزا سنائی گئی ہے جبکہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا وہ بالغ نہیں تھے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے ’فرانس کسی بھی صورت میں سزائے موت کے خلاف ہے اورہم مطالبہ کرتے ہیں کہ سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا جائے۔‘
سوال یہ ہے کہ اب وہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کیوں کر رہا ہے۔ یہ امریکی مزاح نگار بل میہر کی وجہ سے اجاگر ہوا جو کئی موضوعات پر متنازع خیالات رکھتے ہیں جن میں سے ایک اسلام اور مذہب بھی ہے۔ جمعے کو ان کے ایک شو میں انھوں نے گھریلو ساختہ گھڑی اسکول لانے پر گرفتار ہونے والے احمد محمد پر بحث کی۔ مہیر نے پولیس اور اسکول کے اقدامات کا دفاع کیا۔ اور اگلے روز ایک ٹویٹ میں النمر کے کیس کا حوالہ دیا۔
اس کے بعد النمر کا نام انگریزی زبان میں 15 ہزار بار اور عربی میں 21ہزار بار استعمال کیا گیا۔ ایک بلاگر نے کہا ’جاگو دنیا‘۔ النمر کے کیس میں سزائے موت کا طریقہ سر قلم کرنا اور اس کے بعد لاش کی سرعام نمائش ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق پینل کا سربراہ چنا گیا لیکن وہاں ایک 21 سالہ کارکن کا سر قلم کیا جا رہا ہے۔
آن لائن بحث میں اس حوالے سے ایک پہلو فرقہ واریت کا بھی اجاگر کیا جا رہا ہے۔ النمر ایک معروف شیعہ عالم کے بھتیجے ہیں۔ اور انھیں بھی سزائے موت سنائی گئی ہے۔ سعودی عرب میں کئی شیعہ النمر کی حمایت کر رہے ہیں تاہم سنی برادری مقدمے اور سزا کا دفاع کرتی ہے۔