ہوشیار!پانی کے لیے جنگ کا آغازہو سکتا ہے!

water glass

عالم نقوی

ہفتہ 26ستمبر کو پوری دنیا میں ماحولیاتی صحت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔اسی روز اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیو یارک میں193ممبر ملکوں کی دو روزہ سربراہ کانفرنس شروع ہو رہی ہے جس میں شرکت کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی جمعے ہی کو نیویارک پہنچ چکے ہیں جہاں پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی موجود ہیں لیکن ابھی تک دونوں کی ملاقات کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور فی ا لوقت اس کالم کا موضوع بھی دونوں پڑوسیوں کے عبرت ناک اور افسوس ناک تعلقات نہیں ،عالمی ماحولیاتی صحت ہے جو ہند ۔پاک تعلقات سے بھی زیادہ دگر گوں ہے ۔اسی کی خبر لینے کے لیے یہ چوٹی کانفرنس بلائی گئی ہے تاکہ اگلے پندرہ برسوں (2016/2030)کے لیے کسی مشترکہ ایجنڈے پر تمام ممبر ملکوں اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے ! جس کی امید کم ہے ۔اس لیے کہ دنیا کی ماحولیاتی صحت کے بگاڑ کے ذمہ دار ترقی یافتہ ملکوں کے شرائط غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو منظور نہیں ۔اگر کوئی سمجھوتہ ہوا بھی تو وہ ذہنی ،تہذیبی اور معاشی طور پر غلام ملکوںکے قارونی یا کارپوریٹ گزیدہ حکمرانوں کی بے بصیرتی کی بدولت ہوگا کیونکہ بازار کی قوتوں کو اپنی کمزوری یا اپنے منافع میں کمی کی کوئی تجویز قبول نہیں ۔ انہوں نے اسی لیے اپنی معاشی لغت سے غریبی کم کرنے Poverty Alleviation کی اصطلاح ہی نکال دی ہے اب وہ صرف ترقی ،وکاس اور ترقیاتی معاشیات Development Economicsکی بات کرتے ہیں ۔انہوں نے۔ غریبی ہٹاؤ۔ کے نعرے کو۔ سب کے لیے وکاس ۔کے نئے نعرے سے تبدیل کر دیا ہے ۔ عوام ترقی اور وکاس کے معروف معنی سمجھ کر اپنی جگہ خوش ہوتے رہیں ،ھکمرانوں کی ما بعد جدید لغت میں ترقی کے معنی صرف کارپوریٹ منافع میں اضافے کے ہیں ۔اب اس راہ میں کچھ مڈل کلاس والوں کا بھلا بھی ہو جائے کچھ اَپَر کلاس والے سُپَر رِچ super richہو جائیں تو اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ سماج کی آدھی سے زیادہ بلکہ دو تہائی آبادی کے مسائل تو جوں کا توں برقرار رہتے ہیں بلکہ غریب اور غریب ہوجاتے ہیں ۔ہمارے اس میں خوشی کی کوئی بات نہیں کہ وطن عزیز میں نئے امبانیوں اور اڈانیوں کی تعداد اگلے پانچ برسوں میں سو فی صد بڑھ کر دو گنی ہو ننے والی ہیے ۔جینتی گھوش نے اپنے مضمون ترقی کا غریبی ہٹاؤ راستہ (فرنٹ لائن 4ستمبر 2015ص 37/39) میں اپنی طریقے سے یہی سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ورلڈ بینک جو بازار کی قوتوں کا سب سے بڑا ادارہ ہے ،ہماری شہری ترقی کی موجودہ رفتار و صحت سے خوش نہیں وہ مزید ریفارم چاہتا ہے جس کے لیے مودی خود ہی تیار بیٹھے ہیں اور امریکہ کا ڈیڑھ سال میں یہ دوسرا دورہ بھی اسدی مقصد کے حصول کے لیے ہے ۔
صورت حال یہ ہے کہ ہمارے دریا بتدریج خشک ہورہے ہیں ،جنگل ختم ہورہے ہیں ،کسان خود کشی کر رہے ہیں پینے کے پانی کے قدرتی وسائل و ذرائع ترقی کے زہر سے اس درجہ آلودہ ہوتے جارہے ہیں کہ ان کا پانی پینے لائق ہی نہیں رہ گیا ہے ۔ گنگا اور جمنا جیسے میدانی دریا جن کے کنارے دنیا کی بڑی تہذیبیںآباد ہیںجدید صنعتی ترقی کی بدولت گندے سیاہ نالوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔
وسطی دہلی کی ایک گھنی بستی میں منگل 22 ستمبر کو سرکاری نل سے پانی بھرنے پر ہونے والے جھگڑے میں ایک بزرگ کی حرکت قلب بند ہوجانے سے موت ہوگئی ۔ انڈین ایکسپریس کے ابھیشیک انگد کی رپورٹ کے مطابق (مطبوعہ 26 ستمبر2015)پٔولیس نے تسلیم کیا ہے کہ یہ راجدھانی دلی میں پانی کے جھگڑے میں ہونے والی پہلی موت ہے ۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک کے بعض دوسرے مقامات سے پانی پر قتل کی واردات کی شرمناک اور اندوہناک اطلاع بھی موصول ہو چکی ہے ۔ دہلی کی پیپل والی گلی جہاں پانی پر موت کی واردات ہوئی اور شاہجہاں کٹرہ گلی جیسے بے شمار پرانے محلے اور نئی کالونیاں ہیں جہاں روزانہ سرکاری نلوں اور ٹینکروں پر پانی کے حصول کے لیے لمبی لمبی لائینیں لگتی ہیں ،جھگڑے ہوتے ہیں اور اس سے پہلے کہ سب کو پانی مل جائے ،نلوں یا ٹینکروں میں پانی ختم ہو جاتا ہے ! رہا وکاس تو اس کا حال یہ ہے کہ آج 2015میں بھی راجستھان گجرات ا ور بندیل کھنڈ وغیرہ میں پینے کے پانی کے حصول کے لیے عورتوں کو روزانہ میلوں پیدل چلنا پڑتا ہے اور !ہمارے حکمرانو ں کو یہ کہتے ذرا شرم نہیں آتی کہ ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ صرف چاند ہی نہیں مریخ تک پہنچ چکے ہیں ! ہم سب کو پینے کا پانی مہیا نہیں کرا سکے ،سب کو بجلی کی روشنی سے فائدہ اٹھانے لائق نہیں بنا سکے ،گاؤوں کو سڑکوں سے نہیں جوڑ سکے اور ہر ندی پر پل نہیں بنا سکے کہ آج بھی ملک میں سیکڑوں ایسے گاؤں ہیں جن کے بچے خستہ کشتیوں میں بیٹھ کر اسکول جاتے ہیں جو ہمیشہ اُووَرلوڈِڈ ہوتی ہیں ،برسات میں اکثر حادثوں کا شکار ہوجاتی ہیں اور کتنے ہی بچے ہر سال اسکول کے بجائے بحر ا لموت کے سفر پر نکل جاتے ہیں !
نیو یارک میں اتوار کو دنیا کے 193 ممالک اگلے پندرہ برسوں کے لیے جس ایجنڈے پر دستخط کریں گے وہ ہمارے نزدیک دنیا کی ماحولیاتی صحت کو ٹھیک کرنے کے بجائے اسے مزید خراب کرنے کا سبب بن جائے تو کوئی تعجب نہیں ۔موجودہ نظام ،موجودہ کارپوریٹ نظام ،بازار کی قوتوں کی بالا دستی والا موجودہ قارونی سرمائی داریت والا سودی معاشی نظام اس دنیا کا کوئی بھلا نہیں کرنے والا ۔ اب یہ دنیا اور زیادہ منافقت نہیں جھیل سکتی ۔ اس دنیا کو بہر صورت و بہر قیمت کامل اور حقیقی نظام عدل و انصاف کی ضرورت ہے ۔اور ہمارے صادق و امین رہبر ﷺنے اس کا وعدہ کیا ہے سو آپﷺ کا وعدہ تو پورا ہوکر رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ خود ہم کہاں کھڑے ہیں ؟ کیا ہم نے خود کو مستقبل کے اُس معیاری نظام ِاِنصاف کے لائق بنایا ہے ؟ ہمیں تو اس سوال کا جواب ہر طرف نفی ہی میں دکھائی دیتا ہے ۔ انصاف کے لیے جد و جہد کو کون کہے کہ ہم تو پوری دنیا میں اُسی گردابِ شر کا حصہ بنے ہوئے ہیں ! اس کائینات کلا خالق بنے نیاز ہے اسے ہم جیسے نٹھلوں اور منافقوں کی کوئی ضرورت نہیں ! (ختم)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *