
ہندوستان میں پانی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے
عالم نقوی
وطن عزیز کے پانی کے 91ذخائرمیں،انگریزی اخبار Sentinel (ڈبرو گڑھ )مؤرخہ8ستمبر کے مطابق، 3ستمبر 2015 کومجموعی طور پر صرف 59فی صد پانی تھا ۔یعنی یہ قدرتی آبی ذخائر 41فی صد خالی تھے! 23ستمبر 2015 کومرکزی آبی کمیشن Central Water Commissionکے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطا بق (انڈین ایکسپریس 28ستمبرص9) مانسون کی صورت حال نسبتاً بہتر ہونے کے باعث مذکورہ 91آبی ذخائر میں سے 40 میں 80فی صد یا اس سے کچھ زیادہ پانی تھا جبکہ 51ذخیروں میں پانی کی مقدار 51سے 80فیصد کے درمیان تھی ۔صرف گنگا ،نرمدا ،سابرمتی اور کچھ (KUTCH)کے دریاؤں میںاوسط سے زیادہ پانی موجود تھا بقیہ کرشنا ،کاویری ،گوداوری ،مہاندی ، ماہی ،تاپی ،مغرب کی طرف بہنے والی جنوب کی ندیاں اور دریائے سندھو و غیرہ اور ان کے طاس علاقے یعنی جہاں ہونے والی بارش کا پانی بہ کر ان دریاؤں اور ندیوں میں آتا ہے ،سب تقریبا سوکھے پڑے ہیں ۔ ان میں اتنا بھی پانی نہیں جو اس وسیع علاقے کی تمام آبی اور برقابی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق مذکورہ 91آبی ذخائر میں 23 ستمبر کو صرف 95.313ارب مکعب میٹر (بلین کیوبک میٹر )پانی تھا جو مجموعی صلا حیت کے 60فیصدسے زائد نہیں تھا ۔ امیتابھ سنہا نے ، انڈین ایکسپریس 28 ستمبر 2015میں ،لکھا ہے کہ پانی کی یہ مقدار سال گزشتہ کی اسی تاریخ کے مقابلے 25 فیصد کم ہے ! یعنی قدرت بھی مودی سرکار کے کرتوتوں کے باعث ہم پر مہر بان نہیں ۔ اگرچہ وسطی اور شمالی ہندستان کی صورت حال نسبتاً بہتر ہے لیکن جنوبی اور مغربی ہندستان کے حالات قطعاً اطمینان بخش نہیں ۔ امسال جولائی کے آخر تک صورت حال قدرے ٹھیک تھی لیکن اگست اور ستمبر کے سوکھے چلے جانے کے سبب ،سب کچھ بدل گیا ۔
یعنی مجموعی طور پر ملک بڑے آ بی بحران کی زد میں ہے ۔جون سے شروع ہونے والا برسات کا موسم اپنے چار مہینے پورے کر کے دو روز بعد ختم ہورہا ہے ۔ملک کے متعدد حصے نہ صرف قحط سالی کے شکار ہیں بلکہ نصف سے زیادہ آبادی پانی اور بجلی کی شدید قلت سے دوچار ہو نے والی ہے ۔کسانوں کی خود کشی کے مسئلے کا کوئی حل اس حکو مت کے پاس نہیں جسے صرف طبقہ امرا کی فکر ہے جو ایک طرف کارپوریٹ سکٹر یعنی ملک کے تمام بڑے چھوٹے اڈانیوں اور امبانیوں کو ٹیکسوں میں لاکھوں کروڑوں روپؤوں کی چھوٹ دے رہی ہے ،سرکاری بینک اربوں روپئے قرض لے کر ادا نہ کرنے والے اِن ہی چوروں ،لٹیروں اور نادہند صنعت کاروں کے لاکھوں کروڑ روپئے کے قرضے معاف کر رہے ہیں اورکروڑوں اربوں کے مقابلے میں چند ہزار اور چند لاکھ روپئے کے چھوٹے چھوٹے قرض داروں کا جینا حرام کیے ہوئے ہیں ،کسان تو غریب بیس بیس ہزار روپئے کے قرض کے لیے خود کشی کر رہے ہیں اور اب چار لاکھ روپئے تک کی سالانہ کی آمدنی رکھنے والے بینک کھاتہ داروں اور پَین کارڈ ہولڈروں سے مزید ٹیکس وصولی کا منصوبہ ہے !کہتے ہیں کہ ہم ٹیکس دینے والوں کی تعداد کو ایک کروڑ تک پہنچانا چاہتے ہیں !حالانکہ اگریہ صرف کالے دھن پر شکنجہ کس لیں ، کالا دھن بنانے والوں کو جیل میں ڈال کر ان سے واقعتاً چکی کی مشقت کرائیں اور ملک کے باہر پڑا ہوا سارا کالا دھن حسب وعدہ واپس لے آئیں اور سب سے بڑھ کر ملک کے دس فیصد کھرب پتیوںسے ایمانداری کے ساتھ انکم ٹیکس ،دولت ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس وصولی کریں تو ملک کے سارے دَلِدًر اپنے آپ دور ہو جائیں ۔
ہم نام نہاد میک ان انڈیا اور ڈیجیٹل انڈیا منصوبوں او ر سوا سال کے قلیل عرصے میں مودی کے دو دوامریکی دوروں سے نہ خوش ہیںنہ خوش گمان ۔ سنگھی لیڈروں اور کارپوریٹ میڈیا کے یہ سارے دعوے کھوکھلے ہیں کہ مودی کے دوروں نے بھارت کو عزت بخشی ہے یا بھارت کو دنیا کے اہم اور طاقتور ملکوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے ۔زمینی حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ ملک کے 80 فیصد غریبوں ،کمزوروں ،دبے کچلے ہوئے محروم لوگوں سے جن میں 14فیصد مسلمان بھی شامل ہیں،دنیا کے کارپوریٹ زاروں کو ،کوئی سروکار نہیں ( اگرچہ مسلمانوں کی تعداد ملک میں 20 فیصد سے کسی طرح کم نہیں لیکن ہم نے مردم شماری رجسٹر ہی کے مطابق تعداد لکھی ہے )اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رکنیت بھی ہمارے نزدیک ہر گز کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ وہ عالمی استبداد و استعمار کی بد ترین علامت ہے جس نے بازار کی قوتوں اور صہیونی اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے سوا پچھلے 68 برسوں میں اور کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ۔ ان 68 برسوں میں دنیامیں جتنے لوگ اقوام متحدہ اور ۔۔غیر سلامتی کونسل ۔۔کی نگرانی میں مارے گئے ہیں انکی تعداد دوسری جنگ عظیم کے مہلوکین سے کچھ ہی کم ہوگی ! نریندر مودی نے مئی 2014سے ستمبر2015تک 17مہینوںکے دوران جو دنیا بھر کے 29دورے کیے ہیں اور دو ماہ سے زائد (قریب 70دن) کا قیمتی وقت ان پرضایع کیا ہے ،وہ ہمارے نزدیک ۔عالمی جمہوری آمروں ۔کے اسراف کی غیر ضروری پیروی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ مودی نے ان دوروں کے ذریعے خود کو امریکہ ،روس ،چین اور برطانیہ کے لیڈروں اوباما ،پوتن ،زی پنگ اور کیمرون کے برابرثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی ہے ۔
ہم نے ابھی تک مغربی قارونی سامراج کی نقالی اور غلامی کے سوا اور کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا ہے ۔اور اب سنگھ پریوار کی نئی سامراج دوست حکومت صہیونی مقتدرہ کی مسلم دشمنی اور اسلام دشمنی کے بھی قدم بقدم تتبع میں مصروف ہے!
اروند کجری وال بلا شبہ ایک عام آدمی ہیں اور اسی لیے ہر عام آدمی کے دل کی دھڑکن ہیں ۔انہوں نہایت سادہ ،سلیس اور عام فہم زبان میں 27 ستمبر 2015 کو مودی جی اور ان کے غیر ملکی دوروں کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہی زمینی حقیقت ہے کہ ۔۔دنیا کے سامنے گڑ گڑا تے پھرنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ اگر ملک اور ملک والے ، اچھے ہو جائیں ، تو باقی سب اپنے آپ اچھا ہو جائے گا ۔ اگر ہم اپنے لوگوں میں اِنوِسٹ کریں گے اور ملک کے ہر عام آدمی کوبا اِختیار بنائیں گے تو ۔میک ان انڈیا ۔ اپنے آپ ہو جائے گا ۔ میک انڈیا ْ۔کے بغیر میک ان انڈیا کے کوئی معنی نہیں۔پوری دنیا میں گھوم گھوم کر گڑ گڑانے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو ایسا بنائیں کہ دنیاخود ہمارے دروازے پر آکے گڑگرائے ۔ عام آدمی ہی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے ! بات پانی سے شروع ہوکر مودیائیتک پہنچ گئی ۔ہم کہنا یہی چاہتے ہیں کہ جھوٹ بولنے ،اسراف کرنے ،اور ملک کے ساٹھ فیصد دلتوں ،آدی باسیوں اور پسماندہ لوگوں کو اوپر اٹھا نے کے بجائے ملک کی مزید 14 فیصد آبادی کو دلتوں سے بد تر بنادینے کی کو شش کرنیوالے ملک کونئی تباہی اور نئی بربادی کی سمت ڈھکیل رہے ہیں ۔ اور ملک کے بدخواہوں کی تعداد بیس فی صد سے قطعاً زیادہ نہیں بلکہ کچھ کم ہی ہوگی ۔ وطن عزیز کی اکثریت آج بھی امن پسند اور انصاف دوست ہے !