ٹیسٹا ،سدھارت اور رویش!ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

Ravish Kumar

عالم نقوی
نوئڈا کی دہشت گردی پر ،جس میں وحشت اور بر بریت کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے محمداخلاق اور اس کے بیٹے دانش کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ محمد اخلاق کی موت ہوگئی اور دانش اسپتال میں مردوں سے بد تر حالت میںپڑا ہوا زندگی سے جوجھ رہا ہے ،تیستا سیتل واڈ ،سدھارت ورد راجن اور این ڈی ٹی وی کے رویش کمار نے تبصرہ کرتے ہوئے جس غیر معمولی بے باکی اور اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کیا ہے وہ فی زمانہ کم یاب ہے ۔
تیستا لکھتی ہیں کہ ۔۔مودی جی نے اب بھی زبان نہ کھولی تو پھر وہ کب بولیں گے کیونکہ پیر کی رات کو گریٹر نوئڈا کے جارچہ پولیس تھانے کے علاقے میں واقع دادری کے بسارا(یا ،بسہڑ)ا گاؤں میں جو کچھ ہوا وہ اسی ہسٹیریا کا نتیجہ تھا جو ذبیحہ گاؤ کے معاملے میں منصوبہ بند طریقے سے ملک کے مختلف حصوں میں جان بوجھ کر 2014 کے عام انتخابات کی ریلیوں میں پھیلایا گیا تھا ۔ ۔ہم اس وقت گلابی انقلاب Pink Revolution کے اگلے مرحلے میں ہیں جس میں ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ انسانی گوشت کا رنگ بھی وہی ہے جسے مودی جی معصومیت یا عیاری کے ساتھ ۔۔مٹن۔۔ کہتے ہیں۔۔!
مشہور صحافی اور سماجی کارکن(سوشل ایکٹی وسٹ)سدھارت وردا راجن نے اپنی یکم اکتوبر کی ای میل پوسٹ میں لکھا ہے کہ ۔۔اب آپ اپنی خواہش اور مرضی کے حق غذا کو بھول جائیے ،اس لیے کہ اب تو ہمیں اپنے اس حق کے لیے لڑنا ہے کہ ہم جو کھائیں اس کے لیے قتل نہ کیے جائیں ۔ ۔
محمد اخلاق ٹھاکروں(ہندو راجپوتوں ) کی بستی میں رہنے والا واحد مسلمان کسان خاندان تھا ۔اس کی یا اس کے اہل خانہ کی ذات سے اس کے پڑوسیوں کو کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی تھی ۔ لیکن اتوار کو سوشل میڈیا پر یہ افواہ اڑا دی گئی کہ محمد اخلاق نے گائے کی قربانی کی ہے ،سب نے اس کا گوشت کھایا ہے اور اخلاق نے کھال اور آنتوں وغیرہ کو ایک بورے میں بھر کر گاؤں کے باہر دفن کر دیا ہے ۔ پھر دادری کے ایک مندر سے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان ہوتا ہے کہ اخلاق کے گھر بیف کھایا جاتا ہے اور اس کے فریج میں اب بھی بیف موجود ہے ۔ یہ اعلان ہوتے ہی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے اور 28 فروری 2002کی احسان جعفری کے قتل کی تاریخ دادری یو پی کے گاؤں بسارا میں دہرا دی جاتی ہے ۔اخلاق کو اس کی 18 سالہ بیٹی ساجدہ کے سامنے برہنہ کر کے بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے بھائی دانش کوبھی اپنی دانست میں قتل کر کے بھیڑ واپس چلی جاتی ہے ۔ اور نامزد رپورٹ کے بعد دوسرے دن جب پولیس قاتلوں کو گرفتار کرتی ہے تو اُس پر بھی حملہ کر دیا جاتا ہے ۔پولیس مجبور ہو کر فائرنگ کرتی ہے جس میں ایک نوجوان ہلاک ہو جاتا ہے ۔اور اب اس پر سیاست شروع ہو جاتی ہے لیکن مسئلے کی سنگینی پر کسی کی نگاہ نہیں جس کی طرف سر دست صرف تیستا اور سدھارت نے توجہ دلائی ہے کہ یہ سب کچھ دو دن میں نہیں ہواہے ،اس کے ڈانڈے براہ راست 2014 کے جنرل الکشن کے موقع پر نریندر مودی کی انتخابی تقریروں سے ملتے ہیں ۔ سدھارت نے لکھا ہے کہ ۔۔میں نے خود مغربی یوپی میں (جو دادری سے زیادہ دور نہیں )اور بہار میں مودی کو تفصیل کے ساتھ عوام کو گلابی کرانتی Pink Revulutionکے خطرات سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے کانوں سے سنا ہے ۔مودی اپنی تقریروں میں کہتے تھے کہ اگر کانگریس کی لائی ہوئی یہ ۔گلابی کرانتی ۔بند نہ کرائی گئی تو ہندستان کے گاؤوں میں ایک گائے بھی نہیں بچے گی ۔مودی تلبیس حق و باطل کرنے اور حقیقت اورمفروضے Fact AND Fictionکو خلط ملط کرنے کے ماہر ہیں وہ اپنی انتخابی تقریروں میں کسانوں کے ،پشو دھن ،گائے اور مٹنMUTTONکا استعمال اس طرح کرتے تھے جیسے ان کے مفہوم و معنی ٰ ایک ہی ہوں ! وہ کسانوں اور گاؤوں والوں کے مجمع میں فرماتے تھے کہ ۔۔ہم نے سبز انقلاب green revulutionسفید انقلاب white revolutionکے بارے میں تو سنا ہے لیکن یہ گلابی کرانتی صرف کانگریس کا ایجنڈا ہے ۔اگر بی جے پی اقتدار میں نہ آئی تو کسان اپنے پشو دھن سے پوری طرح محروم کر دیے جائیں گے۔ ۔آپ کو معلوم ہے مٹن کا رنگ گلابی ہوتا ہے اور وہ یہ پاپ صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ دیش میں گلابی کرانتی لا سکیں اور اسی لیے ہمارا پشو دھن قتل کیا جا رہا ہے ہماری گائیں ذبح کی جا رہی ہیں یا ذبح کرنے کے لیے ودیشوں میں بھیجی جا رہی ہیں اور کانگریس کہتی ہے کہ اگر تم ہمیں ووٹ دوگے تو ہم تمہیں گائے کو قتل کرنے کی اجازت دے دیں گے ۔۔اور بہار میں مودی جی کہتے تھے کہ ۔۔میںیادووں اور یادو ونش کے لوگوں ملائم سنگھ اور لالو پرساد سے پوچھتا ہوں کہ بھلا کانگریس کی حمایت وہ کس طرح کرتے ہیں جبکہ وہ گلابی کرانتی لانا چاہتی ہے؟ جب ایک پشو کا ودھ کیا جاتا ہے تو اس کے گوشت کے رنگ کو گلا بی کرانتی کہتے ہیں ! اس طرح ہمارے گاؤوں کو پشو دھن سے خا لی کیا جا رہا ہے اور ہمارے پشو چوری کر کے بنگلہ دیش بھیجے جا رہے ہیں اور جب کوئی گائے کو قتل کرنے اور پشوؤں کا وَدھ کرنے کے لیے سلاٹر ہاؤس کھولتا ہے تو یہ کانگریس حکومت اسے سبسڈی دیتی ہے ۔۔
تو یہ جو دادری کے ایک گاؤں میں محض یہ افواہ اڑا کر کہ ایک مسلمان کسان نے اپنے گھر کے فریج میں گائے کا گوشت رکھا ہوا ہے اس کا بے رحمانہ اور سفاکانہ قتل کرا ڈالا ، کیا یہ ان ہی تقریروں کا راست نتیجہ نہیں ؟
اور رویش کمار نے لکھا ہے کہ دادری میں جو کچھ ہوا ہے وہ کوئی معمولی واردات نہیں سیکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع ہو کر کسی کو گھر سے کھینچ کر مار دیں ،مارنے سے پہلے اس کے گھر میں ایسا قہر برپا کریں جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کیا اسے محض ایک وحشیانہ تشدد کہدینے سے بات مکمل ہو جائے گی ؟ اور وہ بھی صرف اس افواہ پر کہ اخلاق نے گائے کا گوشت کھایا ہے اور فرج میں بھی رکھا ہے ؟یہ اپنے ملک میں ہو کیا رہا ہے ؟کیا یہی ترقی کی نشانی ہے ؟ اخلاق کے ایک پڑوسی پرشانت نے جو پڑھا لکھا نوجوان اور پیشے سے انجینیر تھا ،کہا کہ جب بٹوارہ ہو گیا اور مسلمانوں نے پاکستان لے لیاتو گاندھی اور نہرو نے مسلمانوں کو یہاں کیوں روکا ؟ رویش کمار کہتے ہیں کہ میں سہم گیا ۔ وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ دادری سے لوٹتے وقت مجھے ایسا لگا جیسے میں ایک اور لاش کے ساتھ لَوٹ رہا ہوں ۔ہماری سیاست موقع پرستی ، بزدلی
اور بد ترین فرقہ پرستی کی جماعت ہو کر رہ گئی ہے اس دیش کا کیا ہو گا ؟ (ختم)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *