
دادری سانحہ قانونی کارروائی پر توجہ دینے کی ضرورت :ایڈوکیٹ مچھالہ

نمائندہ خصوصی معیشت ڈاٹ اِن
ممبئی:(معیشت نیوز ) دادری میں فرقہ وارانہ منافرت کی انتہا کے تناظر میں اخلاق احمد کا بہیمانہ اور بزدلانہ قتل کے بعد کیا ہندوستان کا ضمیر بیدار ہو رہا ہے ؟یہ سوال اس لئے دماغ میں آیا کہ اب کچھ سنجیدہ گفتگو بھی ہونے لگی ہے ۔احتجاج اور دھرنوں اور اس درندگی کے خلاف پریس کے ذریعہ اپنی بات ارباب اقتدار تک پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل امیٹی اور اے پی سی آر کی جانب سے مراٹھی پتر کار سنگھ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئیاے پی سی آر کے کل ہند صدر یوسف حاطم مچھالہ نے بہت ہی چبھتی ہوئی بات کہی کہ وزیر اعظم نے یو این میں کہا کہ’’ آج تک دہشت گردی کی تعریف متعین کرنے میں دنیا ناکام ہے‘‘ ۔ایک اچھی بات ہے لیکن وہ یہی سوال اپنے ضمیر سے کریں کہ ملک میں دہشت گردی کی تعریف کیامتعین ہے ؟انہوں نے دہشت گردی کے کئی اقسام بتائے اول انہوں نے کہا کہ وہ دہشت گردی ہے جیسے کوئی شخص یا تنظیم کہیں بم پھینک کر بے گناہوں کو قتل کرے لیکن سکے کادوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ایک تو اس دہشت گردانہ کارروائی کو روکنے میں حکومت اور انتظامیہ ناکام ہوتی ہے تو وہ بھی ایک طرح کی دہشت گردی ہی ہے ۔ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسٹیٹ مشنری خود واردات انجام دیتی ہے وہ بھی ایک دہشت گردی ہے۔اخلاق جیسے قتل کی واردات کو بھی دہشت گردانہ کارروائی ماناجائے ۔اس طرح کی واردات کے لئے کون ذمہ دار ہے؟جب تک اس طرح کی بہیمانہ واردات پر صرف بیان بازی ہوتی رہے گی یہ نہیں رکیں گے۔اصل کام کارروائی کرنے کی ہے ایسے سانحہ کو روکنے کے لئے سخت ترین عمل کی ضرورت ہے۔انہوں نے میڈیا میڈیا کے کردار پر سوال اٹھائے اور کہا کہ اندرانی مکھرجی والے معاملات کی طرح اخلاق کے قتل میں تفتیشی نقطہ نظر سے سوالات کیوں نہیں اٹھائے جارہے ہیں ؟قانونی طور پر کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ چار فٹ والی اس گلی میں جس میں اخلاق کا گھر ہے اس میں ہزار سے زیادہ لوگ جمع تھے کیا یہ ممکن ہے ؟یہی وہ اہم نقطہ ہے اس میں سیاست تو کی جاسکتی ہے لیکن قاتلوں کو سزا نہیں ہو سکتی کیوں کہ کسی گروہ کے ذریعہ قتل کی واردات انجام دینے یا جنونی کارروائی کرنے میں شناخت کا مسئلہ قانونی کارروائی میں روکاوٹ بنے گا انہوں نے کہا کہ ایک جنونی گروہ کے ذریعہ اخلاق کا قتل قانون کی حکمرانی کا قتل ہے ۔انہوں نے مشورہ دیا کہ مختلف سطح پر اس کیس کے لئے تیاری کی جائے جو زمینی طورپر اخلاق کے مقدمہ کو دیکھے ۔لیکن ہم ابھی تک اس کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ہم نے آج تک اس جانب پیش قدمی نہیں کی ہے ۔گروہ کے ذریعہ بہیمانہ قتل کو بھی دہشت گردانہ کارروائی میں گنا جائے ۔یہی نہیں اسے اکسا نے والوں پربھی دہشت گردانہ کارروائی میں لایا جائے ۔ہر وہ شخص جو نفرت پھیلانے کا کام کرے اسے بھی دہشت گردانہ کارروائی میں لایا جائے ۔حاطم مچھالہ نے کہا کہ عدلیہ میں بعض مقدمات اظہار رائے کی آزادی کی متعینہ تعریف نہیں ہونے کی وجہ سے بھی زہریلا بیان دینے والے بچ جاتے ہیں ۔ایک اہم نقطہ کی جانب انہوں نے اشارہ کرتے ہوئاے کہا کہ ہم بیدار شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ ہم ہر قانون کے نفاذ پر دھیان دیں کہ اس قانون کا نفاذ ٹھیک طرح سے ہو رہا ہے کہ نہیں ۔آج تک شہریوں کا کوئی وجیلنس گروپ نہیں بنا جو قانون کے نفاذ پر نظر رکھے ۔اس طرح کے سانحہ کے لئے انتظامیہ کو ذمہ دار بنانے والا کوئی قانون بھی سے موجود ہی نہیں ہے۔
جماعت اسلامی ممبئی میٹرو کے ہمایون شیخ نے کہا کہ دادری سانحہ پہلا نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں ۔اس سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے ۔اس سے سماجی تانا بان بکھر رہا ہے ۔حکومت کا رویہ اس تعلق سے انتہائی سرد ہے ۔اتنے بڑے واقعات پر خاموشی کیا ظاہر کرتا ہے ۔ریاستی حکومت کا رویہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امن و قانون کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے ۔کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ بھی فسادیوں کے ساتھ ہے ۔ریاستی حکومت بھی فرقہ پرستوں کے آگے سرنگوں ہو گئی ہے یہی وجہ ہے دادری میں قتل کے بعد پولس اخلاق کے گھر سے گوشت ضبط کرتی ہے ۔جبکہ اسے سب سے پہلے قاتلوں کو گرفتار کرنا چاہئے تھا ۔
فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل امیٹی کے عبد الحفیظ فاروقی کے مطابق ہم ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں گرفتار ہو گئے ہیں ۔ہمارے یہاں ایک بہت ہی جھوٹا سا طبقہ دھونس اور دھاندلی سے ایک بڑے طبقہ کو غلام بنا کر اپنی مرضی ان پر تھوپنے کی جبراً کوشش کر رہا ہے ۔ہمیں انتہائی صبر اور تحمل سے کام لے کر اس طبقہ کی سازش کو بے اثر کرنا ہے ۔ انصاف پسندوں کے ساتھ مل کر اس فسادکے خلاف لڑنا ہو گا ۔سماج میں نفرت پھیلا کر اتنا زہریلا بنادیا گیا ہے کہ ایک معمولی سی افواہ سے بھی کسی کے گھر میں گھس کر اس کا قتل کردیا جاتا ہے ۔انہوں نے میڈیا کی کو اس کی ذمہ داری یاد دلاتے ہوئے کہا کہ پریس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس طرح کے ظلم و جبرکے خلاف عوام کو متحد کرنے میں اہم کردارادا کرے جیسا کہ گجرات فساد کے موقع پر اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور عدم مساوات کو عالمی طور پر حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والوں تک پہنچایا ۔