مدارس اور علماء کے تعلق سے ہمارے معاشرے میں ایک محدود سوچ نے اپنی جڑ مضبوط کرلی ہے اور وہ ہے کہ مدارس کے فارغین معاشرے کے لئے سود مند نہیں ہو تے ۔مدارس سے فراغت کے بعد وہ مدرسہ میں معلمی یا کسی مسجد میں امامت کریں گے یا ایک اور مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے ۔ایک اور بہت ہی غلط سوچ بھی ہے کہ یہ لوگ اس کے علاوہ کچھ کرہی نہیں سکتے ۔لیکن یہ ساری سوچ ہماری بیمار ذہنیت کی عکاس ہے ۔کچھ کمی تو بہر حال ہے جنہیں تنقید سے زیادہ خاموشی کے ساتھ اس جانب قدم بڑھانے سے دور کیا جاسکتا ہے ۔ اس جانب ہماری کوشش رہے گی کہ مدارس کے فارغین نے روایت سے ہٹ کر کاروبار زندگی میں اپنی خاص شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی الگ سے کوئی پہچان بنائی ہے انہیں قارئین کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ کچھ لوگ ہی سہی لیکن جو کچھ بھی کام کررہے ہیں اس سے عام لوگ روشناش ہو سکیں ۔مولانا لطف الرحمن ندوی جو کہ ایک مدرسہ میں معلم ہیں کا کہنا ہے کہ مدارس کے فارغین میں اب عام ٹرینڈ بنتا جارہا ہے روایتی طور سے ہٹ کر وہ دوسرے پیشوں میں جارہے ہیں ۔اس کی پہلی کڑی کے طور پر ہم آپ کی ملاقات ایک ایسے عالم سے کروارہے ہیں جنہوں نے مدرسہ سے فراغت کے بعد روایت سے ہٹ کر حصول رزق کے لئے تجارت کررہے ہیں ۔اگلی قسط میں سلسلہ وار دو ایسے مفتی صاحبان کے کارناموں کو پیش کریں گے جنہوں نے تعلیمی میدان میں اہم کارنامے انجام دیئے ہیں ۔ہماری کوشش ایسے علما کو پیش کرنے کی ہوگی جو غیر معروف ہیں لیکن ان کے کارنامے عام مسلمانوں خاص طور سے مدارس کے فارغین کو حوصلہ بخشنے والے نیز ان کو نئی راہوں سے روشناش کرانے والے ہیں۔
معیشت ڈاٹ ان:آپ کا تعلق کہاں سے ہے نیز اپنی تعلیمی لیاقت کے بارے میں مختصر بتائیں؟
مولانا مشتاق قاسمی : ضلع سنت کبیر نگر اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں امتھری کا رہنے والا ہوں ۔مشہور دینی ادارہ دارالعلوم دیوبند سے 2000 میں عالمیت اور فضیلت کی سند کے بعد مہاراشٹر کا رخ کیا اور کولہا پور اور سانگلی وغیرہ کی مختلف مساجد میں امامت اور خطابت کے فرائض انجام دینے کے بعد 2004 میں ممبئی آیا ۔
معیشت ڈاٹ ان :ممبئی میں اپنی زندگی کی شروعات کس طرح کی ؟
مولانا مشتاق قاسمی :ممبئی کے مضافات کاندیولی مغرب کے لال جی پاڑہ کی نورانی مسجد میں امام و خطیب کی ذمہ داری سونپی گئی۔جہاں میں نے پانچ سال یعنی 2009 تک ان فرائض کو ادا کرتا رہا۔اس کے بعد میں نے تجارت میں قدم رکھا۔
معیشت ڈاٹ ان :مساجد و مدارس سے یکلخت ہی تجارت کی جانب مڑنے کی وجہ کوئی واقعہ یا کوئی خاص بات بنی ؟
مولانا مشتاق قاسمی: شروع سے ہی میرا ارادہ تجارت کرنے کا تھا ۔بس خاص موقع اور شہر کی تلا ش تھی جہاں تجارت کے مواقع زیادہ بہتر ہوں وہ ممبئی میں آکر پوری ہوئی ۔
معیشت ڈاٹ ان :دوران امامت کوئی تلخ تجربہ ؟
مولانا مشتاق قاسمی :سنتا تو بہت کچھ ہوں لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔پورے وقار اور احترام کے ساتھ امامت و خطابت کی ذمہ داری ادا کیں ۔نہ مجھے کسی سے کوئی شکایت نہ کسی کو مجھ سے شکوہ۔
معیشت ڈاٹ ان:آپ نے تجارت کب سے شروع کی اور کس چیز کی ؟
مولانامشتاق قاسمی: 2009 میں نورانی مسجد کی امامت چھوڑ کر پلاسٹک گرائنڈنگ مشین لگائی۔ایک طرح سے یہ بھی پلاسٹک کی ریسائکلنگ سے جڑا ہوا کام ہے ۔ پلاسٹک کی بوتلیں اور دوسری ٹوٹی پھوٹی چیزیں اس مشین میں پسی جاتی ہیں ۔اس کے بعد یہ ایک دیگر مشین میں دانہ بننے کے لئے جاتاہے ۔اور پھر ان دانوں سے مختلف چیزیں بنتی ہیں ۔ گرائنڈنگ مشین تو بند ہے لیکن اب پلاسٹک دانہ فیکٹریوں کو سپلائی دیتا ہوں جس میں گزر بسر کے ساتھ ہی بچت بھی ہو رہی ہے اور میں ابھی اس پوزیشن میں ہوں کہ عملاً معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کسی کی مدد کر سکتا ہوں۔
معیشت ڈاٹ ان :موجودہ حالات میں کہیں مسلمان یا ایک عالم والی شناخت کی وجہ سے کاروبار میں کوئی دقت یا پریشانی آتی ہے ؟
مولانا مشتاق قاسمی :میرا کاروباری تعلق ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں سے ہی ہے ۔حالات خراب ضرور ہیں ۔تعصب بھی ہے لیکن اس کا کھل کر کوئی اظہار نہیں کرتا ۔میں صرف کاروباری معاملات کو ٹھیک رکھ کر تجارت کررہا ہوں اور تعصب اور تنگ نظری کے باوجود کوئی خاص پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا ہے ۔اللہ کا فرمان ہے کہ ’’اے ایمان والو میرے اور اپنے دشمن سے ددوستی مت کرو ‘‘ بس اللہ کے اس فرمان کے مطابق میں کاروبار کررہا ہوں دوستی نہیں ۔
معیشت ڈاٹ ان :مدارس کے فارغین یا ائمہ مساجد کے لئے کوکیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
مولانا مشتاق قاسمی :علماء اور ائمہ کے لئے تجارت حصول رزق کا سب سے بہتر ذریعہ ہے ۔مدارس کے فارغین یا مساجدکے امام جن کے بارے میں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ انتہائی قلیل تنخواہ میں فرائض کی انجام دہی کی وجہ سے ہمیشہ معاشی مشکلات سے جوجھتے رہتے ہیں ،جب کسی طرح کی مدد کے لئے میرے پاس آتے ہیں تومیں انہیں پیشکش کرتا ہوں کہ مجھ سے روپئے لیں اورچھوٹے پیمانے پر ہی سہی لیکن تجارت شروع کریں یہ مدارس کی معلمی اور مساجد کی امامت سے بدرجہ اتم ہے ۔یہی میرا پیغام بھی ہے طبقہ علما کے لئے کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور اس جہان میں امامت و خطابت کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس سے آپ حلال رزق حاصل کر سکتے ہیں ۔ تجارت کے بارے میں ایک حدیث کا مفہوم بھی ہے کہ رزق کے دس حصے ہیں اور تنہا نو حصہ تجارت میں ہے۔