بیماریوں پرمعقول غذا اور پر اعتدال زندگی سے قابو پایا جاسکتا ہے

Diet
عطااللہ طاہر خان
آپ کو یہ بات سن کر شاید حیرانی ہو کہ موجودہ سنگین بیماریوں اور بے ترتیب لائف اسٹائل کی وجہ سے بہت سی بیماریاں لا علاج ہوتی جا رہی ہیں،جس کی وجہ ہم خود ہیں ۔کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کی اگر ہم کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہمیں ہمارے فیملی ڈاکٹردوا کے ساتھ ساتھ ڈائٹ کا بھی سختی سے تجویز کرتے ہیں مثال کے طور پر معیادی بخار(ٹائفائڈ) یا یرقان(پیلیا)میں زیادہ روغنی یا تلی ہوئی چیزیں،گوشت،وغیرہ کا سختی کے ساتھ اپنے کھانے میں لینے سے مریض کو منع کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اینٹی بایوٹیک دوا کا کورس بھی آپ کے فیملی ڈاکٹر دیتے ہیں لیکن پرہیز(ڈائیٹ)کا بھی اتنا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے، جتنا دوا وقت پر لینا ضروری ہوتا ہے ۔اسی طرح اگر شوگر کے مریض کو بہتر سے بہتر دوائیں مریض کا ڈاکٹر تجویز کرتا ہے لیکن ڈائیٹ اور نیوٹریشن جس کی مریض کو سخت ضرورت ہوتی ہے اس کی تجویز ڈاکٹر ضرور کرتے ہیں کیونکہ کسی بیماری میں دوا سے زیادہ ڈایئٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔جب ڈایئٹ کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ نیوٹریشن بھی ہمارے جسم کے لیئے نہایت ضروری ہے، تاکہ ڈایئٹ کی وجہ سے ہمارا جسم کمزور نہ پڑ جائے نیوٹریشن مطلب جتنی وٹامنس،پروٹینس،کیلشیم،منرلس،وغیرہ کی ہم کو ضرورت ہو اتنی ہی ہم اپنی غذا میں شامل کر سکتے ہیں۔ نہ زیادہ نہ کم تاکہ بیماری کا علاج صحیح طرح سے ہوسکے اگر ہم بیمار نہ بھی ہوں تو بھی ہم کو اپنی بیلینس ڈایئٹ کا خیال رکھنا چاہیے، اس سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ ہم کسی بڑی خطرناک بیماری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں اتنی تیزی سے بڑھتی بیماریوں کا ذمہ دار بدلتا لائف اسٹائل، کام کی مصروفیت کی وجہ سے کھانا وقت پر نہیں کھانا،بار بارکھانا،کھانے میں جنک فوڈ کا زیادہ استعمال کرنا پھلوں کے بجائے کولڈرنک کو ترجیح دینا زبان کے ذائقہ کے لیئے پیٹ بھر کھانا کھاکر بھی بار بار بکریوں کی طرح جگالی کرنا۔اس سے معدہ خراب ہوتا ہے اور تیزابیت کی شکایت ہوتی ہے اور مستقل ایسیڈیٹی کی شکایت رہتی ہے۔ پیٹ باہر نکل آتا ہے جسم بے ڈول نظر آنے لگتا ہے وزن بڑھ جاتا ہے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ معدہ میں زخم بن جا تا ہے جو رک رک کر پیٹ کی درد کی شکل میں ابھرتا ہے ایسڈیٹی کی دوا مستقل استعمال کرنے کے با وجود خاطر خواہ راحت نہیں ملتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کچھ تھوڑا بھی کھائے تو الٹی کی شکایت ہونے لگتی ہے اور ہم خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بیمار کرلیتے ہیں۔ خود اپنی پرہیز (ڈایئٹ)نہیں کرکے لا پر واہی کی وجہ سے بیماری کو اپنے تندرست جسم کے اندر مفت میں داخلہ دیتے ہیں اور الزام بیماری پر لگا دیتے ہیں آپ ذرا خود غور کیجئے کہ اس میں کس کی غلطی ہے ہماری یا پھر بیماری کی۔ اسی طرح ایک شخص ہے جو آفس یا کمپنی کے کام سے وابستہ ہے دن بھر آفس کا کام اور چھٹی ہونے کے بعدرات کا کھانا فیملی کے ساتھ کھانے کے بعد بغیر کسی چہل قدمی کے آرام سے سو جاتے ہیں اور صبح اٹھ کر آفس چلے جاتے ہیں ۔آگے چل کر کولیسٹرول وغیرہ بٹرھتا ہے تو کولیسٹرول کم ہونے کی دوا لے لیتے ہیں پھر آگے چل کر شوگر کی شکایت ہوتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے ہم اپنی لا پر واہی کی وجہ سے اتنی ساری بیماریوں کو خود دعوت دیتے ہیں اگر ہم تھوڑی سی بھی توجہ دے لیں تو اپنے آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ہمیں یہ بات ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ اگردل یا ذیابطیس کے مریض کو شکر یا تیل سے بنی اشیاء نقصان کر سکتی ہیں تو پھر ہرے پتے والی سبزیاں ترکاریاں،تازہ پھل،جسمانی ورزش،یہ فائدہ کیوں نہیں کر سکتے؟اگر ہم ان غذاؤں کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کر لیں تو کسی حد تک خطرناک بیماریوں سے محفوظ رہنے میں کافی مدد ملے گی ۔ہمیں زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں دواؤں کے بجائے اچھی غذاؤں کو ترجیح دیں ان کے ساتھ ساتھ تازہ موسمی پھلوں کا استعمال کثرت سے کریں اگر ہم ان کا کثرت سے استعمال کریں گے تو مستقبل میں بیماریوںے لڑ سکتے ہیں ۔جب تک ہم اپنی غذائی عادتوں کو نہیں بدلیں گے تب تک ہم اسی طرح بیماریوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور دواؤں کو ڈھال سمجھ کرچلتے رہیں گے تو آگے چل کر یہ ڈھال ہمارے کچھ کام نہ آئیگا۔اور ایک دن بیماری ہم کو اپنا شکار بنا لے گی اس بات کا ہمیں خود خیال رکھنا ہوگا ۔ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگاکہ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی یا لائف اسٹائل بدلیں۔سونے کی عادات کو کنٹرول میں رکھیں کھانا وقت پر اور صحیح غذاکا انتخاب کریں۔ سرخ پھلوں کا اور پیلے پھلوں کا زیادہ استعمال کریں۔ہری پتی والی سبزیوں کا کثیر تعداد میں استعمال کریں اکثر بیماریاں جب بڑھ جاتی ہیں تو آخری لمحوں میں ہم اسپتال پہنچتے ہیں ویسے تو بیماری کے آثار دھیرے دھیرے دکھائی دینے لگتے ہیں سردی،بخار،سر درد،کھانسی،ان سب کو ہم اپنے علاقے کے میڈیکل اسٹورس سے دوائیں لیکر دبائے رکھتے ہیں اور ڈاکٹر کے پاس تک نہیں جاتے ۔ہم میں سے کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو میڈیکل اسٹور کے سیلس مین سے صلاح لیکر اپنا علاج کروالیتے ہیں۔کیونکہ اس سے ڈاکٹر کے پاس جانے کی جھنجھٹ نہیں ہوتی اور پیسہ بھی بچ جاتا ہے ایسے بھی لوگ ہیں جو ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں ،انہیں ڈاکٹر بھی بیماری دیکھ کر دوائی دیتے ہیں ،جس سے انہیں کچھ وقت کے لئیے فائدہ پہنچ جاتا ہے ۔کچھ لوگ اپنی صحت کو لیکر نہایت محتاط ہوتے ہیں اور ہر طرح کے میڈیکل اسکیم اور میڈیکل انشورینس اور میڈیکل اسکیموں کے ممبر بن جاتے ہیں ایسے لوگ ہمیشہ اپنی صحت کو لیکر ایک بھول بھلیا میں اپنی زندگی وقف کر دیتے ہیں۔ریگولر اپنا ٹیسٹ کرواتے ہیں اور صحت سے متعلق اپنے کاغذات سنبھال کر رکھتے ہیں۔ لیکن اتنا سب کچھ کر کے فائدہ کیا جب ہم اس پر عمل ہی نہ کریں۔زیادہ تر ٹیسٹ نیوٹریشن ڈیفیسینسی نہیں بتانے کی وجہ سے کرونک ڈسیز(پرانی بیماریاں) ہوتی ہیں امریکہ میں صحت کے میدان میں کام کرنے والی کمپنی نے جنوری ۲۰۰۶ ،میں مستقبل میں ہونے والی پرانی بیماریوں کا پتہ لگانے کے لیئے جینوم ٹیسٹ کی شروعات کی جس کا نام ہے پرسنالائزڈہیلتھ۔اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کے ہماری زیادہ تر بیماریوں کی وجہ ہمارے جسم میں پھیلا ہوا آکسیڈیشن ہے انسان اس کا حل ڈھونڈنے میں لگا ہے ۔لیکن یہ بات بھی اب ثابت ہو چکی ہے کہ ان لا علاج بیماریوں کا واحد حل قدرتی چیزوں سے قریب رہنے میں ہی ہے۔ قدرتی چیزوں سے مراد صحت کے لیے ہمیں قدرتی اشیاء کا بڑے پیمانے پر استعمال کرنا چاہیے ۔مثال کے طور پر اپنے کھانے میں فاسٹ فوڈ،میگی،نوڈلس ،برگر، وغیرہ کا استعمال کے بجائے ہری سبزی،تازہ پھلوں کا استعمال کرنے کی ہمیں عادت ڈالنی چاہیے ۔
بیماریوں کو دور کرنے کے لیے غذاؤں کا استعمال صدیوں سے چلا آرہا ہے لیکن بیسویں صدی کی شروعات سے سائنسدانوں نے اس پر ریسرچ شروع کیا ہے ڈاکٹر کارل ایف ریہن بورگ کا نام اس میدان میں ریسرچ کرنے والوں میں آتا ہے وہ کہتے ہیں کی سیل ہمارے جسم کا بیسک یونٹ ہے ہمارا جسم کئی ہزار کروڑ سیل سے بنتا ہے موجودہ لا علاج بیماریوں کی وجہ ایک لمبے عرصہ سے چل رہے سیل ڈی جنریشن سے ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر کارل کے مطابق تازہ اور اچھے فوڈ سپلیمینٹ کے استعمال سے ڈی جنریٹیڈ سیل کو ریجنریٹ کیا جا سکتا ہے اور بڑھتے ہوئے سیل ڈی جنریشن کو روکا جا سکتا ہے جس سے ہر شخص کو صحت مند زندگی گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ جیسا کے ہم سبھی جا نتے ہیں کے چیزوں کو بنانے میں وقت لگتا ہے اور بگاڑنے میں کم وقت لگتا ہے اس لیے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کے سیل ڈی جنریشن میں جتنا وقت لگا اس سے زیادہ سیل کو دوبارہ کھڑا ہونے میں لگ سکتا ہے چونکہ سیل کو دوبارہ تیار ہونے میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے بننے کی رفتار نہایت سست ہوتی ہے اس لئے اس کے بہتر نتائج کے لئے زیادہ وقت کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج کی بھاگ دوڑ کی زندگی میں ہم سبھی اتنے مصروف ہو چکے ہیں کی ہمارے پاس اپنی صحت کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ہے نیز ہم کسی بھی چیز کا جلدی نتیجہ چاہتے ہیں ۔جس کی وجہ سے جلد اثر انداز ہونے والی دواؤں کا استعمال کرتے ہیں جس کے نقصانات ہمیں آگے چل کر خود بھگتناہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کی ہم اپنی صحت کا اپنی غذا اور فوڈ سپلیمینٹ کے ذریعہ خیال رکھیں تا کہ آنے والی بیماریوں سے اپنی زندگی کو محفوظ رکھ سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *