
گوشت کی سیاست کرنے والوں سے مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟
عبدالعزیز
کیا ایوارڈ کی واپسی، سیمینار، مذاکرے اور اچھے اچھے بیانات کا فی ہیں؟
آر ایس ایس کا پہلا اور موثر ایجنڈا یہ تھا کہ وہ ملک کے اقتدار پر قابض ہوتا کہ اپنے دوسرے مقاصد کو بروئے کار لاسکے۔ 2014ء میں آر ایس ایس نے مسٹر نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچا کر اپنا پہلا ایجنڈا پورا کرلیا۔ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا مسلمانوں کے معنوی اور جسمانی وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
آر ایس ایس کے لٹریچر میں ایسا مواد بھرا پڑا ہے جس میں مسلمانوں کو دشمن قرار دیا گیا ہے اور ان کے مذہب اور تہذیب کو ملک دشمنی پر محمول کیا گیا ہے۔ بابری مسجد کے خلاف تحریک اور اس کی جگہ رام مندر کی عمارت کی تعمیر کا مقصد اقتدار حاصل کرنا تھا اور مسلمانوں کو پست ہمتی اور حوصلہ شکنی کے ماحول میں دھکیلنا تھا اس سے بھی ان کا کچھ نہ کچھ مقصد پورا ہوا مگر انہدام کے بعد رام مندر کی سیاست کچھ زیادہ کار آمد ثابت نہیں ہو رہی تھی، لہٰذا 1914ء میں ترقی اور خوشحالی کے ایجنڈا کو بنیاد بنایا گیا اور ملک کے عوام کو جھانسہ دینے میں سنگھ پریوار ایک حد تک کامیاب ہوا۔ کامیابی کے بعد فرقہ وارانہ قسم کے بہت سے معاملات چھیڑے گئے۔ لو جہاد، گھر واپسی، سوریہ نمسکار، یوگا وغیرہ مگر ان چیزوں سے بھی سنگھ پریوار کے فرقہ وارانہ مقاصد پورے ہوتے نظر نہیں آئے۔ گائے اور گوشت کی سیاست کا سلسلہ شروع ہوا۔ مہاراشٹر، ہریانہ میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی گئی اور اس گوشت کی سیاست کی بنیاد پر پورے ملک کی فضا کو زہر آلود بنا دی گئی۔ دادری میں محمد اخلاق کو گوشت خوری کے شک و شبہ کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا اور اسے نہایت معمولی واقعہ سے تعبیر کیا گیا۔ ریاست اور مرکز دونوں حکومتوں نے مجرموں کو بچانے کی کوشش کی۔ ملائم کے بیٹے کی سرکار مجرموں کے خلاف قتل کا مقدمہ تک دائر نہ کرسکی۔
گزشتہ روز ہماچل پردیش میں ایک مسلم نوجوان کو جانوروں کے کاروباری ہونے کی بنیاد پر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے اپنے ایک بیان میں مسلمانوں کو وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان ملک میں رہ سکتے ہیں مگر انھیں گائے کا گوشت کھانا چھوڑنا ہوگا۔ اس سے پہلے مودی حکومت کی کونسل کے ایک وزیر نقوی نے ایک ٹی وی چینل پر کہا تھا کہ جن کو گائے کا گوشت کھانا ہے وہ پاکستان یا عرب کے کسی ملک میں چلے جائیں۔ ساکشی مہاراج نے اعلان کیا تھا کہ گوشت جو بھی کھائے اس کا حشر محمد اخلاق جیسا ہوگا۔ ان سب کے بیانات پر غور کیا جائے تو یہ سب بیانات قانون شکنی پر مبنی ہیں مگر اقتدار کی کرسی پر یہ فائز ہیں۔ اس لئے قانون حرکت میں آہی نہیں سکتا۔ مسٹر مودی نے ایک انتخابی جلسہ میں جو کچھ کہا وہ انتہائی بے معنی سی چیز تھی جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندو اور مسلمان غریبی کے خلاف لڑیں۔ آپس میں نہ لڑیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان کو وہ لڑانا ضرور چاہتے ہیں مگر ہندو مسلمان کہیں لڑ نہیں رہے ہیں بلکہ سنگھ پریوار کا قبیلہ مسلم اقلیتی کو دبانے، کچلنے، قتل و غارت گری کرنے پر آمادہ ہے۔ یہ ایک طرفہ لڑائی ہے۔ مسلمان مجبور محض اور بے بس ہیں کیونکہ پولس اور فوج اور حکومت دکھاکر یہ جبر و ظلم کیا جارہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح کا بیانِ مقدس کسی واعظ کو زیب دیتا ہے مگر جسے اختیارات حاصل ہیں وہ اختیارات کا نہ استعمال کرے اور نہ ہی اپنی پارٹی کے اس حصہ کو جو نہ صرف بلوائی کا رول ادا کر رہاہے بلکہ دہشت گردی اور ٹیررسٹ کا کردار ادا کر رہاہے۔ اسے کھلی چھوٹ دے دی جائے نہ اس کی گرفت ہو اور نہ اس پر قدغن لگایا جائے۔
ظاہر ہے جو لوگ یہ غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام انجام دے رہے ہیں ان کے خلاف پہلا کام تو یہ ہونا چاہئے کہ ملک بھر میں رائے عامہ ہموار کی جائے۔
دوسرا کام یہ ہونا چاہئے کہ قانونی چارہ جوئی لیگل سیل کے ذریعہ انجام دیا جائے۔
ملک کے ایسے غیر سرکاری ادارہ یا این جی اوکو متحد کرنے کی کوشش کی جائے جو فرقہ پرستوں اور جمہوری اور انسانی قدروں کے دشمن سے لڑائی لڑسکیں۔
یہ سب ایک حد تک کارگر ہوسکتے ہیں مگر ضرورت ہے سیاسی میدان میں جو لوگ ان کا مقابلہ کر رہے ہیں ان کا پورے طور پر بے خوف و خطر ساتھ دیا جائے۔ ایسے لوگ جب تک اقتدار کی کرسی پر فائز رہیں گے ملک بدنظمی، بدامنی اور عدم سلامتی کا شکار رہے گا اور اس کی فکر سنجیدگی اور مستعدی سے نہ کی گئی تو ملک کو تباہی اور بربادی سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ہے۔