ملک میں بڑھتی بے روز گاری اوراعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی مایوسی

٭خلیل الرحمان خان
گزشتہ دنوںلکھنؤ انتظامیہ نے 368چپراسیوں کی بھرتی کیلئے اشتہار جاری کیا تھا ، اس پر23 لاکھ امیدواروں کی درخواستوں نے سرکاری مشنری کے ہوش اڑا دیئے ۔ اس معاملے میں سب سے حیرت انگیز پہلو یہ رہا کہ سکریٹریٹ میں چپراسی کی اسامی کیلئے درخواست داخل کرنے والوں میں5.1لاکھ بی ٹیک، بی ایس سی اور بی کام گریجویٹ،25ہزار امیدوار ماسٹر ان سائنس، کامرس اور آرٹس اور 255امیدوار پی ای ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ڈگری یافتہ تھے۔اس سرکاری اشتہار میں چپراسی کی نوکری کیلئے پانچویں پاس ہونا اور موٹر سائیکل چلانا آنا ضروری قرار دیتے ہوئے صرف آمنے سامنے انٹرویو کی شرط رکھی گئی تھی۔ ایک معاصر نیوز چینل کی تحقیقات کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں امیدواروں کا انٹرویو لینے میںہی انتظامیہ کو 20 سال کا عرصہ لگ جاتا۔ان اعداد و شمار کے جاری ہونے کے بعد تنقیدوں میں گھری یوپی سرکار نے آخر کار ان اسامیوں کو ہی منسوخ کردیا۔ اس نوکری کیلئے درخواست داخل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کے مطابق پی ایچ ڈی او ماسٹرس کی ڈگری ہونے کے باوجود بے روزگاری کا درد سہنے سے بہتر ہے کہ چپراسی کی نوکری کرلی جائے۔مندرجہ ذیل واقعہ ہمارے ملک میں بڑھتی بے روز گاری اوراعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کی مایوسی کی عکاسی کرتے ہوئے دنیا میںسب زیادہ نوجوانوں پر مشتمل ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک کے کھوکھلے نظام اورناکارہ سرکاری پالیسیوں کی قلعی کھولتاہے۔
زندگی کی معاشی ضروریات کی تکمیل کیلئے مناسب روزگار کی اہمیت مسلم ہے۔ لیکن جب لاکھ کوششوں کے باوجود اس کی دستیابی نہ ہوتو فرد میں مایوسی، افسردگی اورخود اعتمادی میں کمی کے عنصر کی افزائش ہونا فطری عمل ہے۔جس کا بھیانک نتیجہ خاتمۂ ِزیست(خودکشی) یا پھر جرائم کے ذریعہ خواہشوں کی تکمیل کے روپ میں سامنے آتا ہے۔دورِ حاضر میں ہمارے معاشرے میں یہ دونوں نتائج کثرت سے ظہور ہورہے ہیں۔ اقتصادی تنگی کے باعث خودکشی کی شرح میں خطر ناک طور پر روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ انواع اقسام کے جرائم بھی بڑھے ہیں ۔ آج کل بے روزگاروں کو پرُکشش نوکری کا لالچ دیکر ٹھگنے کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ روزانہ مختلف مقامات سے خبریں آتی ہیں کہ کسی نے سرکاری نوکری دلوانے یا ملٹی نیشنل کمپنی میںملازمت لگوانے کے نام پرروپیئے بٹورے اور امیدواروں کو دلاسے اور کفِ افسوس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ گزشتہ کچھ ہفتوں میں اس طرح کے واقعات میں کروڑوں کی دھوکہ دھڑی متعدد خبریں سرخیوں میں رہی ہیں۔نوکری کا لالچ دے کرامیدواروں سے لاکھوں روپیوںاینٹھنے کا دھندہ بھی عروج پر ہے۔اندرونی سازباز اور بدعنوانی سے چند لوگوں کو نوکری مہیا کرنے کا کاروبار بھی زور پکڑتا جارہا ہے۔کئی مقامات پر ان معاملوں میں سرکاری مشنری کے ملوث ہونے سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ہریانہ میں’ شکشک بھرتی بدعنوانی‘ اور مدھیہ پردیش کا’ ویا پم گھوٹالہ‘ اور اس طرح کے درجنوں واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔اب تو بسوں ، ٹرینوں، ریلوے اسٹیشنوں ا ور عوامی ذرائع ابلاغ پر مختلف قسم کی نوکریوں اور پلیس منٹ کمپنیوں کے اشتہار نظر آتے ہیں ۔جن میں فوراََ ملازمت کے ساتھ پرکشش تنخواہوں کا تذکرہ کرکے بے روزگاروں کو راغب کیا جاتا ہے۔ ان دھوکہ بازوں کے جال میں زیادہ تر نئے گریجویٹ یا پھر انتہائی مایوسی کا شکار نوجوان آسانی سے پھنس جاتے ہیں۔ یہ اشتہار باز روزگار کے متلاشیوںکو فارم بھروا کر روپئے جمع کرنے کی تاکید کرتے ہیں اور کچھ دن انتظار کا دلاسہ دے کر ٹال مٹول کرتے ہیں یا پھر پیسوں سمیت رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ ایسے دھوکہ بازوں کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا یہ صیاد اپنے فریب میں لوگوں کو پھنسا کر ایسے غائب ہوجاتے ہیں ،جیسے گدھے کے سر سے سینگ اور امیدوار بیچارہ ان کا فون نمبر ملاتے ہی رہ جاتا ہے۔اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی نوکریوں کی فراہمی کے جھانسے کا جال کشادہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی امیدواروں کا انٹرویو لیتے ہیں، پیسے بھرواتے ہیں اور کچھ انتہائی خفیہ معلومات(بینک اکائونٹ نمبر اور پاس وورڈ) بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔اس کے بعدجب امیدوار ان کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچتا ہے تو وہاں سے کمپنی ہی ندارد ہوتی ہے۔ کچھ معاملوں میں چند لوگوں کو نوکری ملتی بھی جاتی ہے لیکن ان سے حاصل تنخواہوں میں سےبھی ایک حصہ پلیس منٹ ایجنسیوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔لیکن آن لائن کے زیادہ ترمعاملوں میں شاطر بدمعاش اپنا کمال دکھاتے ہوئے بے چارے امیدوار کو قلاش کر ہی جاتے ہیں۔ ایسے دغا بازوں سے تحفظ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی آپ سے نوکری دلوانے کیلئے رقم کا مطالبہ کریں تو ہوشیار ہوجایئے کہ یہ’ رانگ نمبر ہے‘ کیونکہ کوئی بھی حقیقی کمپنی نوکری کیلئے پیسے نہیں لیتی بلکہ فرد کی محنت کے عوض معاوضہ دیتی ہے۔مزید یہ کہ اگر فرد میں صلاحیت ہے تو وہ کہیں نہ کہیں وہ اپنی جگہ بنالیتا ہے۔
علاوہ ازیں بے روزگاروں کیلئے روزگار میلے کے انعقاد بھی خوب زوروں پر ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اور این جی اوز ان کے ذریعے شہرت اور عوامی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ان روز گار میلوں کا عمیق مشاہدہ کیا جاے تو بات روشن ہوجاتی ہے کہ ان میں سے زیادہ تر شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے ذریعہ بے روز گاروں کو نچلے طرز کی نوکریاں مل جاتی ہیں اور اس میں شامل کمپنیوں کو بھی سستے مزدور آسانی سے فراہم ہوجاتے ہیں ۔ جس سے ان کے منتظمین بھی اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس طرح کا کام کرنے والے تمام ادارے اورافراد کے خلوص کو مشتبہ نظروں سے دیکھا جائے۔ آج بھی کچھ ادار ے اور تنظیمیں پوری نیک نیتی اور ٹھوس لائحہ عمل کے ساتھ امیدواروں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں خودکفیل بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ایسی مزید کاوشوں کی ضرورت ہے۔بڑھتی بے روزگاری کے مسئلے میں حکومت کی پالیسیوں کی ناکامیوں کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا جب یہ حال ہے کہ و ہ ایک چپراسی کی نوکری کیلئے لاکھوں کی تعداد میں درخواست دے سکتے ہیں تو غیر تعلیم یافتہ کا لوگوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔ سرکار کی’ منریگا ‘ اور اس جیسی دیگر اسکیموں کی زمینی حقیقت اظہر من الشمس ہیں۔ اب ایسے حالات میں ترقی کے کھوکھلے دعو ئوں کی بجائے، سنجیدگی سے ٹھوس لائحہ عمل بناکرلوگوں کو خودکفیلبنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا ہوجائےتو معاشرہ خودبخود ترقیکرے گا اور بے کاری کے سبب پنپنے والے جرائم میں بھی کمی آجائے گی۔