
یکساں سول کو ڈ کی سا زش اور ملت کی ذمہ داری
بشر یٰ نا ہید کر لا ،ممبئی
حال ہی میں بی جے پی سے وابستہ تنظیم ـ’’ را شٹریہ مسلم منچ ‘‘ نے یکسا ں سو ل کو ڈ کا شگو فہ چھو ڑا ہے۔جب سے نئی سر کا ربنی ہے مسلما نوںکو اشتعال میں لا نے کے لئے بالخصوص مسلم اشوزکو ٹا رگیٹ کر کے یکے بعد دیگرے اٹھایا جا رہا ہے ، با لکل صاف ظاہر ہے کہ یہ اسلام کی مخالفت و مسلم دشمنی کے سو ا کچھ نہیں ۔ درحقیقت یکسا ں سو ل کو ڈ کے بہا نے حکو مت دیگر پسما ندہ اور اقلیتی طبقات پر اپنا شکنجا کسنا چاہتی ہے ۔غو ر کر نے کی بات یہ ہیں کہ کیا حکو مت واقعی یکساں قوا نین کا نفا ذ چا ہتی ہے ؟ اگر ہاں ‘ تو کیا یہ قانون ان سر دا روں کے لئے بھی ہو گا جو بنکو ں میں ہی نہیں ہر جگہ تلوار اپنے سا تھ رکھتے ہیں ؟ بھا نجی سے نکا ح کر نے کا حق ر کھنے والے کر نا ٹک کے ریا ستی قانون کوبھی ختم کر یگا ؟ تیس سال سے زیادہ عمر والی خا تو ن کو بیٹانہ ہو نے پر ہند وشوہر کو دوسری شا دی کا قانو نی حق دینے والی گو ا سو ل کو ڈ سے اس قا نو ن کو خا رج کر وا ئے گا ؟ یہ قا نون سنتھا را کے نا م پر خو د کشی کر نے و الی جین مذہب کی خو اتین کے خلاف بھی ہو گا ؟ سر عام بر ہنہ رہنے و الے سا دھو ئو ں کے خلا ف بھی ہو گا ؟
اس کے پس ،پردہ در حقیقت یکسا ں سو ل کو ڈ کے ذریعہ پسما ندہ طبقات کو ملنے وا لے ر یز ر ویشن کو ختم کر نا ہیں ۔ یکسا ں سو ل کو ڈ کے نا م پرملک کے دیگر مذاہب کو نظر اندازکر کے بہت شا طرانہ انداز میں خا ص طو ر پر طلا ق ، خلع، چا ر شادیاں ، شاہ با نو وغیرہ کو ہی زیر ِ بحث لا یا جا رہا ہے ۔
ان حالات میں ملت کی یہ ذمہ دا ری ہیکہ ان سا زشوں کو ایک مو قع سمجھ کر اسلامی شر یعت کا تعا رف کر وا ئے ۔ ہم ا نہیں یہ سمجھا ئے کہ ازدواجی تنا زعا ت کے حل کی کو ئی صورت با قی نہ رہنے پر انتہا ئی نا گزیر حالات میں اختیار کیا جانے والا آخر ی راستہ ’طلاق ‘ ہے اورخلع کے ذریعہ عورت بھی طلاق ما نگ سکتی ہے و غیر ہ ۔شاہ با نو کہ معاملے کو کس طر ح ما ضی میں اچھالا گیا ہم جا نتے ہیں اگر اسکے قر یبی لو گ مسلہ حل کر دیتے تو کچھ لو گو ں کواسلام کو بدنام کر نے کا مو قع نہ ملتا۔
مسلما نو ں کی ذمہ دا ری ہیکہ اپنے اطر اف میں ہو نے والے ازدواجی تنا زعات کو حل کر نے کی ہر ممکنہ کو شش کر یں، اگر کا میابی نہ ملے تو اپنے شہر کی شرعی پنچایتوں سے رجو ع کر یں ۔ حتی المکان یہ کو شش ہو کہ یہ معملات کو رٹ تک نہ جا پا ئے ‘گھریلو تنا زعات کا تصفیہ کر یں ، رشتہ و نسبت کی کو شش کریں ، بیوا وئوں و طلاق شدہ بے سہاراخوا تین کے نکا ح ثانی کر وائے ، وقف بورڈ سے ملنے والے و ظائف مستحق خو اتین کو فراہم کر وا ئیں ۔ غر ض ہم اس کی نو بت ہی نہ آنے دیں کے ہما رے جاننے والے جوڑے کا کو رٹ میں کیس چلے۔ اور با طل طاقتوں کے لئے مثال بنے کہ مسلمان اپنی خوا تین کو ان کے حق نہیں دیتے ہے ان پر ظلم کر تے ہیں اور وہ مجبور ہو کر اپنی فر یاد عدالتوں اور میڈیا میں لاتی ہیں ۔